فیصل آباد میں ایک رہائشی کالونی ہے‘ اس کا نام ریاض الجنہ‘ ہے یہ فیصل آباد سمال انڈسٹریز کے بغل میں چک نمبر سات کے بالکل سامنے واقع ہے۔ یہ سرگودھا روڈ کے دائیں طرف تقریباً آج کلو میٹر کے فاصلے پر اس کے برابر چلی جاتی ہے۔شروع میں اس سڑک کا نام پانچ پلی روڈ ہوا کرتا تھا۔پانچ چھوٹے چھوٹے نالے اسے کراس کرتے تھے جس کی وجہ سے اس کا نام پانچ پلی سڑک مشہور ہو گیا۔بیس پچیس سال پہلے اس سڑک پر تبلیغی جماعت کے عمائدین نے ایک قطعہ زمین خرید کر تبلیغی مرکز اور مسجد اسماعیل کی بنیاد رکھی تو یہ سڑک مسجد اسمٰعیل روڈ کہلانے لگی، جب کورین کمپنی کو لاہور اسلام آباد موٹر وے کا ٹھیکہ ملا تو انہوں نے پاکستان میں ڈائیوو بسیں بھی چلانا شروع کر دیں۔ فیصل آباد میں اس کورین کمپنی کی بسوں کا اڈہ اسی سڑک پر ہے۔ جب سے کورین کمپنی کی بسوں کو شہرت ملی تب سے اس سڑک کو ڈائیوو روڈ کے نام سے بھی پکارا جانے لگا ہے شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ چلو تم ادھر کہ ہوا ہو جدھر کی۔ راقم الحروف کا گھر اسی سڑک پر واقع رہائشی کالونی ’’ریاض الجنہ‘‘ میں ہے۔یہ کافی بڑے وسیع رقبے پر بنائی گئی ہے۔ہمارے چھوٹے سے گھر کے سامنے ایک رانا صاحب آئے۔ انہوں نے پانچ چھ پلاٹ خریدے۔ سب کو ملا کر ایک بڑا سا گھر بنایا اس گھر میں انہوں نے اعلیٰ نسلوں کے بہت سے کتے پال رکھے تھے ،ان میں ایک السیشن نسل کا کتا بھی ہے۔ بھاری اور بارعب آواز اور اس سے زیادہ بھاری تن و توش اور قدوقامت کا کسی بڑے بل ڈاگ سے بھی نکلتا ہوا قد۔ پورا بیل کا بیل۔اتنے بڑے قد کا السیشن اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ہمارے پوتے‘ پوتیاں ‘نواسے اور نواسیاں اس کی بھونک سن کر سہم جاتے، حسب معمول ایک شام سیر کے لئے نکلا تیز قدموں جا رہا تھا ،سامنے خالی پلاٹ میں وہی قد آور السیشن کھڑا تھا، وہ بھونکتا ہوا تیزی سے میری طرف لپک کے آیا وہ شہری کتا ہم دیہاتی آدمی گائوں میں سیکھی تکنیک آزمائی وہ یہ کہ جس رفتار سے وہ بھاگ کے آیا۔اس سے بھی زیادہ تیزی سے دھت تیرے کی کہتے ہوئے اس کی طرف دوڑ لگائی۔کتا موصوف حیرت انگیز تیزی سے پیچھے کو بھاگا اور بھاگتا ہی چلا گیا ۔نہ اس نے کوئی آواز نکالی نہ پیچھے مڑ کر دیکھا۔اتنا جسیم‘ بارعب اور بزدل کتا زندگی میں پہلی بار دیکھا۔جمیل احسن گل آج کل فیصل آبادکے مشہور بزرگ اور سینئر وکلاء میں شمار ہوتے ہیں، ان کے سینئر اور بزرگ ہونے سے ہم نے جانا کہ ان کی طرح مشہور نہ سہی بزرگ اور سینئر تو ہم بھی ہو گئے ہوں گے ۔جاوید ہاشمی‘ حفیظ اللہ نیازی بھی اس لئے کہ ہم زمانہ طالب علمی سے ایک دوسرے کے دوست تھے اور ہیں بھی۔ گل صاحب کے کوئی جاننے والے صاحب تھے وہ ہمیشہ سر پر پگڑی باندھے رکھتے، کبھی اتارتے نہیں تھے۔ شیخ رشید اور چوہدری نثار کی طرح۔ مگر جمیل گل صاحب کے دوست پگڑی میں اپنا دایاں کان ڈھانپ کے رکھتے ۔سوئے اتفاق ایک دن سر محفل پگڑی ڈھلک گئی، دوستوں پر تب کھلا کہ ان کا دایاں کان غائب ہے۔ اس کی جگہ بس ایک سوراخ ہی نظر آتا ہے، دوستوں نے پوچھا یار تمہارا کان کیا ہوا؟بس اسی پوچھ گچھ سے گھبرا کے ہی سر پر پگڑی رکھتا ہوں، اسے سوتے میں بھی نہیں اتارتا۔نہاتے وقت غسل خانے میں جا کر اتارتا اور باہر نکلنے سے پہلے پھر سے سر پر رکھ لیتا ہوں ۔نہر ،دریا ،ٹیوب ویل پر دوستوں کے ساتھ تفریح کے لئے نہ جاتا کہ ان کے سامنے نہانے پر مجبور ہو کر اپنا یہ عیب نہ کھول بیٹھوں مگر کئی دہائیوں کی محنت آج اکارت گئی۔ آج میرا عیب سب دوستوں پر کھل گیا۔دوستوں نے اسے تسلی‘دلاسہ دیا کہ اس میں کچھ تمہارا قصور نہیں‘تم نے اپنا کان خود تو نہیں ہٹایا ہو گا۔حادثہ تو حادثہ ہے بس گزر گیا مگر یہ ہوا کیسے؟بس کیا کہوں ہمارے بزرگوں اور گائوں کے سیانوں(دانشوروں ) نے اپنی ایسی تیسی کروائی ۔مگر کیسے؟ دوستوں نے اصرار کیا۔ بولے:بچپن میں سنتے آئے تھے کہ اگر کوئی آوارہ کتا کاٹنے کو آئے تو جھٹ سے زمین پر بیٹھ جائو اور یہی ہوا ایک دن بڑا سا کتا جو بھاگتا ہوا کاٹنے کو آیا تو میں زمین پر بیٹھ گیا اس دن سے یہ کان نہیں ہے۔ دراصل آج امریکہ سے آئے دھمکی آمیز خط کے تناظر میں پی ڈی ایم کی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک‘ تحریک عدم اعتماد کے انجام اور اس کے بعد پیدا ہونے والے اثرات‘ اسٹیبلشمنٹ کی بے چارگی اور عمران خان کی جارحانہ پیش قدمی پر لکھنے کا ارادہ تھا کہ اس دوران جمیل گل صاحب کا فون آ گیا۔جنہوں نے کہا جب سے عمران خان کی تقریر سنی اس دن سے ایک واقعہ ذہن میں تازہ ہو گیا تب سے سوچتا ہوں کسی کو تنائو۔اچانک خیال آیا آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے۔ان کی سنائی کہانی بعد میں عرض کرتا ہوں مگر اس کہانی مزید واقعات تازہ کر دیے جو اوپر لکھے ہیں‘سوچتا ہوں امریکہ ہمیشہ سمجھے بغیر قدم اٹھاتا ہے جنگ کے لئے افغانستان کا میدان ہو یا دھمکی کے لئے عمران خان کا انتخاب اگر اس نے افغانستان کی بجائے کسی اور ملک کا انتخاب کیا ہوتا یا عمران خان کی بجائے زرداری یا نواز شریف کے لئے خط لکھا ہوتا تو کیسا رعب جم جاتا۔وہ اپنے کان گنوا کے کبھی کا پگڑ میں چھپائے پھرتے۔بدقسمتی سے عمران خاں کو مرعوب کرنے کے لئے دھمکی کی مٹی پلید کروا بیٹھے۔ اب یہ جسیم السیشن بھاگنے میں ہلکان ہوا جاتا ہے۔ہر روز ایک تازہ وضاحت نیا بیان کبھی وائٹ ہائوس‘ کبھی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ۔ جمیل گل صاحب نے کہا جن دنوں پنجاب یونیورسٹی ہوسٹل میں تھا، میرے ماموں نوید گل اور ان کے کاروباری شراکت دارملک جاوید تشریف لائے، ان کے ہمراہ سرگودھا کے دو ٹھیکیدار بھی تھے۔بوسکی کے کرتے ،لٹھے کی شلواریں ‘سر پر پگڑ‘ پائوں میں کھسے، بھاری مونچھیں ،لمبے قد متاثر کن شخصیات‘ ملک جاوید فریدہ خانم کی گائیکی سے بہت متاثر اور شوقین تھے۔ بولے ؛چلو تمہیں آج فریدہ خانم کو براہ راست سناتے ہیں۔بڑی سی کار میں پانچوں دوست شاہی محلہ کی اس گلی میں پہنچے جہاں فریدہ خانم کی حویلی تھی ۔کچھ فاصلے پر کار کھڑی کر کے گلی میں داخل ہوئے تو سامنے سے ایک بڑا ہی بارعب شخص آتا دکھائی دیا۔ ساڑھے چھ فٹ قد۔ بھرا بھرا جسم، بوسکی کی قمیض ،سفید شلوار پائوں میں چمکتی ہوئی پشاور چپل۔ بڑی ہی باوقار دبدبے والی شخصیت جب وہ قریب آیا تو اس نے اپنی شخصیت اور وضع قطع کے برعکس بڑی بے تکلفی سے ملک جاوید کو مخاطب کیا اور عاجزانہ طریقے سے ملا، ہم لوگ اس کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے۔سرگودھا کے دوست نے آہستگی سے ملک جاوید سے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ہمارا بھی تعارف کروائیے۔اگرچہ انہوں نے آہستگی سے پوچھا تھا مگر اس نئے آدمی نے آواز سن لی اور بڑی خوشامدانہ عاجزی سے جھک کے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ جناب مجھے مودا کنجر کہتے ہیں ۔آپ ملک صاحب کے مہمان ہیں ،کہیے کیا خدمت کروں؟ہماری حیرت کی انتہا نہ تھی ،ایسی بارعب متاثر کن شخصیت اور اندر سے مودا کنجر تھا ۔میں نے کہا لوٹ چلیں مگر وہ غزل سنے بغیر نہیں لوٹے۔ گل صاحب نے کہا یہ تمہارا عمران خاں65سال کی عمر کے بعد بھی ایسا ہی سادہ ہے جیسے ہم یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی میں تھے وہ اب تک نہیں جانتا جنہیں وہ الیکٹ ایبل سمجھ بیٹھا ہے وہ اس جیسے ہی ہیںجس سے ہم متاثر ہو گئے تھے۔