پاکستان کے نوجوانوں کو ہیجان میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں‘ ان کی جدوجہد عنقریب بارآور ہونے والی ہے۔تاریخ اسلام کے اہم اور فیصلہ کن دنوں میں ان کی قیادت بہترین ہاتھوں میں ہے‘ وہ انہیں آگ میں جھونکے اور ہلاکت میں ڈالے بغیر منزل کی طرف لئے جاتا ہے‘اشتعال اور کبھی انتہائے مایوسی کے لمحوں میں بھی اس نے صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا ہے‘عمران خاں کی قوت برداشت ہی پاکستان کا استحکام ہے‘ انہوں نے اپنی مقبولیت اور نوجوانوں خصوصاً خواتین کی غیر مشروط اور بے پناہ حمایت اور طاقت کے ہوتے ہوئے کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کیا‘17جولائی سے 22جولائی تک جو کھلواڑ کیا گیا‘ جس طرح کھلم کھلا دھاندلی اور بے ضابطگی کے ساتھ اس کی کامیابیوں کو ناکامی اور جیت کو ہار میں بدلنے کے جتن کئے گئے اور اس مذموم مقصد کے لئے ساری کی ساری سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے غلط بخشیوں میں ملوث ہوئے وہ طبل جنگ بجانے کے لئے کافی تھا‘ کل جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا اس نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی کہ عوام مشتعل ہو کر اسمبلی میں گھس جاتے‘ بلاول ہائوس اور شجاعت حسین کے گھروں کی دیواریں پھلانگ لیتے‘ پھر وہی کچھ دہرایا جاتا تو گزشتہ دنوں سری لنکا کے شہر کولمبو میں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس کے ساتھ ہوا مگر ان جذباتی لمحوں میں تحریک انصاف کی قیادت خصوصاً عمران خاں نے بڑے تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو اپنے شہروں میں احتجاج کے لئے نکلنے کو کہا لاہور کے شہری جو ان جذباتی اوقات میں بہت زیادہ خطرناک ہو سکتے تھے انہیں ’’لبرٹی چوک‘‘ میں اکٹھے ہونے کا کہا اور یہ بھی کہ وہ دس بجے اپنے کارکنوں اور قوم سے خطاب کریں گے‘ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ عوام جائے واردات سے دور ایک میدان میں اکٹھے ہو کر اپنے قائد کا انتظار کرنے لگے ان کا رنج اور اشتعال انتظار میں صرف ہو گیا۔ ہجوم کا انصاف کرنے کی بجائے انصاف مانگنا‘ پرامن رہنا قیادت کی کامیابی اور کارکنوں کے عمل کا شہکار ہے‘یہ کس قدر حوصلہ افزا ہے اور عوام اسمبلی یا ڈاکوئوں کے گھروں میں گھس جانے کی بجائے سپریم کورٹ چلے گئے بھلے وہ رات کا وقت اور سپریم کورٹ بند تھی مگر اس کے کھلنے کا انتظار غصے میں کھولتے رہنے یا قانون کو ہاتھ میں لینے سے ہزار درجہ بہتر ہے‘ ایسے واقعات اداروں کے لئے بھی تقویت کا سبب بنتے ہیں۔ ایک کاغذ پر اسمبلی میں حمزہ شہباز کی کامیابی کے ہزار امکانات کی فہرست بنائی جائے تو ان ہزار میں بھی چودھری شجاعت کا پرویز الٰہی کے خلاف خط کہیں ’’فٹ‘‘ نہیں آتا‘ اسی طرح کی انہونی کو ہونی کہتے ہیں ان واقعات پر اداس ہوں نہ پریشان منافقوں کی پہچان ہونے دیں اسی طرح آپ کی محفل خالص اور مخلص لوگوں کی آماجگاہ بن جائے گی۔عوام ہی عوام کی امید ہیں‘ عوام ہی پاکستان کے اصل مالک و مختار ہیں۔اسٹیبلشمنٹ ان کی ملازم اور خدمت گار ہے‘ اگر آپ تھوڑی دیر اسی طرح صبر اور استقلال سے کھڑے رہ گئے تو قوم صحیح راہ چل نکلے گی‘ جلد ہی میرٹ اور قانون کی حکمرانی کا دور ہو گا‘ ’’نیا آرڈر آف دی ڈے‘‘ لکھا جائے گا نظام حکومت و سلطنت بدلنے میں مدد ملے گی۔اداروں میں تطہیر ہو گی‘ مافیاز کو زیر زمین دفن کر دیا جائے گا‘ ادارے اپنے کام سے کام رکھنے پر مجبور ہونگے‘ صاف اور شفاف ہوتے جا رہے اور اسی سال انشاء اللہ‘ اکتوبر میں ان کا انعقاد ہو جائے گا۔نومبر والے صاحب اب پہلے کی طرح نہیں رہے‘ آپ نے بچوں کی وہ نظم تو بچپن میں پڑھ ہی لی ہو گی کہ : ضعیفہ پھٹے کپڑے پہنے کھڑی تھی ضعیفی سے اس کی کمر جھک گئی ہے گزشتہ تین دن کے واقعات پر شائد آپ نے زیادہ غور نہیں کیا‘ ایک یہ کہ عمران خاں نے دو اہم تقاریر کی ہیں۔ دونوں تقاریر کے لئے لبرٹی چوک میں لوگوں کو اکٹھا ہونے کا کہا گیا اور ملک بھر کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں لوگوں نے بڑی بڑی سکرینیں لگا کر ان تقاریر کو سنا۔ ایک تقریب پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے پہلے اور دوسری اس انتخاب میں ’’دھاندلی اور جھرلو ‘‘ پھرنے کے بعد کی گئی تھی۔کل جو کچھ اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر نے کیا یہ ان کی ہمت اور اوقات سے بہت بڑھ کر تھا‘ وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتے تھے ان سے کروانے والے پس پردہ’’کردار لاکھوں ووٹر کو ورغلا نہ سکے لیکن ایک مزاری ان کے پاس کا تھا سو انہوں نے کیا۔یہ سب دیکھ کر بھی عمران خاں نے ان خفیہ کرداروں سے اپنی دونوں تقاریر میں صرف نظر کیا ہے’ امریکہ سے آئے ’’سائفر‘‘ عملدرآمد کرنے والے کرداروں کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا رخ مافیا اور کٹھ پتلیوں کی طرف کئے رکھا‘ عوام کو عدلیہ کی طرف متوجہ کیا‘ واقعات تلخ ہونے کے باوجود ان کا لہجہ دھیما تھا‘ نیوٹرل کو نظر انداز اور ایکس وائی مرفوع الذکر ٹھہرے اس کی یقینا خاص وجہ ہو سکتی ہے اس پر کسی نے بھی خاص توجہ نہیں دی یہ توجہ طلب ہے۔ دوسرا اہم واقعہ جس پر توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ پرسوں ہونے والی ’’نیشنل سکیورٹی اداروں‘‘ کی میٹنگ ہے جس کی صدارت جوائنٹ سروسز کمیٹی کے چیئرمین نے کی‘ اس میٹنگ میں ملک کے اندر اور سرحدوں سے باہر خطرات کے بارے تفصیلی غور و فکر کیا گیا ہے‘ ہم سب جانتے ہیں اس وقت ہماری قومی سلامتی کو درپیش خطرات بیرونی کم اور اندرونی زیادہ ہیں‘اس اجلاس میں ’’وہی‘‘ سب کچھ نہیں تھے ‘جی ہاں ’’ وہی‘‘ سے میری مراد ’’وہی ہیں‘‘ جو کبھی خالصہ کی طرح اکیلے سوا لاکھ تھے وہ اکیلا سوا لاکھ اب ’’بہت سوں‘‘ میں ایک ہیں بہت سے بہت سمجھدار اور برابر کے لوگ ہم چشم ہم راز نہ بھی ہوں تو سب راز ان آشکارا ہیں ایک تو ’’شیلف لائف‘‘ ختم ہوئی جاتی ہے دوسرے سب تدبیریں الٹی ہو گئیں کچھ نہ دوا نہ کام کیا۔عوام کا ردعمل ‘ حریف کی مقبولیت اپنی جگہ بھیانک حقیقت بن کر فرعون کے جادوگروں کے رسیوں سے بنائے سانپوں کو عصائے موسیٰ کا اژدھا چاٹ چکا ہے‘ مارے حیرت کے چوکڑی بھول گئے‘ مجبوراً فیصلہ سازوں کو اپنی سلامتی کی فکر میں کچھ ہاتھ جھٹک کر آگے بڑھنا ہے اور وہ بڑھ چکے ہیں‘ نتائج کا انتظار زیادہ دن نہیں کرنا پڑے گا۔خوشخبری ہے تحریک انصاف کے لئے کہ ان کی جدوجہد‘ ثابت قدمی اور عوام کی تائید رنگ لانے لگی ہے‘ نئے انتخابات کی تیاری کریں‘ خوشی منائیں کہ آپ کی محفلوں سے منافقین ظاہر ہوتے جا رہے ہیں‘ ظاہر ہو گئے ہیں‘ ان سے جان چھوٹ جانے پر سب کو خوش ہونا چاہیے‘ شاید وہ اس سے زیادہ مشکل پیچیدہ یا نازک وقت میں مدینہ کے منافق عبداللہ ابن ابی کی طرح اپنا تین سو کا لشکر لے کر الگ ہو جاتے اور پوری کی پوری بستی مدینہ کو خطرے میں ڈال دیتے۔جو کچھ ہوا بروقت ہوا۔کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا‘ یہ پورا ہو جائے گا‘ بہر صورت انتخابات سر پر ہیں تیاری کریں تیاری۔