کوئی معاشرہ اگر زوال و انحطاط کا شکار ہوتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ اور اسے حالت زوال سے نکال کر ترقی کے بام عروج پر کس طرح پہنچایا جا سکتا ہے؟ پچھلے کالم میں ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا۔ ساتھ ہی یہ بات طے پائی تھی کہ تبدیلی پہلے خیال کی سطح پر آتی ہے اور پھر وجود میں یا اعمال میں منتقل ہوتی ہے۔ جب خیالات منجمد ہو جائیں ذہن نئے خیالات کو سوچنے اور قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے، دوسرے لفظوںمیں خیالات اورافکار و تصورات ٹھٹھر کر رہ جائیں‘ تقلید جامد کا شکار ہو جائیں۔ ان میں قوت نمونہ رہے تو زوال ایسے معاشروں کا مقدر بن جاتا ہے۔ تہذیب و معاشرت کی مثال ایک بہتے ہوئے دریا کی سی ہوتی ہے جس میں مختلف ندی نالے آ کر گرتے ہیں اور دریا انہیں اپنے اندر سمو کر بہا لے جاتا ہے۔ ایسی حالت میں کوئی بھی حکومت محض قانون اور تادیب و تعزیر کے بل بوتے پر تبدیلی لانا چاہے تو نہیں لا سکتی اور ایسی حکومت تو بالکل بھی نہیں لا سکتی جو خود اپنے داخلی تضادات کا شکار ہو اور اس میں بھانت بھانت کے عناصر اکٹھے ہوں۔ معاشرے میں اصلاح اور تبدیلی کے لئے جو تنظیمیں اور جماعتیں کام کر رہی ہیں وہ بھی اسی لئے ناکام ہیں کہ انہوں نے تہذیبی اور معاشرتی خرابیوں کا کوئی مبسوط اور حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں کیا۔ ان کا گمان ہے کہ فرد کو اخلاقی اعتبارسے ٹھیک کر دیا جائے تو معاشرہ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن وہ یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ فرد کو اخلاقی طور پر کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے جب کہ ماحول اور نظام ہی بگڑا ہوا ہو۔ پیچیدگی سب سے بڑی یہ ہے کہ فرد کو اصلاح کا مرکز و محور بنایا جائے تواس کی اصلاح میں ماحول اور سسٹم رکاوٹ بن جاتا ہے اور ماحول اور سسٹم کو درست کرنے کی طرف قدم بڑھایا جائے تو فرد یا افراد معاشرہ کا بگاڑ مزاحم ہو جاتا ہے۔ اس وقت حکومت اور وزیر اعظم صاحب نے کرپشن یا بدعنوانی کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے ان کا خیال یا گمان ہے کہ سابقہ بدعنوان حکمرانوں کو اگر سزا مل جاتی ہے یا لوٹی ہوئی قومی دولت ان سے نکلوا لی جاتی ہے تو …تو کیا قوم کو نجات مل جائے گی؟ کیا بدعنوانی اور بدمعاملگی ہی سے معاشرہ بگڑا ہے یا بدعنوانی اور بے ایمانی نتیجہ ہے حب مال یعنی مال دولت سے محبت کا۔اور اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو اس میں تو پورا معاشرہ مبتلا ہے اور اس لئے مبتلا ہے کہ مال و دولت ہی سے ہر ضرورت پوری ہوتی ہے مال و دولت ہی کو ہر درد کا درماں سمجھا جانے لگا ہے۔ مال و دولت کی یہ طاقت اور تاثیر ہی مجبور کرتی ہے کہ ہر قیمت میں اسے حاصل کرو اور جمع کرو۔ چاہے جائز یا ناجائز طریقے سے۔ چنانچہ بدعنوانی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں قانون اور پکڑ دھکڑ کے سخت گیر نظام کی وجہ سے بدعنوانی کی وہ شرح نہیں جو ہم جیسے ملکوں میں ہے۔ اس کے علاوہ یہ وجہ بھی ہے کہ وہاں ضروریات زندگی کی فراہمی کا ایک نظام وضع کر دیا گیا ہے جو قرضے اور سود سے منسلک ہے۔ لیکن ترقی پذیر یا پسماندہ ملکوں میں حصول دولت کا آسان راستہ بدعنوانی ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ بدعنوانوں کو سزا دینے سے ایک خوف پیدا ہو گا اور اس کی کچھ نہ کچھ روک تھام ضرور ہو گی لیکن اس کا خاتمہ یا اس میں نمایاں کمی اسی وقت آئے گی جب معاشی انصاف اور مساوات کا قیام ہو گا۔ غربت و امارت کی بڑھتی ہوئی خلیج میں کمی آئے گی۔ بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی آسان بنا دی جائے گی۔ کیا موجودہ حکومت کے سامنے ان اقدامات کا کوئی واضح نقشہ ہے؟ اور کیا کسی واضح لائحہ عمل کے بغیر اس جانب آگے بڑھا جا سکتا ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو کیا بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہے؟ اور پھر ملک کا مسئلے لے دے کہ یہی بدعنوانی تو نہیں۔ معاشرے کا حال تو یہ ہے کہ ایک پتھر ہٹائو اور اندر سے پچاس مسائل بلبلاتے ہوئے باہر نکل آتے ہیں اور ہر مسئلے کا سرا گھوم پھر کر معاش سے یا مذہب سے جا ملتا ہے۔ ہمارے خیال میں معاش اور مذہب ہی ملک کے مرکزی مسئلے ہیں۔ اگر فرد کی معاشی مشکلات آسان کر دی جائیں اور اس کے مذہبی عقائد و تصورات کودرست طورپر مستحکم کر دیا جائے کہ وہ رسمی مذہب کے بجائے مذہب کے حقیقی مقاصد کو سمجھ کر اس پر عامل ہو جائے تو معاشرے کے نوے فیصد مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کو ازسر نو منظم کرنے کی ذمہ داری حکومت اور اس کے اداروں اور علمائے کرام اور ذرائع ابلاغ کی ہے۔ ہمارا معاشرہ مذہبی معاشرہ ہے۔ ہمارے لوگ مذہب پر بے شک پورے طور پر عمل نہ کریں لیکن مذہب سے عشق ایسا ہے کہ وہ اس کے لئے جان دے سکتے ہیں۔ مذہب پر ان کے اس یقین کو تبدیلی کی قوت محرکہ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ہو گا جب جملہ علمائے کرام اپنے مسالک اور فرقوں سے بلند ہو کر اس مقصد کے لئے آج کی اصطلاح میں ایک پیج پر جمع ہونے کے لئے تیار ہوں گے۔ یہ کام سول سوسائٹی کے تعلیم یافتہ اور درد دل رکھنے والے طبقے کا ہے کہ وہ علمائے کرام کی اس حیثیت کے پیش نظر ان کے آپسی اختلافات کے ساتھ انہیں اس کام کے لئے آمادہ کریں۔ آپسی اختلافات کے ساتھ اس لئے کہ یہ اختلافات ختم ہونے والے نہیں۔ اور ان کے اختلافات ایک حد کے اندر رہیں تو اسے امت کے لئے رحمت کہا گیاہے۔ علمائے کرام میں یقینا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو خلق خدا کا درد اپنے اندر رکھتا ہے اور عوام الناس پر ان کا اثر بھی ہے۔ لیکن علما میں اتحاد نہ ہونے اور اصلاع معاشرہ کے لئے مشترکہ کوششوں کے نہ ہونے کے سبب کوئی مجموعی اثر مرتب نہیں ہو رہا۔ تبدیلی ایک نعرہ نہیں‘ گو اسے نعرہ بنا دیا گیاہے۔ تبدیلی ہماری ضرورت ہے۔ اسے ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔ اس پہ ہمیں غورو فکر کرنا چاہیے اور بلا امتیاز مسلک و مکتبہ فکر اس پہ سوچنا چاہیے۔ ہم خود کو اور اپنے معاشرے کو کیسے بدل سکتے ہیں۔ تبدیلی کی راہ میں کون کون سی قوتیں مزاحم ہیں ان قوتوں سے کیسے لڑا یا کیسے سمجھوتا کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کن عناصر کو قبول اور کسے رد کیا جا سکتا ہے۔ سوچنے ہی سے حل کی راہیں نکلتی ہیں۔ ایک خیال دوسرے خیال کو کھینچ لاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ ہم نے سوچنا ترک کر رکھا ہے۔ سوچنا بھی ایک کام ہے‘ شاید سب سے اہم کام۔ لیکن ہم اسے بیکاری کا مشغلہ سمجھتے ہیں۔