سب تعریفیں خالق حقیقی کی جس نے ارض و سماوات تخلیق کئے اور پھر اس تخلیق کا ہلکا سا پر تو اپنے شاہکار کے چنیدہ کو عطا کیا۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ آخر یہ تخلیق کیا۔ یہ ایک انوکھا سا خیال اور احساس ہے جیسے کہ کسی کمی اور خلا کے پر کرنے کا نام تخلیق ہے: جب تلک اک تشنگی باقی رہے گی تیرے اندر دل کشی باقی رہے گی ہوا گرمی کے باعث ہلکا ہو کر اوپر اٹھتی ہے تو وہاں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے اردگرد کی ہوائیں اس خلا کی طرف رخ کرتی ہیں بلکہ رش کرتی ہیں تو بگولا جنم لیتا ہے۔ وہی جو کسی نے کہا تھا کہ بگولا رقص میں رہتا ہے صحرا میں نہیں رہتا’’تخلیق کو پیاس کی صورت بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب زمین پیاس سے بھر جاتی ہے یا خشک ہو کر مر سی جاتی ہے تو اس کی طلب بادلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے سمندر کشادہ دلی سے بادلوں پر اپنا پانی لادتا ہے اور پھر ہوائیں حکم ربی ہی کے تحت ان کو لے کر چلتی ہیں اور مردہ زمینوں کو سیراب کرتی ہیں تو اس میں پوشیدہ سونے اور چاندی جیسی فصلیں لہلہا اٹھتی ہیں۔ یہ جھیل اور جھرنے جیسا عمل بھی ہے اور آبشار جیسا بھی۔ بارش اور آندھی جیسا بھی۔ اس کے کئی رنگ ہیں ؎ جنوں کی تیز بارش میں اسے پانے کی خواہش میں میں دل کی سطح پر اکثر کھلی آنکھوں کورکھتا تھا میرے پیارے قارئین! آج میرا دل چاہا کہ میں آپ کے اندر سوئے ہوئے سوتوں کو جگا دوں اور آپ بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کو محسوس کریں۔ وہ تو ارسطو بھی کہتا ہے کہ اصل میں آپ اپنے آپ کو دریافت کرتے ہو۔ اصل میں یہ تخلیق اصل میں اپنی تکمیل ہے۔ ایک کمی کو پر کرنے کے لئے سب تگ و دو کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ بات مجھے یاد آئی کہ جن دنوں میرا شعری مجموعہ’’ایک کمی سی رہ گئی‘‘ آیا تو میرے ایک سینئر نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی! تو شعری مجموعوں کے بعد بھی ایک کمی محسوس ہو رہی ہے میں نے کہا صاحب اس کمی کا احساس تو کام کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ جس نے کوئی کام ہی نہ کیا ہو اسے ’’کمی‘‘ سے کیا سروکار جو اپنے آپ کو مکمل سمجھتاہے تو اس میں اصلاح کی گنجائش بھی نہیں وہ مردہ شخص ہے۔ ایک کچا پن رہنا چاہیے۔ مجھے یاد ہے پہلی مرتبہ منیر نیازی میرے ڈیپارٹمنٹ میرے پاس آئے تو ہم نے باہر نکل کر کبانہ میں چائے بھی پی تو نیازی صاحب تھری پیس میں ملبوس تھے تب انہوں نے نظم سنانا شروع کی: کچھ باتیں ان کہی رہنے دو کچھ باتیں ان سنی رہنے دو ساری باتیں کہہ دیں اگر تو باقی کیا رہ جائے گا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نامکمل ہوتا ہی حسن ہے۔ یہی بات تخلیق کارابھارتی ہے اور وہ نامکمل تصویر میں رنگ بھرنے لگتا۔ جس کی زندگی میں محرومی نہیں وہ بھی کوئی شخص ہے۔ اسی بنیاد پر بندہ امبیشنر بنتا ہے۔ کچھ پا لینے کی آرزو کچھ حاصل کرنے کی جستجو اور جیت کی امنگ۔ یہی ہیں زندگی کے رنگ: محرومیوں کا اور بھی احساس یوں ہوا چاہا تھا جو بھی تیرے سوا مجھ کو مل گیا ایک خوشحال شاعر نے کیا شاعری کرنی ہے یا یوں کہہ لیں کہ زندگی کی آسائشوں میں کھیلنے والا کیا تخلیق کرے گا۔ زندگی کی اونچ نیچ ہی تجربہ بنتی ہے۔ امیر کبیر شاعر شاعری نہیں کرتا صرف مشاعرے کرواتا ہے۔ زندگی نام ہی مشقت کا ہے جسے جتنے زیادہ مواقع کام کے دستیاب ہوتے ہیں اتنے ہی جوہر اس کے کھلتے ہیں۔ ایک ایسا ہی حقیقت پسندانہ شعر سعدیہ قریشی نے بھی کہہ رکھا ہے: وہ ماں کی گود کی گرمی یہ برف زار جہاں کہاں کہاں سے مجھے زندگی گزارتی ہے اور آپ کی پیہم کوششوں کا نام ہی تو زندگی ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ زندگی گزارنا چاہیں اور زندگی کے چیلنجز قبول کریں۔ زندگی کے بے شمار روپ ہیں اور آپ کو ہر وہ روپ دھارنا پڑتا ہے جس کا وہ مطالبہ کرتی ہے۔ وہ لوگ تو زندگی میں مر گئے جنہوں نے اسے پرگندا کر دیا۔ دیکھا جائے تو زندگی بھی تخلیق کا پیہم عمل ہے: روز جیتاہوں روز مرتا ہوں زندگی کا کوئی حساب نہیں اوروہ لوگ جو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہتے ہیں اور منتظر فردا رہتے ہیں۔ ان کی زندگی قابل رحم ہے ظفر اقبال نے کہا تھا’’جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں‘‘ اس بنیادی جوہر کو کہ جس کا نام تخلیق ہے کو نظر انداز کرنا اگر گناہ نہیں تو جرم ضرور ہے۔ کوئی شخص ہی جب غیر معمولی بات کرتا ہے تو پہلا دھیان اللہ کی طرف ہی جاتا ہے کہ جس نے وہ ذہن رسا پیدا کیا۔ انسان کی ناآسودہ خواہشات ہی تو خواب بنتی ہیں۔ خواب کو تعبیر سے آشنا کرنا ہی تو اصل کام ہے نمو پذیری بھی یہی چیز ہے کہ نمو زور کر تی ہے۔ کہاں ظہیر کاشمیری یاد آئے: گل چینوں نے صیادوں نے گلشن کو کیا تاراج بہت شاخوں میں نمو کا زور بہت پیڑوں پہ پپیہے مور بہت سلویا یلیتھ نے کہا تھا Blood jet is poetry کالم لکھنے میں یہ مسئلہ آ جاتا ہے کہ کئی چیزیں ان کہی رہ جاتی ہیں کہ ضروری نہیں کہ ضروری باتیں رشحات قلم بن جائیں۔ بہرحال خود کار روئیدگی کی اور جنگل کے پھولوں کی اپنی خوبصورتی ہے مجھے یاد آیا کہ ایک مرتبہ خالد احمد نے لیکچر دیتے ہوئے تخلیق کی تحریف یوں کی’’اگر مجھے پیاس لگی ہو اور وہاں پانی ہو تو پیاس بجھانے کا نام تخلیق ہے۔ میں نے قریب سے لقمہ دیا کہ پانی بہرحال اپنا ہونا چاہیے دوسرے کا نہیں نجیب احمد نے پر زور تائید کی۔ جو بھی ہے یہ وہی چیز ہے۔ غالب نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا: آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں غالب سریر خامہ نوائے سروش ہے ان کی بندش بھی کہاں اپنے بس میں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: کب سخن ہم نے کیا سعدؔ کسی لمحے بھی دل پکڑتا ہے کہیں سے یہ اشارے سارے