میں بہ حیثیت ایک مہاجر کشمیری ہر اس ملک،ادارے،جماعت اور فرد کا شکر گزار ہوں جو میری ریاست کی آزادی کی بات کرتا ہے۔ میں بالخصوص ترکیہ کے صدر طیب اردوان کا احسان مند ہوں،جنہوں نے اپنے عہدحکومت میں ہمیشہ دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے آواز اٹھائی۔ فلسطین ہو، روہنگیا کے مسلمان ہوں، یمن، مصر، شام، افغانستان یاکشمیر ،طیب اردوان اپنے عہد میں ان مظلوم افراد کے لیے ایک جاندار آواز ثابت ہوئے ۔بالخصوص دنیا میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے لیے انہوں نے ہر عالمی فورم پر آواز اٹھائی۔اہل کشمیر صدر طیب کی اس تجویز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو انہوںنے اپنے عہد میں بار بار دھرائی کہ''ہمیں جموں کشمیر میںعوام کو مزید ہلاکتوں سے بچانا چاہئے، ترکیہ کثیر الجہتی مذاکرات کی میزبانی کر سکتا ہے۔ آج ہر کوئی سمجھتا ہے کہ موجودہ حالات میں اگر بھارت اس تجویز کو مان لے تویہ عالمی سیاست کا ایک حیرت انگیز مظاہرہ ہوگا ۔ صدر طیب نے بھارت اور پاکستان دونوں سے اور کشمیر کے بارے میںاپنا موقف دہرایا۔ صدر طیب کا کہنا ہے کہ تنازعہ کشمیر کیا فوری حل تلاش کرنے کے لئے ہندوستان اور پاکستان کی دونوں حکومتوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ صدر اردوان تھے جنہوں نے کئی بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کشمیر کا حوالہ دیا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت اور پاکستان کے درمیان دہائیوں پرانے تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر حل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم فریقین کے درمیان بات چیت اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے 74 سال سے کشمیر میں جاری مسئلے کو حل کرنے کے حق میں اپنے موقف پر قائم ہیں۔ تنازعہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیا میں استحکام اور امن کی کلید بھی ہے۔ لیکن اقوام عالم اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کر سکیں،یہ اب بھی ایک جلتا ہوا مسئلہ ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اٹھائے گئے اقدامات نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلا س میںصدر طیب کے خطاب نے جموں کشمیر کے عوام کے حوصلے بلند تر کر دیے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق’’ فروری 2020 میں پاکستان کی پارلیمنٹ سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' کشمیر ترکی کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا پاکستان کے لیے''۔ صدر اردوان نے مسئلہ کشمیر کو ستمبر 2019 کے جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران بھی اٹھایا تھا اور کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی طرف دنیا کی توجہ بھی مبذول کروائی تھی۔اگست 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے صدر اردوان نے ہر بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے پر آواز اٹھائی۔اس آواز میں ان کا لہجہ ہمیشہ سخت رہا ہے لیکن اس بار ان کی تقریر کا لہجہ ذرا نرم تھا،لیکن اس کے باوجود انہوں نے اقوام عالم کو شدت کے ساتھ احساس دلایا کہ جب تک کشمیریوں کو ان کو حق خودارادیت نہیں دیا جاتا۔2017سے ترکی نے پاکستان میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ۔ ترکی پاکستان میں بہت سے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کو میٹروبس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین مجوزہ فری ٹریڈ کے معاہدے پر ابھی بھی کام جاری ہے۔ دوسری طرف ترکی کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں زوال کا ایک سبب انقرہ اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتا ہوا دفاعی تعاون ہے۔ انقرہ پاکستانی بحریہ کے لیے چار میڈیم سائز لڑاکا بحری جہاز تیار کر رہا ہے۔ ایک ارب ڈالر مالیت کے اس معاہدے کے تحت دو جنگی بحری جہاز ترکی میں تیار ہوں گے اور دو جہاز ٹیکنالوجی منتقلی معاہدے کے تحت پاکستان بنائے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک بڑا معاہدہ ہوا، جس کے تحت ترکی پاکستان کو 30 اٹیک ہیلی کاپٹرز فراہم کرے گا۔ اس معاہدے کی مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔بھارت اور ترکی کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی کی پرتعیش زندگی گزارنے والے فتح اللہ گولن سے وابستہ نیٹ ورک کی بھارتی شہروں میں سرگرمیاں بھی بتائی جاتی ہیں۔بھارت نے فتح اللہ گولن نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالنے سے ہمیشہ پس وپیش سے کام لیا۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی حکومت نے ’فیٹو‘ نامی نیٹ ورک پر نہ صرف ملک کی اعلیٰ عدالتوں ذریعے پابندی لگوائی بلکہ تنظیم کے زیر انتظام چلنے والے متعدد رفاعی اور تعلیمی ادارے بھی ترک حکومت کے سپرد کر دیے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے خطاب نے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی بھیر دیا۔ رجب طیب اردوان نے اپنے ریکارڈ شدہ خطاب میں کہا کہ ’کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ اب بھی ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔‘ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ترکی کے صدر کے بیان پر اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ ٹی ایس ترمورتی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: ’ہم نے کشمیر کے حوالے سے ترکی کے صدر کے بیان کو پڑھا ہے جو ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے اور ان کی مداخلت ہمارے لیے قطعی طور پر ناقابل قبول ہے اور ترکی کو دوسرے ممالک کی خود مختاری کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے۔‘ ان حالات کے تناطر میںاہل جموں کشمیر ہمیشہ ترک بہن بھائیوں کے احسان مند رہیں۔اگرچہ ۲۰۰۵ کے زلزلے کی تباہ کاریوں میں ترک بھائیوں کی ہمدردی اور احسانات بھلائے جانے کے قابل نہیں ہیں۔بین الا قوامی سطح پرجس طرح ترکیہ کے عوام اور بالخصوص صدر طیب نے پوری جرات مندی اور اخلاص کے ساتھ کشمیر کے حق خودارادیت کی ہر فورم پر آواز اٹھائی، کشمیری ہمیشہ احسان مند رہیں گے۔