غازی ان تپ کے دو ہزار سال پرانے تاریخی قلعے نے کئی زمانے دیکھے ،مگر اس زلزلہ کی وجہ سے اس کا ایک بڑا حصہ مسمار ہو گیا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کیلئے اس کی مرمت کرنا ایک چیلنج ہوگا۔ ترکیہ کا یہ متاثرہ علاقہ تاریخی لحاظ سے خاصا اہم ہے۔ شان لی عرفہ کے صوبہ میں عرفہ شہر کو فلسطین کی طرح پیغمبروں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس کا قدیم نام ار شہر ہے۔ یہاں حضرت ابراہیمؑ پیدا ہوئے اور ان کو نمرود نے آگ میں ڈالا تھا۔ جس جگہ ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا وہاں ایک خوبصورت تالاب ہے، جس میں ہزاروں مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ آگ پانی میں تبدیل ہو گئی تھی اور لکڑیاں مچھلی بن گئیں تھیں۔ یہ حضرت شعیبؑ ، حضرت ایوبؑ اور حضرت الیاسؑ کا بھی وطن ہے۔ حضرت مو سیٰؑ نے بھی اپنی زندگی کے سات سال یہاں بتائے۔ ترکیہ کی آفات سے نمٹنے والی ایجنسی اے ایف اے ڈی دنیا بھر میں اپنی کارکردگی اور مہارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ مگر یہ تباہی جس بڑے پیمانے پر اور وسیع علاقے میں آئی ہے اس وجہ سے اکیلے یہ ایجنسی شاید ہی نپٹ سکے۔ ایک لاکھ مربع کلومیٹر کا مطلب ہے کہ اگر ایک مربع کلومیٹر پر ایک ریسکیو ٹیم بھی تعینات ہو، تو سبھی علاقوں کا احاطہ کرنے کیلئے ایسی ایک لاکھ ٹیمیں ہونی ضروری ہیں۔ فی الحال دنیا بھر کے نوے ممالک کی ٹیمیں میدا ن میں ہیں،ان میں بھارت اور پاکستان کی ریسکیو ٹیمیں بھی شامل ہیں۔ اتوار کو ہی پاکستانی ریسکیو ٹیم نے آدیمان میں ایک 15 سالہ بچے کو زندہ ملبے سے نکالا، جو یقینا ایک معجزہ تھا۔ اس ٹیم نے اب اس جگہ پر ریسکیو آپریشن ختم کر دیا تھا کہ اس کے ایک رکن نے موہوم آواز میں کسی کو کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے سنا۔انہوں نے دوبارہ آلات نصب کئے تو معلوم ہو اکہ آواز ملبے سے آرہی ہے۔ کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد اس بچے کو برآمد کیا گیا جو منفی درجہ حرارت میں 137گھنٹوں تک ملبہ میں دبا رہا۔ ایسے ان گنت واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔۔ ملبے تلے سے نکالی جانیوالی جانیں کچھ حد تک دلوں کو سکون دلا رہی ہیں "معجزانہ نجاتیں" پورے ترکیہ کے دلوں کو چھو رہی۔غازی اینتپ میں مسمار ہونے والی عمارت کے ملبے تلے سے 40 سالہ سیبل قایا کو 170 گھنٹوں کے بعد زندہ نکال لیا گیا۔ ادیامان کی تحصیل بیسن میں 60 سالہ ایرین گل کو زلزلے کے 166 گھنٹے بعد اور ادیامان سے ہی 158 گھنٹوں کے بعد 10 سالہ عاصمہ نامی بچی کو زندہ بچانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ایک 7 سالہ بچی، جو 131 گھنٹے تک خطائے کے بیلن ضلع میں زلزلے سے تباہ ہونے والی عمارت کے ملبے تلے دبی ہوئی تھی، کو زندہ نکال کر ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ قہرمان ماراش میں ٹیموں نے شہر کے مرکز میں ایک اپارٹمنٹ کی عمارت کے ملبے کے نیچے سے 20 سال کے نوجوان کو زلزلے کے 116 گھنٹے بعد ملبے سے بچا لیا گیا۔اسی صوبہ میں 116 گھنٹے بعد ایک اور 51 سالہ شخص کو زندہ بچا لیا گیا۔ ایک 70 سالہ عورت کو ٹیموں کی بھرپور کوششوں سے 122 گھنٹے بعد بچا لیا گیا۔ایک بلی کو بھی 116 گھنٹے بعد عمارت کے ملبے سے نکالا گیا ہے۔117گھنٹے بعد ملبے سے ٹیموں نے 34 سالہ شامی شہری حسن کو زندہ برآمد کیا۔ حتائی میں زلزلے کے 119 گھنٹے بعد ملبے تلے دبے بچے کو زندہ نکال لیا گیا۔چونکہ ابھی بھی زندہ افراد کے ملبے سے نکلنے کا سلسلہ جاری ہے اس لئے بلڈوزر اور بھاری مشینری استعمال کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ ہاتھوں سے ملبہ اٹھانا اور اس میں زندہ وجود کا پتہ لگانا انتہائی صبر آزما کام ہے۔ویسے تو ترکیہ میں بلڈنگ کے قوانین خاصے سخت ہیں۔علیحدہ مکان یا بنگلہ بنانے کے اجازت نہیں ہے، اس لئے لوگ فلیٹوں میں رہتے ہیں۔ہر سال بلڈنگوں کی چیکنگ ہوتی ہے اور اس کی انشورنس ہونا بھی لازمی ہے ورنہ بجلی، گیس اور پانی کا کنکشن نہیں ملتا۔ اگربلڈنگ غیر محفوظ ڈیکلیئر ہوتی ہے تو اس کو گرا کر نئی تعمیر کی جاتی ہے۔ اس کا خرچہ انشورنس کمپنیا ں ادا کرتی ہیں۔ ابھی تک کی رپورٹوں کے مطابق بیس ہزار سے زائد بلڈنگیں تباہ ہوچکی ہیںا ور جو استادہ ہیں، و ہ ناقابل رہائش ہیں۔ چونکہ جنوب مشرق کے ان علاقوں میں اپوزیشن پارٹیوںکا مقامی بلدیاتی اداروں پر دبدبہ ہے، بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے بلڈنگ قوانین کو نرم کر دیا تھا۔ یہ زلزلہ ایسے وقت آیا ہے کہ جب صدر رجب طیب اردوان اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے ہی 14مئی کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا تھا۔ اس تباہ کاری کے بعد انقرہ میں ایک سینٹرل کنٹرول اور کواآرڈینیشن روم بنایا گیا، جس کا انچارچ نائب ?صدر فواد اوکتے کو بنایا گیا۔ وہ چوبیس گھنٹے اسی سینٹر میں رہ رہے ہیں۔ کابینہ کے سینئروزراء میں ان تباہ حال صوبوں کو بانٹ کر ان کو ان کا انچارج بنایا گیا وہ ان صوبوں میں کنٹرول روم سنبھال رہے ہیں اور ریسکو ٹیموں کی خود نگرانی کر کے سینٹرل کنٹرول روم کے رابط میں رہتے ہیں۔ ریسکو آپریشن کے بعد باز اآباد کاری کا سلسلہ شروع ہونا ہے۔ اردوان نے کہا ہے کہ وہ زلزلوں میں تباہ ہونے والے لمکانات کو دوبارہ تعمیر کریں گے اور بڑی تباہی سے دوچار شہروں کو بھی دوبارہ قائم کریں گے۔"امید ہے، ہم یہاں کام کو جلد مکمل کرکے اپنے کسی شہری کو ملبے کے نیچے، مردہ یا زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ پھر ہم ملبہ ہٹانے اور تعمیر نو کی سرگرمیاں تیزی سے شروع کریں گے۔ ہم لاکھوں مکانات کو ان کے بنیادی اور مضبوط ڈھانچے کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ زلزلے میں تباہ ہونے والے ان شہروں کو از سر نو تعمیر کیے جانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔" ان کے اس بیان سے کہ ان کی حکومت کسی کو غربت ، افلاس اور سڑکوں پر نہیں چھوڑے گی سے کسی حد تک عوام کا اعتماد لوٹا ہے۔ انقرہ میں ہر گلی کوچے میں ریلیف کا سامان اکھٹا کیا جا رہا ہے۔اسکے لیے باضابط اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ لوگ دکانوں سے نئے کپڑے ، کوٹ ، کمبل خرید کر ان اسٹالوں کو گفٹ کر رہے ہیں۔ ان زلزلوں کا ایک ضمنی مثبت اثر یہ رہا کہ ترکیہ اور یونان میں مفاہمت کے آثار نظر آرہے ہیں۔ سیاسی کشیدگی ہوتے ہوئے بھی یونان نے سب سے پہلے اپنی ریسکیو ٹیموں کو بھیجا اور ان کے وزیر خارجہ نکوس ڈنڈیاس خود اس کی نگرانی کرنے پہنچ گئے۔ دوسری طرف آرمینیا اور ترکیہ کے درمیان بارڈر پوسٹ 30سال بعد کھولی گئیں۔ کاش اسی طرح کی کوئی مفاہمت شام اور ترکیہ کے درمیان بھی ہوتی تاکہ اس خطے میں امن بحال ہوسکے اور چالیس لاکھ کے قریب شورش کی وجہ سے بے گھر شامی اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ ٭٭٭٭٭