لوگ پوچھتے ہیں کہ "مہاتما" گاندھی کا ہندوستان، نریندر مودی کے ہاتھ میں کیسے چلا گیا؟ میں کہتا ہوں کہ یہ دن، بہت دیر سے آیا ہے! آزادی کے وقت، ہندوئوں کے سب سے موثر لیڈر تین تھے۔ گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل! سردار پٹیل، مسلمانوں کا کھْلا ہوا دشمن تھا اور اس بات کو، وہ چھْپاتا نہیں تھا۔ بظاہر ہی سہی، مولانا ابوالکلام آزاد کی عزت، سارے کانگرسی کرتے تھے۔ لیکن پٹیل نے ایک موقعے پر، کوئی فائل اٹھا کر مولانا کے مْنہ پر دے ماری تھی۔ پنڈت نہرو، وسیع مشرب آدمی تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے، پنڈت جی مخالف نہیں تھے لیکن ان کی ترجیح، بہرحال ہندو تھے۔ گاندھی کا کیس، البتہ سب سے جْدا ہے۔ مسلمانوں کا وہ "گْپت" دشمن تھا! قائد ِاعظم کی زبان سے چبھتے ہوئے فقرے بہت کم نکلے ہیں۔ لیکن جہاں کوئی تنقیدی جملہ کہا ہے، حق ہے کہ کْوزے میں دریا بند کر دیا ہے! گاندھی کو انہوں نے "ایول جینیئس" قرار دیا تھا۔ یہ بھی کہ گاندھی جی، جو کہتے ہیں، وہ ان کا مقصد نہیں ہوتا۔ اور اپنے مقصد کو وہ، زبان پر کبھی نہیں لاتے! سر ونسٹن چرچل نے گاندھی سے ملاقات کے بعد، اپنا تاثر یوں بیان کیا تھا کہ یہ شخص ایک نمبر کا فراڈ اور "اسکائونڈرل" ہے! یہ تو ہوئیں غیر ہندوئوں کی رائیں۔ اب ذرا "گھر کی گواہی" سْنیے۔ ڈاکٹر امبیدکر، اچھوتوں کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ ڈاکٹر صاحب صحیح معنوں میں، بڑے آدمی اور پِسے ہوے مظلوم طبقے کی واحد موثر آواز تھے۔ گاندھی کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ ہندوستان کی تاریخ میں آج تک اچھوتوں کا، گاندھی سے بڑا دشمن نہیں پیدا ہوا! کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی, جناح صاحب کو متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیر ِاعظم بنانے پر راضی ہو گئے تھے۔ اس میں بھی مکر چھپا ہوا تھا۔ "اہنسا کے پجاری" نے، مائونٹ بیٹن سے کہا تھا کہ ہندوستان کو تقسیم نہ کرو، خواہ خون کی ندیاں بہہ جائیں! گاندھی جانتا تھا کہ اس موقع پر، اصل چیز انگریزوں کی رخصتی ہے۔ انگریز اگر اقتدار، کسی مسلمان کے بھی ہاتھ میں چھوڑ گئے، تو بہت جلد اکثریت غالب آ کر رہے گی۔ آزادی کے بعد، ہندوستان میں قتل و غارت کے شکار ہونے والے مسلمانوں کا، کوئی پْرسان ِحال نہ تھا۔ گاندھی جی کی پرارتھنا، ہر روز ریڈیو سے نشر ہو رہی تھی کہ مسلمانوں نے مغربی پنجاب میں، سکھوں اور ہندوئوں پر بڑے ظلم ڈھائے ہیں۔ تمہاری عورتیں چھین لی ہیں۔ لیکن تم بہادر ہو، یہ کام تم مت کرنا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ہتھیار، حکومت کے حوالے کر دیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ بعض لوگ، گاندھی کو کریڈٹ دیتے ہیں کہ پاکستان کے حصے کی رقم دلوانے کے لیے، اس نے مرن برت رکھ لیا تھا۔ یہ فقرہ غالبا چرچل کا ہے کہ یہ کیسا مرن برت ہے، جو بار بار آتا ہے لیکن گاندھی جیسے چمرخ کو مار نہیں پاتا! یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے پاس، کاروبار ِحکومت چلانے کے پیسے نہیں تھے۔ اس کے حصے کے ستاون کروڑ، بھارت دبائے بیٹھا تھا۔ گاندھی، نہرو اور پٹیل، تینوں نچنت اور خوش تھے۔ پھر ہوا یہ کہ قائد ِاعظم نے نظام ِدکن سے مدد کی درخواست کی۔ نظام نے کمال مہربانی سے، بیس کروڑ روپے بھیج دیے۔ یوں رْکا ہوا کاروبار ِحکومت، چل پڑا۔ اب پاکستان کی رقم روکنے کا، فائدہ کم اور نقصان زیادہ تھا۔ اس طرح گاندھی کا آخری ڈراما شروع ہوا، جو جان لیوا ثابت ہوا! گاندھی کی داستان، ہمیں یاد رہنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ جس دشمن کا ہمیں سامنا ہے، وہ ہر کام اْلٹا کرتا ہے۔ ہماری تاریخ بْت شکنی کی ہے، ان کی بْت پرستی کی۔ ہم اپنے بزرگوں کی بہادری کے واقعات پر سَر دْھنتے ہیں اور ہندو اپنے مکار بڑوں کی مالا جپتے ہیں۔ ہم گائے کا گاشت رغبت سے کھاتے ہیں اور ہنود اپنی گائو ماتا کی، نہ صرف پوجا کرتے ہیں، اس کا بول پیتے بھی ہیں۔ امریکہ آنے والے متنبہ رہیں کہ یہاں اکثر بھارتی ریستوران، کھانے پر گائے کا بول، تبرک کے طور پر چھڑک دیتے ہیں! حد یہ ہے کہ ان کا ایک وزیر ِاعظم، مْرار جی ڈیسائی، اپنا قارورہ بھی پیتا تھا۔ اس پر ابن ِانشا نے طنز کیا تھا کہ کِس قدر نزدیک تھا، آب ِحیات جب ذرا گردن جھْکائی، پی لیا جناح اور گاندھی کے فرق کو، مولانا ظفر علی خاں نے یوں بیان کیا تھا۔ ع تلوار کا بیٹا ہے وہ، تْو چرخے کی اولاد ٭٭٭٭٭ لسانی رابطہ کمیٹی کی خدمت میں! بڑے آدمی کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ تعصبات سے پاک ہوتا ہے۔ سنائی کہتے ہیں علم، کز تو، ترا نہ بستاند جہل، زان علم، بِہ بود بسیار یعنی، جو علم تیری "مَیں" کو ختم نہ کر سکے، وہ جہل سے بھی بدتر ہے! محترم اظہار الحق صاحب نے چند روز پہلے، ایک کالم لسانی تعصب کے بارے میں لکھا ہے۔ جن بزرگوار کا اس میں ذکر ہے، بچپن سے ان کے ڈرامے دیکھتے آ رہے ہیں۔ آج تک، کوئی شگفتہ، یاد رکھنے کے لائق فقرہ، نہ ان کی زبان سے سنا ہے، نہ قلم سے ہی دیکھا ہے! ان کے اعتراض کتنے "علمی" ہوتے ہیں، اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ وہ محمد حسین آزاد کی کتاب "آب ِحیات" کو، اس لیے رد کرتے ہیں کہ اس کا نام "آ بے حیات" کیوں رکھا! یہ صاحب، علامہ اقبال پر بھی حملہ آور ہوئے ہیں۔ علامہ پر اعتراض کرنے والے، عموما دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ، جنہیں ان کے نظریات سے اختلاف ہے۔ دوسرے وہ، جو انہیںبڑا شاعر نہیں تسلیم کرتے۔ ان ہر دو ناقدوں کو، مدلل جواب دیئے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس تیسری جنس کو کیا کیجیے، جس کے نزدیک، اقبال کا سب سے بڑا جْرم یہ ہے کہ وہ پنجابی تھے! اب ذرا علامہ کے سب سے بڑے مداحوں میں سے، چند نام دْہرا لیجیے۔ اکبر الٰہ آبادی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا محمد علی جوہر، سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد، پروفیسر رشید احمد صدیقی، مولانا عبدالماجد دریابادی، سید ابوالاعلٰی مودودی، مولانا اسلم جیراج پوری، امین احسن اصلاحی اور نیاز فتحپوری! مولانا ابوالحسن ندوی اور بھارت کے سابق صدر ذاکر حسین مرحوم کے چھوٹے بھائی یوسف حسین خاں نے اقبال پر، باقاعدہ تصانیف لکھی ہیں! یہ سارے بزرگ، غیر پنجابی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال پر زیادہ تر وقیع اور بہترین تحریریں، غیر پنجابیوںکی ہیں! علماء اور فضلاء نے اقبال کی تعریف کی تو درحقیقت اپنی عظمت بھی ثابت کر دی! مولانا رومی یاد آتے ہیں۔ مادح ِخورشید، مداح ِخود است کہ دو چشمم، روشن و نامرمدست ذم ِخورشید ِجہان، ذم ِخود است کہ دو چشمم کْور و تاریک و بداست "لسانی رابطہ کمیٹی" والے، ہزار جوش ملیح آبادی اور جون ایلیا کو بڑھایا کریں۔ ایک ہزار جوش، مل کر بھی اقبال کے برابر نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ جوش زبان کے شاعر تھے اور اقبال دل کے! اکبر الٰہ آبادی نے گویا اقبال کی زبان سے کہا ہے۔ وہاں الفاظ خضر ِرہ ہیں، یاںمعنی ہیں منزل پر سخن کا ان کو دعوٰی ہے، تو مجھ کو ناز ہے دل پر