محترمہ مریم نواز شریف اور جناب پرویز رشید کی ٹیلی فونک گفتگومیں بعض قابل احترام تجزیہ کاروں کا تذکرہ سن کر بہت سے دوستوں کو صدمہ پہنچا‘حیرت اور صدمے کی ملی جلی کیفیت میں دوستوں نے مسلم لیگ (ن) سے معذرت کا مطالبہ کیا مگر ہنوز ان میں سے کسی کی خواہش پوری ہوئی نہ مستقبل قریب میںتوقع کی جا سکتی ہے۔صحافیوں اور سیاستدانوں کے مابین ’’دوستی اور نفرت‘‘ کا رشتہ ہے ’’گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائیگا کیا؟‘‘ کے مصداق دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور دونوں کے مفادات باہم متصادم‘کہا تو فوجی آمروں کے بارے میں جاتا ہے کہ وہ آزاد صحافت اور آزاد منش صحافیوں سے نفرت کرتے ہیں مگرہمارے منتخب حکمران بھی فوجی آمروں سے پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتے‘ذوالفقار علی بھٹو ‘میاں نواز شریف اور عمران خان میں سے کس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ آزادی صحافت کا حقیقی علمبردار اور آزاد منش صحافیوں کا دلدادہ تھا یا ہے‘جتنے روزنامے اور جریدے ضیاء الحق کے دور میں بند ہوئے ‘کم و بیش اتنے ہی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں موت کے گھاٹ اُترے ۔قریشی برادران (الطاف حسن قریشی اور اعجاز حسن قریشی)مجیب الرحمن شامی‘حسین نقی‘محمد صلاح الدین ‘الطاف گوہر اور کئی دیگر نے جیلوں کی سیر کی اور نوائے وقت گروپ کو پانچ سال تک مالی مشکلات سے دوچار کیا گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان منفرد حکمران تھے جو پاکستان میں بکریوں کا وجود برداشت کرتے تھے نہ صحافیوں کی حق گوئی‘نقطہ نظر ان کا یہ تھا کہ بکریاں سبزے کی دشمن ہیں اور صحافی سیاسی استحکام کے درپے‘دونوں کا قلع قمع قومی خدمت‘ایوب خان کی پریس بریفنگز میں ایک ستم ظریف صحافی بالعموم آزادی صحافت کے ساتھ بکریوں کی افزائش پر زور دیتے اور فیلڈ مارشل کو خوب زچ کرتے۔ایوب خان کی بکریوں سے دشمنی کا ذکر ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے اپنی یادداشتوں میں بھی کیا ہے۔ایئر مارشل صاحب کے مطابق:’’جنوبی سندھ کے علاقے میں ایک زمانے میں تیتر بہت ہوتا تھا‘کراچی سے سارے علاقے تک پہنچنا بہت آسان ہے‘چنانچہ چھٹی کے روز علی الصبح دیکھنے میں آتا کہ کراچی سے شکار کے شوقین گاڑیوں پر سوار چلے جا رہے ہیں‘ تیتروں اور مرغابیوں کے شکار کے لئے۔ایک صبح میں بھی صدر ایوب خان کی معیت میں کراچی سے شکار کے لئے روانہ ہوا۔راستے میں وہ اپنی نافذ کردہ اصلاحات کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔بعض اصلاحات کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ملکی معیشت پر بڑا خوشگوار اثر ڈالیں گی۔کہنے لگے ایک تو یہ اصلاح ہے کہ بکری کو ختم کرو۔انہوں نے ایک حکم صادر کیا تھا جس کے تحت بکریاں پالنے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔‘‘ ’’کہنے لگے کہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں بکریوں اور اونٹوں نے سرسبز علاقوں کو ریگستانوں میں تبدیل کر دیا ہے۔بکری جس جھاڑی یا درخت پر منہ مارتی ہے‘اس کے لعاب کے ذریعے زہر سا درخت میں سرایت کرتا ہے جو اسے خشک کر دیتا ہے۔مجھے بھی یاد آیا کہ جب میں سپین گیا تھا تو مجھے لوگوں نے بتایا کہ عربوں کے حملے سے پہلے سپین ایسا سرسبز و شاداب علاقہ تھا کہ یورپ کے روسا یہاں شکار کرنے آیا کرتے تھے۔اپنے آٹھ سو سالہ دور میں عرب یہاں اونٹ اور بکریاں لے کر آئے جنہوں نے سرسبز و شاداب سپین کو تباہ کر کے رکھ دیا۔مجھے صدر صاحب کے خیالات پر یقین نہیں آتا تھا۔میں نے صدر صاحب سے کہا کہ بکری کے خلاف ان کے حکم کے باوجود ان کی تعداد کچھ کم نہیں ہوئی۔بکریاں اب بھی بڑی تعداد میں پالی جاتی ہیں۔وہ نہیں مانے‘ان کا خیال تھا کہ بکری تقریباً ختم ہو چکی ہے۔‘‘ ’’تھوڑی دیر بعد ہی ہم نے دیکھا کہ مخالف سمت سے سڑک پر بکریوں کا ریوڑ چلا آ رہا ہے۔صدر نے بھی دیکھا اور فوراً کہا کہ یہ بکریاں شہر لے جائی جا رہی ہیں کھانے کے لئے۔ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد ہم نے سڑک کے قریب کھیتوں میں ایک اور ریوڑ کو چرتے دیکھا‘ان کی تعداد دوچار سو کے قریب تھی۔صدر نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔اس کے بعد صدر صاحب نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں بکری کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔‘‘ بکری کے خلاف صدر ایوب خان کی اس مہم کا ایک دلچسپ پہلو اور بھی ہے۔بکری کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے حکم جاری کیا کہ فوجی میسوں میں بڑے گوشت یا بھیڑ کے گوشت کی بجائے بکری کا گوشت پکایا جائے‘مگر نتیجہ ان کی توقع کے برخلاف نکلا۔بکری کی مانگ بڑھ گئی اور کسان زیادہ بکریاں پالنے لگے۔بکری کی تعداد میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہونے لگی اور جب ایوب خان کا دس سالہ دور اقتدار ختم ہوا تو اس پر آخری طنز یہ قہقہہ بکری نے ہی لگایا۔‘‘ فیلڈ مارشل کے بعدکسی حکمران نے بکریوں کے قلع قمع کا تو نہ سوچا کہ سرسبز و شاداب پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کرنے کے اورطریقے موجود تھے‘مثلاً ڈیموں کی تعمیر اور پانی میں اضافہ سے گریز ‘ہائوسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار اور درختوں کو کاٹنے کی آزادی‘ مگرایوب خان سے لے کر اب تک جملہ سول و فوجی حکمرانوں نے اپنے اپنے انداز میں صحافت کو دبانے اور حق گو صحافیوں کو زچ بلکہ تلف کرنے کے لئے پورا زور لگایا۔جہاں قوانین کی ضرورت پڑی سیاہ قوانین تخلیق کئے‘اشتہارات کو بطور آلہ استعمال کیا گیا اور آزاد منش صحافیوں کی زبان بندی کے لئے دبائو ‘ترغیب اور تحریص کے حربے آزمائے گئے مگر ہوا بالکل برعکس۔ جس طرح ایوب خان کی بکری دشمنی سے بکریوں کی افزائش بڑھ گئی بالکل اسی طرح میڈیا ہائوسز اور صحافیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا‘پرویز مشرف نے الیکٹرانک میڈیا کو بند کرنے کا انتہائی اقدام کر ڈالا مگر بالآخر اپنا تھوکا چاٹنا پڑا اور آزاد میڈیا آج بھی حکمرانوں کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ ؎ تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب بڑھتا ہے اورذوق گنہ یاں سزا کے بعد لیکڈ آڈیو میں مسلم لیگ کے نرم مزاج اور شیریں دہن رہنما پرویز رشید نے جو زبان استعمال کی وہ دیگ کا ایک چاول ہے۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ باقی تیغ بدست اور تلخ گو قیادت آزاد منش صحافیوں کے بارے میں کیا سوچتی اور کہتی ہو گی‘سوچنے کی بات مگر یہ ہے کہ مسلم لیگی لیڈوں کے علاوہ ہمارے بعض صحافی اور تجزیہ کار دوست بھی اسے نجی گفتگو قرار دے کر رفت گذشت کے درپے ہیں‘گویا نجی محفلوں میں سیاستدانوں کو مخالف نقطہ نظر کے حامل صحافیوں کی توہین ‘تذلیل اور گالم گلوچ کا حق حاصل ہے‘اس سوچ نے ہی ہمارے ہاں سیاست میں اپنے ناقدین کے خلاف بد زبانی‘توہین اور ہرزہ سرائی کے کلچر کو پروان چڑھایا اور لغو گوئی معمول بنتی چلی جا رہی ہے‘ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مخالف سیاسی و مذہبی رہنمائوں کو عوامی جلسوں میں توہین آمیز القابات سے نوازا تو بعض صحافیوں اور تبصرہ نگاروں نے قائد عوام کے ذوق مزاح کو خراج تحسین پیش کیا‘عمران خان اور ان کے بعض ساتھیوں نے بھی اس مکروہ روائت کو آگے بڑھایا اور اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ صحافی اور تجزیہ کار خود سیاستدانوں کے علاوہ ان کے سوشل میڈیا مجاہدین کی گالم گلوچ کی زد میں ہیں‘کوئی سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ آج اگر کوئی دوسرا یا میرا مدمقابل بازاری انداز گفتگو کا ہدف ہے تو کل میری باری بھی آ سکتی ہے کہ بے ہودگی اور بدزبانی کا کلچر ایک بار معاشرے میں رواج پا جائے تو پھر خوب پھلتا پھولتا ہے‘کسی کی عزت محفوظ رہتی ہے نہ ساکھ۔ میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں