دو کالموں کی غیر حاضری کے بعد قارئین کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ویسے تو معمول کا وائرل انفیکشن ہی تھا لیکن یہ وائرس کوئی ڈھیٹ وئیرنٹ تھا جس پر دواؤں اور ہر قسم کے ٹوٹکے ، قسم قسم کے قہوے، بھاپ نیم گرم پانی کے غرارے وغیرہ کلام نرم و نازک کی طرح بے اثر نہیں تو کم اثر ضرور رہے۔ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اب بھی کچھ نہ کچھ اثرات باقی ہیں۔حالات یہ تھے کہ سر سے پاؤں تک پورا جسم ایک عجیب جکڑن میں تھا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی مفقود تھی۔ ایسے میں کرب ناک معاشی صورتحال سے گزرتے ہوئے حالات پر لکھنا بیماری کے لیے کسی بد پرہیزی سے کم نہ تھا سو کالم لکھنے سے معذرت کر لی تھی۔ انہی دنوں میں قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن میں ایک ٹریننگ سیشن بھی تھا ان سے بھی معذرت کرنا پڑی۔اب تو صحتمندی میں کالم لکھنا بھی بوجھل محسوس ہوتا ہے۔لگتا ہے کہ اب لکھنے کو کچھ باقی نہیں رہا جو کہنا چاہتے ہیں وہ کہنا مشکل ہے یا پھر اس پر قدغن موجود ہے۔ اہل اقتدار اور اہل اختیار طبقہ جو برسوں سے اس ملک پر حاکم ہے اس کی پاکستان کی عام آدمی کے حالات اور مسائل سے بے نیازی اور بے حسی پر جو کچھ دل محسوس کرتا ہے اسے تہذیب کے دائرے میں رہ کر تحریر میں ڈھالنا اب مشکل لگتا ہے بات اب دور تک نکل گئی ہے۔ ریاست پاکستان کے ایک 12 سال کے بچے کو دو دن کی بھوک کے بعد ایک دکان سے دو کلو آٹا چوری کرنا پڑا۔ اس عظیم جرم پر بچے کو رسیوں سے باندھ کر تشدد کیا گیا وہ رو رو کر معافیاں مانگتا رہا۔ اپنے غریب ہم وطنوں کے یہ حالات دیکھ کر ہائے روح کانپ جاتی ہے۔۔۔درد دل میں پیوست ہو کے رہ جاتا ہے۔ یہ سوچ کہ ان ظالم حکمرانوں سے روز مکافات تو سوال ہوگا اس ظلم کا پھر کیا جواب دیں گے۔ غربت کدے میں بھوک سے نڈھال اپنے گھر والوں کے لیے صرف دو کلو آٹا چرانے والے بچے کے اصل مجرم وہی ہیں جو یہاں مقدس اور غیر مقدس مقتدرہ ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ اب حالات جس نہج پر آگئے ہیں میرے پاس تو وہ الفاظ بھی نہیں کہ جس سے میں کروڑوں غریب پاکستانیوں کی اذیت کو دائرہ تحریر میں لاؤں اور ان کو اذیت دینے والوں کے بارے میں بات کروں اب بات تہذیب کے دائرے سے نکل کر کسی اور طرف بڑھ چکی ہے۔ایسا وقت اس ملک پر پہلے کبھی نہیں آیا میں ان میں سے ہوں جنہوں نے غریب وطن کے ساتھ درد کا رشتہ ہمیشہ استوار کیے رکھا ہے۔ معاشی تنگیوں نے ہم وطنوں کو جس اذیت سے دوچار کر رکھا ہے اس اذیت پر آواز نہ اٹھانا میرے نزدیک غیر انسانی فعل ہے۔میرے نزدیک محض سیاسی ڈویلپمنٹس اور سیاستدانوں کے روز مرہ کے بیانات کو موضوع بنانا بے فائدہ اور لاحاصل سرگرمی کی طرح رہا ہے۔ سو میں نے ہمیشہ اپنی نگاہ غریب وطن کے مسائل ہی پر مرکوز رکھی اور کوشش کرتی رہی کہ ان کو ہائی لائٹ کروں اور ان ادارتی صفحات پر جہاں ہائی پروفائل مسائل کے تذکرے ہوتے ہیں وہاں میں عام پاکستانیوں کے مسائل پر لکھتی رہی ہوںمگر ہمارے لکھنے سے کیا ہوتا ہے کہیں کوئی ایک انچ کا بھی تو فرق نہیں پڑتاکہ یہاں فیصلوں کا اختیار بھی بیرونی قوتوں کے پاس ہے غریب پاکستانی، اپنے ہی وطن میں غریب وطن ہے اس کا کوئی والی وارث اور پرسان حال نہیں ۔وہ ماچس سے لے کر آ ٹے کے تھیلے تک پر ٹیکس ادا کرتا ہے اس ٹیکس سے وہ ملک کے خزانے کو بھرتا ہے لیکن اس کے بدلے میں اسے بھوک غربت اور جینے کی اذیت کے سوا کیا حاصل ہوتا ہے۔ بجلی کے بلوں پر پورے ملک میں ایک ہاہا کار مچی ہے مگر اس وقت ملک کے نگران وزیراعظم جو ظاہر ہے اصل مقتدرہ کی ایک علامت کے طور پر موجود ہیں، فرماتے ہیں کہ مہنگائی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پرلے درجے کی بے حسی اس شعر کی مثال ہے: اذیتوں کے تمام نشتر مری رگوں میں اتار کر وہ بڑی محبت سے پوچھتا ہے تمھاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں بس سوال ہی سوال ہے 80 فیصد لوگ بجلی کے بل دینے کی سکت نہیں رکھتے ہزاروں روپے کے بل ان کی ماہانہ آمدنیوں سے زیادہ ہیں ان کے پاس زندگی گزارنے کا باعزت راستہ بچا نہیں ہے ان حالات میں حکومت کسی بھی طرح کا ریلیف دینے سے قاصر ہے۔جس ڈھٹائی سے یہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے بھی آئی ایم ایف کے پاس بھاگے بھاگے جاتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت عالمی مالیاتی اداروں کی ملازم ہے۔ انہوں نے اپنی روحیں آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھی ہیں۔میں اس نگران حکومت میں موجود چہروں کی بات نہیں کر رہی۔یہ سب چہرے تو علامت کے طور پر موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں پر حکمرانی کرنے کے لیے آنے والوں نے اپنی روحیں عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گر وی رکھ دی ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کا ایجنڈا ہی یہ ہے جو ممالک ان سے قرضہ لیتے ہیں وہاں سیاست سے لے کے معیشت اور معاشرت تک سب غیر مستحکم رہتے ہیں۔ طبقہ اشرافیہ ان کا پیٹ بھرنے کے لیے عام آدمی کا خون نچوڑتیہے تاکہ لوگوں میں ایک انتشار اور بد امنی کی کیفیت رہے اور اس بھوک غربت انتشار اور قحط سالی میں وہاں کے صاحب اقتدار دولت مندوں کی مراعات میں مزید اضافہکرتیجائیں۔ یہ آئی ایم ایف کا ایجنڈا ہے اور ان عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں ہمارے حکمرانوں نے اپنی روحیں گروی رکھی ہوئی ہیں۔اگر کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم از کم "وزیر اعظم پاکستان،" کی اصطلاح کو ختم کر دینا چاہیے تاکہ عوام کو عالمی مالیاتی اداروں کے ملازمین پر با اختیار ہونے کا گمان نہ رہے۔ تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام! ٭٭٭٭٭