وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشیدگی برقرار رکھنے پر بضد بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے نزدیک امن کا مطلب کشمیر کا سودا نہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے گھس کر مارنے کی دھمکی دینے والے کو سبق سکھا دیا ہے۔ بلا شبہ جناب شاہ محمود قریشی کی ان باتوں سے اختلاف ممکن نہیں کہ ’’بھارت نے سارک کو یرغمال بنا لیا ہے۔ وہ ہمیں سفارتی سطح پر تنہا کرنا چاہتا ہے مگر خود ہر جگہ ناکام ہوا۔ پاکستان کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا، ہم پر اعتماد انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں دنیا ہماری بات سمجھ رہی ہے‘‘۔ بھارت میں عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے۔ گیارہ اپریل سے 19مئی تک سات مرحلوں میں انتخابی عمل مکمل ہو گا۔ انتخابی شیڈول آنے سے پہلے ہی مودی حکومت نے خارجی اور داخلی سطح پر کشیدگی اور لڑائی کا ماحول بنا دیا ہے۔ ایک طرف مقبوضہ کشمیر ہے جہاں عام انتخابات کا شیڈول التوا میں رکھ کر نوجوانوں پر تشدد کیا جا رہا ہے مگر آزادی کے لئے بے تاب کشمیری بھارتی سکیورٹی فورسز کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ پھر بھارت نے لائن آف کنٹرول کو گزشتہ دو برسوں سے محاذ جنگ میں تبدیل کر رکھا ہے۔ روز گولہ باری اور فائرنگ سے کشمیری شہید ہو رہے ہیں۔ ابھی چار روز پہلے خواتین کا عالمی دن تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں اس روز ہزاروں کشمیری خواتین نے آزادی کے حق میں ریلی نکالی۔ ایسے ماحول میں وزیر اعظم نریندر مودی کا وہ ٹویٹ جگ ہنسائی کا سبب بنا ہے جس میں انہوں نے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کے لئے گھر سے باہر نکلنے کا کہا ہے۔ خطے میں اشتعال کی آنچ تیز کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر اور دوسرے علاقوں کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ مودی حکومت عالمی امن کے لئے خطرات پیدا کر رہی ہے۔ بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کے بعد پاکستان کو ملنے والے دریائی پانی کو روک کر بھارت تصادم کو دعوت دے رہا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے جہلم اور سندھ پر 27میگاواٹ کے نئے منصوبے شروع کر دیے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت نئے آبی منصوبوں کے متعلق پاکستان کو آگاہ کرنے کا پابند ہے مگر چند ماہ قبل پاکستانی ماہرین نے جب بھارت کا دورہ کیا تو انہیں نئے آبی منصوبوں سے بے خبر رکھا گیا۔ بھارت مدت سے آبی جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے۔ پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ سب سے خطرناک ہتھیار ہے جس سے پاکستان کی معیشت اور ترقی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ آزادی کے فوری بعد بھارت نے پاکستان کو آنے والے پانی کو روک کر اپنی دشمنی ظاہر کر دی تھی۔1948ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں بھارت نے معاوضہ لے کر اپنی طرف سے آنے والے دریائوں کا پانی پاکستان کو فراہم کیا۔ انیس سو پچاس کے عشرے میں ایک بین الاقوامی ماہر نے پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا۔ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاملہ طے نہ پایا تو جنگ یقینی ہو گی۔ اس ماہر نے اپنی رپورٹ ورلڈ بنک کو پیش کی۔ ورلڈ بنک نے دونوں ممالک کی قیادت سے بات کی اور پھر 1960ء میں سندھ طاس کا معاہدہ ہوا جس پر بھارت کی طرف سے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کی جانب سے صدر ایوب خان نے دستخط کئے۔ اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریائوں راوی‘ ستلج اور بیاس کے پانی پر بھارت کا تصرف تسلیم کیا گیا جبکہ جہلم‘ چناب اور دریائے سندھ کا پانی پاکستان کو دیا گیا۔ معاہدے کی رو سے بھارت اس بات کا پابند ہے کہ وہ معاہدے میں مذکور کسی بھی دریا پر کوئی منصوبہ شروع کرنے سے قبل پاکستان کو آگاہ کرے گا۔ پاکستان اگر اعتراض اٹھاتا ہے تو بھارت اس کا جواب دینے کا پابند ہے۔ کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کی صورت میں غیر جانبدار ماہر کی رائے حتمی فیصلہ تصور ہو گی۔ گزشتہ بیس برسوں کے دوران بھارت میں انتہا پسندوں کی طاقت بڑھی ہے۔ جمہوریت جس رواداری‘ برداشت اور تحمل کی پرورش کرتی ہے انتہا پسندی ان پودوں کو مسل دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہنے کو بھارت میں جمہوریت ہے مگر سیاسی سطح پر جمہوری طرز عمل نظر نہیں آتا۔ پاکستان اور بھارت کی انگریز سے آزادی کے پس پردہ کچھ نظریات کارفرما تھے۔ بھارت خطے کا بڑا ملک ہونے کے ناطے اگر اپنی ذمہ داریوں کا خیال کرتا تو برصغیر دنیا کا خوشحال ترین علاقہ ہوتا۔ پاکستان پہلے دن سے بھارتی جارحیت کا نشانہ رہا ہے۔ آبی جارحیت کا جو سلسلہ 1948ء سے شروع ہوا وہ ابھی تک جاری ہے۔ بھارت نے پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایسی ہی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب بھارت سے مذاکرات کئے تو ان کا مقصد یہی تھا کہ دونوں ملک اپنے تنازعات کو بات چیت سے حل کریں اور اپنی پوری توجہ عوام کی فلاح و بہبود پر صرف کریں۔ پاکستان جب کشمیر کی بات کرتا ہے تو وہ کروڑوں کشمیریوں کی نمائندگی کرتا ہے جو بھارت سے آزادی کے لئے ہر قربانی دے رہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا کہ پاکستان امن چاہتا ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پاکستان کشمیریوں کی حمائت ترک کر دے۔ پاکستان کے نزدیک امن کا مطلب خطے کو تنازعات سے پاک کرنا ہے۔ جلد یا بدیر بھارت کو اس بات کا ادراک ہو جائے گا لیکن اس وقت تک خطے کو کشیدگی کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔