اگر آپ پاکستان میں رہتے ہوئے کشمیر کے موضوع پر یوٹیوب کے لیے ویڈیو بنائیں تو قوی امکان ہے کہ اسے مونیٹائز نہیں کیا جائے گایعنی اسے اشتہارات کے لیے غیر موزوں قرار دے کرویڈیو بنانے والے کو ریوینیو سے محروم کر دیا جائے گا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یو ٹیوبر اس موضوع پر محنت اور سرمایہ صرف کرنے کی بجائے دوسرے موضوعات کا انتخاب کرے گا اور کشمیر کا موضوع زیر بحث نہیں لائے گا۔ گویا یوٹیوب کشمیر پر ویڈیو بنانے والوں کو بزنس شیئرنہ دے کر کشمیر کے لیے آواز اٹھانے کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے ۔اگرکوئی پھر بھی باز نہ آئے اور ریوینیو کی پروا کیے بغیر مسلسل اس موضوع پر’’ ہرزہ سرائی ‘‘ کرتا رہے تو اس کاچینل بند بھی ہو سکتا ہے چاہے اس کے لاکھوں سبسکرائیبرز ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر آپ کشمیر کے لیے فیس بک پر زور دار آواز اٹھائیں تو قوی امکان ہے کہ آپ کا پیج یا اکائونٹ بند کر کے آپ کو ہزاروں یا لاکھوں فالوورز سے محروم کر دیا جائے گا، لہذا آپ اپنا سالہا سال کا سرمایہ اور لاکھوں فالوورز بچانے کے لیے بھارت کے خلاف اور کشمیر کے حق میں آواز اٹھانے سے گریز کریں گے مبادا کہ آپ کا ناقابل تلافی نقصان ہو جائے اور دوبارہ لاکھوں فالوورز حاصل کرنے کے لیے آپ کو طویل جدو جہد کرنی پڑے ۔ اگر آپ ٹویٹر پر ایسا اکائونٹ بنا لیں جہاں سے آپ مسلسل کشمیر کے حق میں مواد شائع کرنے لگیں تو قوی امکان ہے کہ آ پ کا ٹویٹر اکائونٹ بند کر دیا جائے گا۔ ایسے بہت سے لوگوں ہمارے دوستوں میں سے ہیں جن کے ٹویٹر اور فیس بک پیجزاور اکائونٹ بند کر دیے گئے جبکہ یو ٹیوب پر ویڈیو مونیٹائز نہ ہونا تو ایک عام سے بات ہے ۔ اگر آپ گوگل پر پاکستان کا نقشہ تلاش کریں تونوے فیصد سے زیادہ نقشے آپ کو وہی دکھائی دیں گے جس میں کشمیر پاکستان کا نہیں بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات غلطی سے پاکستان کا وہ نقشہ شائع یا نشر ہو جاتا ہے جس میں کشمیر موجود نہیں۔ حال ہی میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک سے زائد پروگرامز میں ایسے نقشے نشر ہو گئے جو یقینا گوگل سے اٹھا لیے گئے ہوں گے اور جس میں کشمیر شامل نہیں تھا۔ایک نجی چینل کی فوٹیج میں بھی ایسا ہی نقشہ دیکھنے کو ملا۔ پچھلے سال میں ایک کشمیر کانفرنس میں شریک ہوا، زور دار تقریریں ہوئیں،کشمیری بھائیوں کیلئے لڑنے مرنے کا عزم ظاہر ہوا، تقریب کے آخر میں شرکاء میں شیلڈز تقسیم کی گئیں ، شرکاء یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پاکستان کے نقشے کی شکل میں بنی ان شیلڈز کیلئے جو نقشہ استعمال کیا گیا تھا اس میں کشمیر شامل نہیں تھا، شرکاء میں سے بعض نے احتجاج کیا اور اعزازات وصول کرنے سے انکار کر دیا، منتظمین نے وضاحت کی کہ شیلڈز تیار کرنیوالے شخص نے غلطی سے گوگل سے غلط نقشہ اٹھا لیاجس کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں۔ اب سوال یہ ہے کیا یوٹیوب، فیس بک ، ٹویٹر اور گوگل بھارتی ایپلی کیشنز ہیں؟ نہیں جناب یہ ففتھ جنریشن وار فئیر ہے ،یہ جنگ بھارت نہایت خاموشی سے جیت چکا ہے ۔ بھارت نہایت چالاکی کے ساتھ حکمت عملی بنا کر سوشل میڈیا کے اس میدان میں اپنے قدم جما چکا ہے ۔ کوئی ہے جو بھارت کے اپنے مفاد میں کیے گئے ان اقدامات پر تنقید کرے جیسے کہ ہمارے ہاں سیاسی نقشہ جاری کرنے پر کی گئی ہے؟ ہمارے ہاں تنقید کرنے والے معاملے کو پوری طرح سمجھے بغیر برسات کے مینڈک کی طرح سوشل میڈیا پر نکل آتے ہیںاور فیشن کے طور پر تنقید ہونے لگتی ہے۔ حالیہ دنوں میں تین چیزوں پر بہت تنقید کی گئی۔پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ جاری کرنے، ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے اور آئی ایس پی آر کی جانب سے ترانہ نشرکرنے پر طنزیہ لطیفے بنائے گئے۔ تنقید کی گئی کہ فوج گانے بنا کر کشمیر آزاد کرانا چاہتی ہے ۔ تنقید کرنے والوں کو معلوم نہیں کہ جدو جہد کی مختلف جہتیں ہوتی ہیں۔ ہر جگہ ایٹم بم استعمال نہیں ہو سکتا ، ہر جگہ میزائل نہیں مارا جا سکتا،یہ ففتھ جنریشن وار فئیر ہے جہاں میڈیا، سوشل میڈیا اور عالمی فورمز پر اٹھائی گئی آوازیں موثر ہتھیار ہو سکتی ہیں۔یہ آوازیں کہیں تقریروں کی شکل میں اٹھائی جا سکتی ہیں ، کہیں تحریروں کے ذریعے اور کہیں یہ آوازیں ملی نغموں اور ترانوں کی شکل میں۔ ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنا اگر عالمی میڈیا کی سرخی بن سکتا ہے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے ؟ تنقید کی جاسکتی ہے کہ بھارت نے سوشل میڈیا کی عالمی طاقتوں کو اپنے ساتھ ملا لیا، پاکستان ایسا کیوں نہ کرسکا۔ تنقید ہو سکتی ہے کہ کشمیر میں ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود دنیا بھارت کی حمایت میں خاموش ہے، پاکستان کے موقف اور کشمیریوں کے حق میں لب کشا کیوں نہیں۔ تنقید ہو سکتی ہے کہ پاکستان 370 اور 35-A کے خلاف بھارت کو عالمی کٹہرے میں کیوں نہ لا سکا۔خارجہ پالیسی بھی زیر بحث لائی جا سکتی ہے اور اپنی کمزوریوں پر سیر حاصل بحث بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ بھی تنقید ہو سکتی ہے کہ سیاسی نقشہ اتنی دیر سے جاری کیوں کیا گیا ، لیکن سیاسی نقشہ جاری ہونے پر تنقید اور اس کی اہمیت سے انکار سمجھ سے بالا تر ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ طور پر چار حل ہو سکتے ہیں ۔ ایک ،اقوام متحدہ اپنی قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کو اپنا فیصلہ خود کرنے کا اختیار دلوائے ۔ دوسرا ، اندرونی خانہ جنگی اس قدر فروغ پا لے کہ بھارت کے لیے بھاگ نکلنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہے ۔ تیسرا، بھارت معاشی طور پر اتنا کمزور ہو جائے یا کر دیا جائے کہ دس لاکھ فوج کا بوجھ برداشت نہ کرسکے اور کشمیر سے نکلنے میں عافیت جانے۔ چوتھا یہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تباہ کن جنگ ہو جو کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرے ۔ ان تمام میں سے پاکستان سرکاری سطح پر پہلی آپشن کو اپنی ترجیح بتاتا اور سمجھتا ہے ، اگر اسی پہلے راستے سے کامیابی حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے سیاسی نقشہ اور ملی نغمے جاری کرنے، میڈیا اور سوشل میڈیاکے ذریعے آواز اٹھانے، سوشل میڈیا گروپس کے ساتھ معاملات کو طے کرنے اور ان کے دفاتر پاکستان میں کھولنے کے لیے موثربات چیت کے ذریعے انہیں پاکستان آنے کے لیے راضی کرنے جیسے اقدامات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔