عالمی بازار میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت نے ایک بار پھر پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق پٹرول کی قیمتوں میں چھ روپے بہتر پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اْن عوامی نمائندوں پر مشتمل اتحادی حکومت ہے جوپونے چار سال تحریک ِ انصاف کی سابقہ حکومت میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کو عوام دشمنی گردانتے آئے ہیں۔ یہ وہی نمائندے ہیں جو بارہ روپے پیٹرول اضافہ پر سابق وزیراعظم پاکستان کو پتھر دل قرار دیتے رہے تھے۔ یہ پاکستان تحریک ِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم پاکستان کو جھوٹا، منافق، نااہل، چور، ڈاکو،پاکستان کی سب سے بڑی کابینہ بنانے والا، توشہ خان، خیرات و صدقہ چور وغیرہ جیسے القابات دیتے ہیں۔ اب اِنہیں دوبارہ کرسی ِ اقتدار پہ بیٹھنے کا موقع ملا تو آئیے ذرا عوام دشمن چند ’عظیم ترین‘ کارناموں پہ نظر دوڑائیے۔ یہ نااہل حکمران پہلے امریکی ڈالر 186سے 240پہ لے گئے اورپونے چار سال اقتدار کی لذتوں سے محروم اپنی اے ٹی ایم مشینوں کو خوب لوٹنے کا موقع دیا۔ ڈالر تاحال 234 سے اوپر ہے۔ ڈالر کی اڑان کے ساتھ سیمنٹ، سریا، بجری، ریت، اینٹوں، اشیائے خوردو نوش، کپڑا، ذرائع آمدو رفت کے کرائیوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے ۔ اسی طرح پٹرول جو تحریک ِ انصاف کے اقتدار کے آخری دن 150روپے تھا اس میں 100روپے کا اضافہ کردیا گیا اور پہلے ہی بھوک سے بلکتی عوام کو خودکشیوں پر مجبور کردیا گیا۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، تاجروں اور سٹے بازوں کی مبینہ پروردہ اس اتحادی حکومت نے سو روپے اضافہ کو انتہائی بے حسی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی لاچارگی اور مجبوری قرار دیا۔ اندازہ کیجئے جس سیاستدان نے پونے چار سال حکمرانی کی اور پٹرول کی قیمت میں کل ستر روپے اضافہ کیا جو بذاتِ خود اس حکمران کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت تھا کیونکہ حزبِ اختلاف میں وہ بھی 80روپے فی لٹر پٹرول کو مہنگا بتلایا کرتا تھا اور اْسے معاشی ماہرین 40روپے فی لٹر سے کم کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ مگر پھر بھی اس حکمران نے قیمت کو 150روپے تک برقرار رکھا اور ’ایماندار، راست باز اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار‘ اس اتحادی حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے ساٹھ دنوں میں سو روپے فی لٹر اضافہ کیا اور اس ظالمانہ اقدام کو محض اپنی مجبوری قرار دیتے ہوئے مجرمانہ چپ سادھ لی۔ یہ وہی نمائندے ہیں جنہوں نے چودہ اگست کو سرکاری ٹیلی ویژن کی لائیو کوریج کے دوران ایک سرکاریتقریب میں سٹیج ڈراموں کی طرز پر رقاصاؤں نے ہیجان انگیز رقص پیش کروایا۔ بیک ڈراپ پہ بانیِ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تصویر چسپاں تھی۔ یقیناً یہ تماشہ دیکھ کر بانی ِ پاکستان کی روح تڑپ اْٹھی ہوگی کہ انہو ں نے تو پاکستان کو ایک ایسی تجربہ گاہ بنانا تھا جہاں وہ اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق زندگیاں گزار سکیں مگر دورِ جدید سماجی، معاشی اور سائنسی ترقی کی سوچ سے عاری حکمران میری (قائداعظمؒ) کی آنکھوں کے سامنے رقص پیش کررہے ہیں اور اِسے ملک کی پچھترویں سالگرہ پہ آزادی کی تقریب قرار دے رہے ہیں۔ ایک طرف حکیم الاامت ڈاکٹر علامہ اقبال کی تصویر سوچوں میں گم تھی کہ اْنہوں نے یہ خواب تو بالکل نہیں دیکھا تھا۔ بے حسی کی اس لازوال مثال قائم کرنے پر ’حب الوطنی‘ کے جذبے میں نڈھال اس قیادت کو یقینی طورپر اکیس توپوں کی سلامی پیش کرنی چاہئے بشرطیکہ اِن سب جید سیاستدانوں کو توپوں کے سامنے کھڑا کرکے سلامی دی جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شمالی کوریا کے جوان لیڈر کمِ جونگ اْن کو محض ایک دن کیلئے پاکستان کیسونپ دی جائے اور بائیس کروڑ پاکستانی عوام کی جانب سے بھرپور التماس کی جائے کہ وہ اپنے سگے چچا جنگ سونگ تھئیک کی طرز پر اِن تمام لیڈران کو سلامی پیش کریں۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ عالمی بازار میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں انتہائی کمی سامنے آرہی ہے مگر یہ سیاستدان عوامی زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں۔ عوام بلک رہی ہے۔چند دن قبل فیصل آباد کے علاقہ محمود آباد میں پچاس سالہ عتیق الرحمن نامی شخص نے غربت سے تنگ آکر اپنی سترہ سالہ بیٹی علشبہ اورگیارہ سالہ زینب کو گلا کاٹ کر مار دیا اور بعد ازاں خود پنکھے سے جھول کر خود کشی کرلی۔ خود کشی سے قبل اپنے کزن کو واٹس اپ پر بھیجے گئے وائس نوٹ میں جس انداز میں وہ اس اندوہناک واقعہ کو بیان کررہا ہے۔محض وہ سن کر پاؤں سے زمین نکل جاتی ہے۔ مگرگزشتہ پچاس سال سے اقتدار پہ قابض اِن چند خاندانوںکی بے حسی کا اندازہ لگایئے کہ یہ چودہ اگست کو سرکاری ٹیلی ویژن پر لائیوڈانس دیکھنے میں مصروف تھے جسے انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آزادی کی تقریب قرار دیا ہے۔اقتدار سے قبل اور اقتدار میں آنے کے بعد محض اِن کے چہروں کا تقابلی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف اقتدار کے ہی بھوکے ہیں۔ کرسیِ اقتدار پہ بیٹھنے کے بعد اِن کے چہرے سرخ ٹماٹر کی طرح ہوجاتے ہیں مگر ٹھنڈے دفتروں سے باہر نکل کر یہ کمال منافقت کا سہارا لیتے ہوئے ’عوامی خدمت‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ خود ٹیکس نہیں دیتے، قرض لے کر معاف کروالیتے ہیں، یہ پٹرول سے لے کر پینے کے صاف پانی تک عوامی ٹیکس سے خریدتے ہیں۔ یہ عوام کو صرف بیوقوف بناتے آرہے ہیں۔ یہ عوام کو کم عقل سمجھتے ہیں۔ سیاست کے نام پر انہوں نے ہر حلقہ میں جتھہ بندی کی ہوئی ہے۔ ہر جتھہ ووٹ اکٹھے کرتا ہے اور الیکشن کے روز محض ایک دن کے لئے عوام کو بریانی، جوس، روٹی کھلا کر ووٹ چرا لیتے ہیں اور اگلے پانچ سال عوام کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر رلاتے رہتے ہیں۔بے حسی میں یکتا سیاستدان اور عوامی نوکر ِ شاہی کے پروردہ سبھی عوام کو زندہگاڑھنے میں مگن ہیں۔ اب عوام کو ایک خونی انقلاب درکار ہے۔ ایک ایسا خونی انقلاب جو اِن بے حس حکمرانوں کو اپنے ساتھ بہا لے جائے۔ یہ کوئی نیا نہیں بلکہ عوام کی آنکھوں میں اْترا ہوا وہی خون ہے جس سے موجودہ وزیراعظم پاکستان اچھی طرح واقف ہیں۔ جس کا اظہار وہ خود سابقہ ادوار میں کرچکے ہیں کہ وہ عوام کی آنکھوں میں خون دیکھ رہے ہیں۔اب لاوا پک چکا ہے۔ صرف تالاب میں کنکر پھینکنے کی دیر ہے۔ جلد یہ لاوا اِن سرمایہ دار حکمرانوں کے قابو سے باہر ہوجائے گا۔