مستنصر حسین تارڑ بھی کیا غضب کے آدمی ہیں، جب بھی ملتے ہیں کسی نہ کسی نئی تخلیق کا ٹنگار اُن کی شخصیت کے بھیتر جھانک رہا ہوتا ہے۔ ہم نے بڑے بڑے جاٹوں کو دیکھا ہے، کبھی نہ کبھی ان کے دانے ختم ہو جاتے ہیں لیکن یہ ایسا جاٹ ہے کہ جس کی تخلیق کے بھڑولے ہمیشہ کنو کن بھرے رہتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ماڈل ٹاؤن پارک میں’ ’تکیۂ تارڑ‘‘ پہ ملاقات ہوئی تو نہ صرف پنجاب کے انوکھے نرالے ہیرو بھگت سنگھ کے حوالے سے لکھے ان کے نئے پنجابی ناول ’’مَیں بھَنّاں دِلّی دے کِنگرے‘ کی زیارت ہوئی بلکہ اس دن تو ان کی گفتگو سے بھی بھگت سنگھ ہی چھلک رہا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر نوجوانی میں پھانسی پہ جھُول جانے والے اس بے دھڑک سپوت کی جرأت، لگن، مطالعے اور علم و ادب کی لگن کے گُن گاتے رہے۔ ہمہ وقت تخلیق و تخیل کی نگری میں سانس لینے والے ہمارے اس ناول نگار ہی کا کمال ہے کہ انھوں نے قارئین کے ساتھ ساتھ 27 ستمبر 1907ء کو لائلپور کے ایک زمیندار دیہاتی گھرانے میں جنم لینے اور برِ صغیر کی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے 23 مارچ 1931ء کو سنٹرل جیل لاہور میں ساڑھے تئیس سال کی عمر میں پھانسی پا جانے والے اس البیلے پنجابی گبھرو کو سو سال بعد انگلی لگا کر نہ صرف اس کے جڑانوالہ کے قریبی گاؤں بنگہ کے کھیتوں کھلیانوں اور اس کے قدیمی گھر کی سیر کرائی بلکہ موجودہ لاہور کے ان گلی کوچوں کی بھی یاترا بھی کرائی، جہاں جہاںبھگت سنگھ کے قدموں کے نقوش ثبت تھے۔ کسی بھولی بِسری تاریخ، دم توڑتی تحریک یا اچھوتی تحقیق کو ناول کے سنگھاسن پہ لا بٹھانے کے لیے مستنصر حسین تارڑ جیسے تخلیقی وژن ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھی دنوں اچھی شہرت کے حامل مکتبۂ کارواں سے اشاعت شدہ ایک خوب صورت کتاب ’’صراطِ مستقیم‘‘ کی وساطت سے جڑانوالہ ہی سے تعلق رکھنے والی ایک نہایت محبِ وطن ہستی میاں عبدالباری مرحوم سے بھی خاطر خواہ تعارف حاصل ہوا۔ تحریکِ پاکستان کے نہایت مخلص اور بے لوث رکن میاں عبدالباری کپور تھلہ(انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ 1920ء میں ان کا خاندان جڑانوالہ (ضلع لائلپور) منتقل ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ آزادی کی لگن بچپن ہی سے ان کے خون میں شامل تھی۔ اسی لگن کی بنا پر انھوں نے انگریز سرکار کی نوکری کرنے سے انکار کر دیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران امیرِ افغانستان، ایران اور ترکی کے سربراہان کو اُمتِ مسلمہ کے اتحاد کے لیے ابھارنے کی کاوشیں کیں۔ آزادی کی جدو جہد میں متحرک ہونے اور انگریز مخالف سرگرمیوں کی بنا پر نہ صرف سنٹرل جیل لاہور میں قید میں رہے بلکہ سزائے موت کا بھی حکم ہوا لیکن سر محمد شفیع اور سر فضل حسین کی کوششوں سے رہا ہوگئے۔ 1942 میں پنجاب مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اسی سال قائدِ اعظم کو لائلپور آنے کی دعوت دی۔ اگلے ہی سال پنجاب مسلم لیگ کے صدر منتخب ہو گئے۔ میاں عبدالباری 1956ء میں تیار ہونے والے پاکستان کے آئین کے بھی روحِ رواں تھے۔ آزادی کے بعد Afro-Asian Solidarity Movement کے بانی اور پہلے صدر رہے۔بین الاقوامی سیاست پہ گہری نظر تھی۔ میاں عبدالباری قیامِ پاکستان کے بعد بھاری اکثریت سے ممبر قانون ساز اسمبلی پنجاب کے رکن منتخب ہوئے۔ انہی دنوں جب اس اسلامی مملکت کے دستور کی بحثیں جاری تھیں اور بعض لوگوں میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلنا شروع ہو گئی تھیں کہ کیا ہمارے تمام علما ایک دستور پر متفق ہو سکیں گے؟ اسی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ممتاز علما پر مشتمل مجلسِ دستور ساز کا قیام عمل میں آیا، جسکے صدر سید سلیمان ندوی تھے۔ کراچی میں اس کے چار دن جاری رہنے والے اجلاس میں نظریۂ پاکستان کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی دستور کے بنیادی اصول مرتب کیے گئے، جنھیں 1951ء میں اس کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا۔ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد ملک میں ایسی افراتفری کا آغاز ہوا، جس کے بد اثرات آج تک ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ کتاب کے مندرجات کے مطالعے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آج بھی وطنِ عزیز کے نظام کو اگر انکی روشنی میں ڈھال لیا جائے تو بہت سے خدشات اور خرخشوں سے بچا جا سکتا ہے۔ کتاب پہ نظرِ ثانی ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل جناب محمد عملش کی ہے اور اس کا پُر مغز تعارفیہ جناب ڈاکٹر علی محمد خاں نے تحریر کیا ہے۔ اسی طرح معروف اخبار نویس، کالم نگار ، تن ساز اور ماہرِ نباتات، جناب اشرف شریف کہ جن کا شمار لاہور کے عاشقوں اور پاکستان کے معروف و معقول تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے اندر ایک پہلوان اور ایک سُوجھوان ہمیشہ شانہ بشانہ رواں رہتے ہیں۔ بکاؤ اور گھکاؤ صحافت کے دور میں بھی ان کا شمار وطنِ عزیز سے سچی اور پُر خلوص محبت کرنے والے صحافیوں اور قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ ملکی حالات کی جیتی جاگتی اور متوازن تصاویر ان کے کالموں اور اداریوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ اِن کے بھی پسندیدہ ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ تارڑ صاحب سے محبت کا ایک یہ بھی انداز ہے کہ یہ انھی کے نقشِ قدم پہ پاؤں دھرتے ہوئے اس ہر دل عزیز شہر، لاہور کے خُفتہ و نہفتہ گوشے دریافت کرنے کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ وہ لاہور کو ایک محب اور محقق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ہمارے ان دونوں پیاروں کی لاہور سے محبت، کسی اور سے محبت ہر گز نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور ایک ایسی کافر حسینہ ہے کہ جو بھی اس کے عشق میں مبتلا ہو گیا، وہ اس کے ایک ایک کونے کو دریافت کرنے اور ایک ایک گوشے سے پیار کرنے نکل کھڑا ہوا۔ یہ لاہور جو علی ہجویوی ؓ کا لاہور ہے، جو مسعود سعد سلیمان لاہوری کا نگر ہے، جو اکبر، جہانگیر، اورنگ زیب عالم گیر کا شہر ہے، جو مہاراجا رنجیت سنگھ، میلہ رام اور کنھیا لال کا لاہور ہے، جو گنگا رام، دیال سنگھ اور سر الفریڈ وولنر کا لاہور ہے۔ جو ڈاکٹر فارمن، پروفیسر لائٹنر اور سر لارنس کا لاہور ہے، جو اس منفرد اسلامی مملکت کا تصور پیش کرنے والے شاعرِ مشرق اور ایرانیوں کے بقول اقبال لاہوری کا لاہور ہے۔ جو مولانا آزاد، پطرس بخاری، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، ناصر کاظمی اور فیض احمد فیض کا لاہور ہے اور اب جو مستنصر حسین تارڑ، اشرف شریف اور میرا لاہور ہے۔ ہم نے چھجو کا چوبارہ، جسے صرف ضرب الامثال میں سن رکھا تھا، اسے بھی اشرف شریف کی کتاب میں دیکھ لیا۔ اندرون لاہور کی کہانیاں ہوں، مائیاں رانیاں ہوں، ٹیمپل روڈ ہو ،براڈلے ہال سے پھوٹنے والا سیاست کا پودا ہو یا برکت علی محمڈن ہال سے ابھرتا ہوا پاکستان کا تصور، وزیر خاں کی بارہ دری کا پُر اَسرار گوشہ ہو یا ہال روڈ میں بدلتا لکھی محلہ، بیدِ مجنوں کو چومتی لاہور نہر ہو یا راجا ٹوڈر مل کا تالاب، وہ لاہور کے برباد باغات ہوں یا قبضہ گروپوں کے ہاتھوں مٹتا لاہور، سب اس کے صفحات سے عیاں ہے۔ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ خونِ جگر سے تلاشی ہوئی تاریخ کی طرح اہم اور قلب کی گہرائیوں سے پھوٹتے ناول کی طرح دلچسپ ہے!!!