جماعت اسلامی کے امیر کا بیان پڑھ کر مزا بھی آیا‘ حیرت بھی ہوئی اور قدرے تشویش بھی لاحق ہوئی۔ فرمایا‘ حکومت نے کشمیر تھالی میں رکھ کر بھارت کو دے دیا۔ مزا کیوں آیا‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ بات مزے کی تھی‘ مزا تو آنا ہی تھا۔ حیرت یہ ہوئی کہ ایک سال پرانی خبر جماعت کو اب پہنچی؟تھالی واشنگٹن میں گزشتہ برس جولائی میں پیش کی گئی تھی اور خبر اسی دوران ہی لیک ہو گئی تھی اور لیک کیا ہوئی تھی۔تشویش کی بات یہ ہے کہ جماعت کا نظام بہم رسائی اطلاعات روبہ انحطاط وسائل بہ نقاہت اور ضعف گرفتہ ہوتا جا رہا ہے۔ زیر نظر ماجرے سے پہلے بھی ایک ماجرا بالکل اسی طرح کا رویہ اختیار ہو چکا ہے۔ اس کا ذکر ذرا آگے چل کر سہی! اس دوران ذرا تھالی کی بات ہو جائے۔ ٭٭٭٭ تھالی کی بات یہ ہے کہ وہ کبھی خالی واپس نہیں آتی۔ ایوب خان نے بھی اسی طرح پاکستان کے تین دریا تھالی میں رکھ کر بھارت کی نذر کئے تھے اور تھالی تب بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹی تھی۔ تھالی میں کیا تھا‘ یہ خبر فوری طور پر بریک نہیں ہوئی تھی لیکن کچھ ہی عرصے بعد افق پر گندھارا انڈسٹریز کی شاندار امپائر نمودار ہوئی۔ بھلے سے کسی دن ایوان کی کارروائی دیکھ لیجیے۔ ویسے بھی یہ ہماری یعنی اہل مشرق کی روایت ہے۔ چھوٹی عید پر سوئیوںکی تھالی ہمسایوں کو بھیجو تو کھیر سے بھری واپس آتی ہے‘ خالی نہیں۔ تھالی کرموں والی کبھی نہ آئے خالی ٭٭٭٭ اس بار تھالی میں کیا آیا ہے۔ سال بھر بعد یہ اطلاع بھی سراج الحق کو پہنچ ہی جائے گی۔ فی الحال اتنا بتانا کافی ہے کہ کیا یہ نعمت کم ہے کہ پون صدی سے جس درد سر نے ہماری منڈی جکڑی ہوئی تھی‘ اس سے جان چھوٹی اور دکھوں کی ماری علیل جنڈری کو ریلیف ملا اور قبلہ تھالی بردار ریلیف دینے کے وعدے پر ہی تو آئے تھے۔ ٭٭٭٭ خبر ایک یہ ہے اور بی بی سی نے دی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام تاریخ میں پہلی بار پاکستان سے مایوس نظر آ رہے ہیں۔ یعنی ان تک بھی اطلاع ایک سال کی دیری سے ملی۔ خیر بات سمجھ میں آئی ہے۔ بھارت نے اطلاعات پر بھی لاک ڈائون لگا رکھا ہے۔ سوشل میڈیا‘ انٹرنیٹ‘ سب کچھ بند ہے۔ لوگ چوک چوپال پر بھی مل بیٹھ نہیں سکتے۔ اطلاع پہنچتے پہنچتے سال بھر لگ گیا۔ ٭٭٭٭ ہاں کشمیریوں کی بات بے شک سمجھ میں آئی ہے‘ جماعت اسلامی کی نہیں اور تشویشناک امر یہ ہے کہ یہ دوسرا ماجرا ہے۔ پہلا ماجرا پانامہ سکینڈل پر ہوا تھا۔ سکینڈل آتے ہی باخبر لوگوں نے لکھ دیا کہ نواز شریف کو گھر بھیجنے کے منصوبے پر عمل شروع ہو گیا۔ آہستہ آہستہ سب کو اطلاع ہو گئی کہ اصل ماجرا کیا ہے پھر جب ڈراپ سین ہو گیا تو بچے بچے کو پتہ چل گیا کہ کاریگراں کی ایک اور کاریگری ہے۔ مزے کی بات ہے کہ اس کاریگری کے فن پارے کی حقیقت ان نیک ‘محب وطن سچے اور امانت دار تجزیہ نگاروں کو بھی پہلے دن سے تھی۔جنہوں نے نواز شریف کو بادشاہ بنانے کی ذمہ داری نبھانے کے لئے مجموعی طور پر 18ہزار گھنٹے کے طویل پروگرام کئے۔ نہیں پتہ چلا تو جماعت کو نہیں چلا۔ وہ معاملہ بہ احسن خوبی نمٹنے کے بعد بھی پانامہ لیکس کی فائلیں لے کر کورٹ کچہری کے چکر لگاتی رہی کہ بھئی‘ پانامہ میں تو اور بھی بہت سے نام تھے‘ ان کا کیا ہو گا۔ کب ہو گا۔ پھر ایک دن نہایت سینئر سیاستدان وزیر ریلوے محترم جناب شیخ رشید نے یہ بیان حقیقت افروز جاری فرمایا کہ پانامہ لیکس کبھی نہ ہوتا اگر ڈان لیکس نہ ہوتا۔ یعنی پانامہ لیکس ’’بدلے‘‘ کی کاریگری تھی۔ تب جماعت کو تھوڑی تھوڑی اطلاع ہوئی کہ ماجرے کی دال میں گڑ بڑ کا گھوٹالگا ہے۔ پھر ایک دن وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے ٹی وی پر فرمایا کہ نواز شریف ’’بات‘‘ مان لیتے تو آج بھی وزیر اعظم ہوتے۔ تب جماعت کو معاملے کی پوری سمجھ میں آ گئی اور اس نے بھی پانامہ کا کھاتا بند کر دیا۔ ٭٭٭٭ کچھ لوگ‘ اس ماجرے کے برعکس ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اطلاع سال بلکہ دو سال پہلے ہی مل جاتی ہے۔ ھذا شی عجیب ۔ دھرنے شروع ہوئے تو 90فیصد نہیں۔90فیصد قلمکار اور تجزیہ کار حب الوطنی کے تقاضے پورے کرنے کی ذمہ داری نبھانے لگے البتہ ایک فیصد ایسے تھے جو یہ بتا رہے تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نیکو کار ایماندار صادق اور امین لوگوں کو عوام منتخب کریں گے ، جسے ایک ایجنڈا دیا گیا ہے۔ وہ مختصر مدت میں معیشت کو مضبوط کریں گے‘ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا معیار زندگی بلند ہو گا ، محب وطن لوگ جانتے ہیں کہ یہ کلاس قومی مفاد کے لئے کس قدر اہم تھی۔ اس نے بے روزگاری کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ امیروں کو ٹیکس دینے ولا بنا دیا ہے ۔ غریبوں پر نوازشات کر رہی ہے ۔ روپے کو سستا کردیا گیا‘ غریب کو دال سبزی سے بھی آگے کر دیا ہے ۔ ترقیاتی کاموں کو تیز تر کر دیا گیا ہے ۔ سی پیک کی رفتار بھی تیز ہو چکی ہے۔ ’’کشمیر‘‘کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہو ا ہے ۔بیشتر ایجنڈا پورا ہو گیا اگرچہ ابھی سفر جاری ہے۔ ٭٭٭٭ جی ہاں‘ سفر ابھی جاری ہے۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ بجلی سستی ہو گی۔کیونکہ اب آئی پی پیز کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے ۔جس کے بعد اب عوام کو بھر پور ریلیف ملے گا ۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ مشکل وقت ختم ہو گیا وہ جب بھی یہ کہتے ہیں اشیا اور بھی مہنگی ہو جاتی ہیں دیکھیے‘ اس بار مشکل وقت ختم ہونے کی ’’شرح‘‘کیا ہو گی۔ بہرحال سفر جاری ہے۔