پوری قوم لٹ چکی‘ پھر اتنی بے خبری‘ بار بار پھر اسی چنگل میں پھر پھنس رہے ہیں افسوس ہوتا ہے کہ جب ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا رونا پیٹنا سننے کے لیے پھر ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے چونکہ قوم کو اسی شخص نے ہجوم بنا چھوڑا ہے۔ اس قوم پر اب واقعی ترس آ رہا ہے اب حالت ویسی ہی ہے کہ جس طرح ’’تیرا لٹیا شہر بھبمور نیِ سسی اے بے خبرے‘‘ نہ پینے کا صاف پانی‘ نہ بجلی‘ نہ گیس‘ نہ روزگار نہ صحت کی سہولتیں پھر بھی یہ کہا جائے کہ ’’اک واری فیر شیر‘‘ تو پھر سنتے رہو’’راز کی باتیں‘‘ رازوں سے پردے اٹھا رہے ہیں۔چلئے اب رازوں سے پردے اٹھانے کی ابتدا تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نے کر ہی دی ہے تو پھر اس راز کو بھی افشا کر دیں کہ بیرون ملک اربوں ڈالرز کی جائیدادیں کس طرح بن گئیں؟ پارک لین کے فلیٹ کس سرمائے سے خریدے گئے؟ اب یہ راز بھی ’’اک واری فیر شیر‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کو بتا دیں کہ برخوردار حسن اور حسین کھرب پتی کیسے بن گئے؟ عمران خان سے کم از کم اتنی تو امید ہے کہ وہ نہ تو لوٹ مار کریگا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ پوری قوم جانتی ہے کہ لاہو میں شوکت خانم ہسپتال اس امر کی منہ بولتی مثال ہے کہ یہ منصوبہ باوجود بعض مشکلات کے عمران خان نے پورا کر دکھایا اور ہسپتال میں واقعی عوام کو تھوڑا نہیں بھر پور ریلیف ملا ہے برطانیہ میں کبھی کسی کو ایسے ہی کسی یونیورسٹی کا چانسلر نہیں بنا دیا جاتا۔ چانسلر بنانے کے لیے خوبیاں‘ قابلیت اور وزنی کریکٹر بھی دیکھا جاتا ہے سو عمران خان کو بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی طرف سے چانسلر شپ کی پیش کش ہوئی یہ الگ بات ہے کہ عمران خان نے یہ آفر اپنی مصروفیات کی وجہ سے قبول نہ کی لیکن بعد میں انہوں نے بریڈفورڈ یونیورسٹی کے لیے کام ضرور کیا اس یونیورسٹی کے اساتذہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس یونیورسٹی کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ لیکن اس وقت پاکستانی سیاست میں عمران خان وہ واحد شخصیت ہیں جو پاکستان کی قومی سیاست میں کسی کرپشن کے داغ سے پاک ہیں ابھی تک کرپشن کے خلاف جو کچھ بھی ہوا ہے اس کا تمام تر کریڈٹ عمران خان ہی کو دیا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ان کی پارٹی میں بھی ادھر ادھر سے جو لوگ آئے چلے جا رہے ہیں ان کا ماضی بھی کوئی صاف شفاف نہیں ہے اب انتخابی ٹکٹوں کے حوالے سے عمران خان کا کڑا امتحان ہو گا قومی انتخاب کے موقع پر وہ کن کن لوگوں کو اس عمل کا حصہ بناتے ہیں یہ عمران خان کی آزمائش ہو گی قوم جو کہ اس وقت ہجوم بنی ہوئی ہے اس کی اکثریت عمران خان سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے جن میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے اسی طرح کی صورت حال سمندر پار بسنے والے تارکین وطن کی بھی ہے یہ لوگ بھی عمران خان کو اپنا مستقبل کا لیڈر مانتے ہیں۔ حالت اب یہ ہو چکی ہے کہ 30سال تک حکمرانی کرنے والے اب فرار کا راستہ تلاش کر رہے ہیں جیسا کہ اب خبریں آ رہی ہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اب ایک عرب ملک میں پناہ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں جیسا کہ حسن اور حسین دونوں ہی برطانوی شہری ہیں ان کی یہ کوشش ہے کہ ان کی ہمشیرہ اور والد دونوں کسی طرح عرب ملک کی شہریت حاصل کر لیں لیکن اس کا امکان بہت کم ہے کویت کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور قطر کے علاوہ بحرین کے امیگریشن قوانین خاصے سخت ہیں افواج پاکستان اور عدلیہ کو بلیک میل کرنے کی تمام کوششیںدم توڑ چکی ہیں اور ہائوس آف شریف ایک بار پھر سعودی عرب کی مدد سے جس این آر او کی امید لگائے بیٹھا تھا وہ بھی سلسلہ اب ختم ہو چکا ہے۔ شریف خاندان کسی طور پر اپنی دولت سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا اور نہ ہی اس دولت کا حساب دینا چاہتا ہے لیکن اب یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ شریف خاندان کے راستے میں جگہ جگہ بارودی سرنگیں ہیں اب ان سے صاف بچ نکلنا مشکل ہو چکا ہے پھر بار بار یہ کہنا کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کوئی میاں نواز شریف سے پوچھے کہ حضور آپ نے 30سالہ دور اقتدار میں کیا ووٹرز کو عزت دی؟ کیا آپ نے قومی اسمبلی اور سینٹ آف پاکستان کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کی؟ کیا آپ نے اپنی کابینہ کے اجلاسوں کو اہمیت دی؟ بیرون ملک سرکاری سطح کے دورے ضرور کیے جس کا قومی خزانہ نے بوجھ برداشت کیا ہر بار لندن میں قیام ہوا اور اپنے صاحبزادوں کے ساتھ لندن کے انتہائی مہنگے شاپنگ سنٹرز میں خریداری ہوئی حکومت پاکستان کا سرکاری جہاز کبھی لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ اور کبھی لوٹن کے ایئر پورٹ پر ٹیکسی ہوتا رہا ہے رن وے پر جس کا یومیہ کرایہ کئی ہزار پائونڈ بنتا ہے اسی طرح برطانیہ کے دورے کے دوران ہائوس آف شریف کے تمام افراد اور ان کا ذاتی عملہ ایئر پورٹ پر وی آئی پی لائونج کی سہولتوں سے فیض یاب ہوتا رہا جس کا ہزاروں پائونڈ کا خرچہ لندن میں پاکستانی ہائی کمشن کو برداشت کرنا پڑا۔ کرپشن کے مقدمات میں بری طرح بے نقاب ہوئے شریف خاندان کو اب نہ تو برطانیہ‘ نہ امریکہ اور نہ یہ کوئی عرب ملک بچانے آئے گا بہت سینئر سفارت کار جو کہ عالمی سیاست پر عبور رکھتے ہیں لندن میں مختلف تھنک ٹینک میں لیکچرز کی غرض سے آتے ہیں بہت سارے سفارت کاروں کا خیال ہے کہ اب پاکستان کو خطے میں بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر پاکستان میں کسی ایسے سیاستدان کو مملکت کا سربراہ بنانا چاہیے جو کہ واقعی با صلاحیت لیڈر ہو ایک سفارت کار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مملکت پاکستان کا تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والا شخص اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے قومی اداروں کو بدنام کرے اور قومی رازوں کی حفاظت ہی نہ کر سکے اس پر قوم اگر پھر اعتماد کرے تو پھر اس پر افسوس ہی کیا جائے گا۔ پاکستان کی سیاست میں میاں نواز شریف جن کی عمر 68سال کے لگ بھگ ہے میاں شہباز کی عمر 66سال ہے۔ آصف علی زرداری تقریباً62سال کے ہو چکے ہیں اسی طرح دیگر سیاستدانوں میں جو کہ کسی نہ کسی حوالے سے عملی طور پر حکومتوں کا حصہ رہے ہیں ان میں چودھری شجاعت حسین 71سال کے ہیں اور اسفند یار ولی 69سال کے لگ بھگ ہیں مولانا فضل الرحمن 64سال کے ہیں یہ چونکہ اپنی عمروں کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں کہ ایک عام آدمی اس عمر میں سرکاری عہدوں سے سبکدوش ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی برابر سیاست میں یہ لوگ اپنے آپ کو اِن رکھنا چاہتے ہیں ۔ برطانیہ کی ایک PRفرم کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد پاکستان میں عمران خان کو بھر پور مقبولیت حاصل ہے جس کی بڑی وجہ ایک چیرٹی ورک اور دوسرا خاص طور پر پاکستان میں تعلیم کے بارے میں ان کی گہری دلچسپی اور پھر پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی کرپشن کے خلاف ان کی چلائی گئی مہم ہیںPRفرم کے سروے کے مطابق گو کہ پاکستان میں بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ آئندہ قومی انتخابات میں پاکستان کی کوئی بھی قومی جماعت بھاری اکثریت حاصل کر کے خود حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اب حالات بتا رہے ہیں کہ آئندہ ملک میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوتے ہیں تو پھر پاکستان میں جو بھی مخلوط حکومت بنتی ہے اس میں پاکستان تحریک انصاف کو کلیدی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے اور اس طرح آئندہ حکومت کی قیادت عمران خان کے پاس جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ پاکستانی سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے اور کرپشن کے خلاف ہونے والا آپریشن کس قدر کامیاب ہوتا ہے اور اس کے اثرات کس طرح پاکستانی سیاست میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکیں گے احتساب کا عمل دیگر بدعنوان عناصر کے خلاف بھی جاری رہتا ہے تو پھر یقینا پاکستان میں صاف ستھری قیادت ابھر کر سامنے آئے گی۔ قوم کو اب اپنی بے خبری ختم کر کے چوکنا رہنا ہو گا اگر قوم پھر اسی ڈگر پر چلتی رہی کہ ’’اک واری فیر شیر‘‘ تو یہ ہی کہا جائے گا۔ تیرا لٹیا شہر بھمبور نیِ سسی اے بے خبرے