سابق گورنر پنجاب جو کہ شیر پنجاب کے نام سے جانے جاتے تھے ان کی سابقہ اہلیہ تہمینہ درانی جو کہ اب خادم اعلیٰ کی اہلیہ ہیں انہوں نے شیر پنجاب سے علیحدگی کے بعد 1990ء میں اپنی نجی زندگی کے بارے میں کتاب لکھی یہ کتاب My Feudal Lordکے نام سے تھی یہ کتاب خاص طور پر یورپ میں The Sensational Europian Bestsellerکی حیثیت سے جانی جاتی ہے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن 1994ء میں شائع ہوا خود اس کتاب میں تہمینہ درانی بتاتی ہیں کہ بعض تجزیہ نگاروں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ دراصل غلام مصطفی کھر کے مخالف میاں نواز نے پیسے دے کر یہ کتاب لکھوائی۔ اس کتاب کا آخری پیرا گراف بڑا دلچسپ ہے جس میں تہمینہ درانی لکھتی ہیں کہ جب میں نے یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا تو غلام مصطفی کھر نے مجھے کہا تم یہ کتاب کیوں لکھ رہی ہو۔ انہوں نے مجھے یہ کتاب نہ لکھنے کا کہا‘ میں نے ان کا دبائو کسی صورت میں بھی برداشت نہ کیا بلکہ میں نے غلام مصطفی کھر کو کہا کہ ’’مصطفی‘‘ اب بہت جلد دنیا تمہیں میرے نام سے جانے گی کہ تم میرے سابق شوہر تھے یہ ہی تمہاری اصل پہچان ہو گی۔ بہرحال اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے اس کتاب کا تذکرہ اس وجہ سے کر دیا ہے آج کل پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ریحام خان کی کتاب بارے مسلسل خبریں اور ٹاک شوز میں اس کا تذکرہ کر رہا ہے۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ پاکستان آئندہ چند ہفتوں میں قومی انتخابات کے عمل سے گزرنے جا رہا ہے اور ہمارا میڈیا ملکی مسائل کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف ریحام خان کی کتاب ہی کو زیر بحث لا رہا ہے جبکہ عالم یہ ہے کہ یہ کتاب ابھی تک نہ تو شائع ہوئی ہے اور نہ ہی کسی نے یہ کتاب پڑھی ہے ۔اس کتاب کا مسودہ کسی طریقہ سے انٹرنیٹ پر فلوٹ کروایا گیا ہے یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہے کہ آئندہ آنے والے قومی انتخابات تک اس کتاب کو زیر بحث لایا جاتا رہے اور اس سے جو مقاصد حاصل کرنے ہیں وہ مقاصد حاصل کر لیے جائیں دلوں کے حال تو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہی جانتی ہے کہ آخر عمران خان نے ریحام خان سے شادی کیوں کی؟ جبکہ اس خاتون کے بارے میں متضاد خبریں برطانیہ میں گردش کرتی رہی ہیں برطانوی خفیہ اداروں کے ساتھ اس خاتون کا رابطہ اور پھر اب اس کتاب کی اشاعت کے حوالے سے ن لیگ کے رہنمائوں کا قبل از وقت یہ اعلان بار بار کرنا کہ یہ کتاب آ رہی ہے اور اس کتاب کی اشاعت کے بعد عمران خان کو لگ پتہ جائے گا‘ والی باتیں کرنا اس امر کی تصدیق کر رہا ہے کہ اس قصے میں کچھ نہ کچھ تو ہے جس کی ’’پردہ داری‘‘ ہے اگر یہ کہا جائے کہ ریحام خان نے یہ سب کچھ شہرت اور دولت کی خاطر کیا ہے تو پھر یہ بھی نہ غلط ہو گا۔ بہرحال عمران خان سے علیحدگی کے بعد ریحام خان کا کافی عرصے بعد اور وہ عین قومی انتخابات کے موقع پر کتاب شائع کروانے کا تمام تر معاملہ اور میڈیا پر جن میں بھارتی میڈیا بھی برابر کا شریک ہو چکا ہے جو کہ ریحام خان کے انٹرویوز نشر کر رہا ہے یہ تمام سلسلہ افسوسناک ہے کیا پاکستان کا معاشرہ اس طرح کی سرگرمیوں کی اجازت دیتا ہے اس کتاب کے حوالے سے جو مسودہ کی حد تک میڈیا پر باتیں ہو رہی ہیں یہ سب کچھ پورے پاکستان میں ماحول کو خراب کرنے کی کوشش ہے جس سے خاص طور پر نوجوانوں کو اور پھر خواتین کو پاکستانی سیاست میں اپنا عملی کردار ادا نہ کرنے کی جانب ترغیب دلانا بھی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ریحام خان کا ماضی کیا تھا؟یہ خاتون اپنی نجی زندگی کے حوالے سے کوئی خوشگوار زندگی بسر نہ کر رہی تھی اپنے سابقہ شوہر سے علیحدگی کے بعد لندن ہی میں علیحدگی کی زندگی میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔BBCمیں چند منٹوں کے لیے موسم کا حال پڑھا کرتی تھیں بطور جرنلسٹ اس خاتون کا کوئی ہائی پروفائل ماضی بھی نہ تھا۔ اب نجانے عمران خان کو کیا خاص بات اور کون سی خوبی اس خاتون میں نظر آئی کہ اس خاتون کو دل دے بیٹھے۔ بہرحال ہر کسی کی اپنی نجی زندگی ہے اس پر کسی کو بھی نہ تو کوئی تبصرہ کرنا چاہیے اور نہ ہی اس بارے سنسنی خیز خبریں ہی شائع کرنی چاہیں۔ طلاق‘ علیحدگی اور پھر انسانی زندگی میں نجی زندگی کے دوران خوشگوار زندگی کا نہ ہونا بھی بہت بڑا سانحہ ہوا کرتا ہے جو لوگ اس سانحہ سے دوچار ہوتے ہیں وہ اس تلخ حقیقت سے گزر کر بڑی مشکل سے سنبھل پاتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے قلم قبیلے کے نامور بزرگ نے شیکسپئر کے حوالے سے کہا ہے کہ’’مسترد کی ہوئی خاتون کا جذبہ انتقام۔ بدلہ لینے اور حریف کو برباد کرنے کی خواہش۔ یہ سب کچھ اب ریحام خان کی زندگی میں نظر آ رہا ہے شہرت جو ملی تھی وہ صرف اور صرف عمران خان سے شادی کر کے ملی۔ عمران خان کی وجہ ہی سے ریحام خان نوجوان خواتین کی توجہ کا مرکز بنیں اور نوجوانوں میں ان کی عزت بڑھی اب نہ تو وہ شہرت رہی ہے اور نہ ہی وہ عزت ہے۔ اگر ہے تو محض دولت ہی ہو سکتی ہے جو کہ نجانے کس ذرائع سے حاصل ہو رہی ہے یا ہو گئی یہ بھی پراسرار حقیقت ہے جو کہ کبھی نہ کبھی ضرور بے نقاب ہو گی۔عمران خان ایک قومی جماعت کے سربراہ ہیں پاکستان تحریک انصاف کو بہرحال ایک منفرد حیثیت حاصل ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ریحام خان کی کتاب بارے جو پالیسی پی ٹی آئی نے اپنائی ہے وہ بھی خود اس کتاب کی شہرت کا باعث بنی ہے اس کتاب بارے اس وقت خاموشی اختیار کر لی جاتی کہ جب تک یہ کتاب اپنی اصل شکل میں چھپ کر منظر عام پر نہ آ جاتی۔ برطانیہ میںاس کتاب کی اشاعت کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی بعض پاکستان مخالف قوتیں جن میں بھارت کے بعض اشاعتی ادارے اس کتاب کو شائع کرنے میں پیش پیش ہونگے اور اس طرح پاکستان میں بھی عمران مخالف لابی اس کی اشاعت پر کھلا پیسہ لگانے کو تیار ہے جیسا کہ اس کتاب کے مسودے کے بارے میں بعض مندرجات منظر عام پر لائے جا رہے ہیں یہ مذہبی منافرت پھیلانے اور خواتین کو سیاست سے بدظن کرنے کی پوری کوشش کے ساتھ ساتھ عمران خان کی ذاتی زندگی پر بھی گند اچھالنا اور اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے بعض سرگرم نوجوان رہنمائوں کے سیاسی مستقبل کو داغ دار کرنے کی بھونڈی کوشش بھی ہے۔ عمران خان نے 1997ء میں اپنی زندگی کا پہلا الیکشن لڑا اور پھر اس سے قبل یعنی 5سال گزرے پاکستانی ٹیم نے پہلا کرکٹ کپ جیتا پوری دنیا میں پاکستان کو ایک نئی شناخت ملی۔ پاکستان میں شوکت خانم ہسپتال قائم ہوا جو کہ عالمی معیار کا ہے اس کی تعریف مغرب میں بھی کی جاتی ہے یہ سب کچھ عمران خان نے کر دکھایا۔ ملک میں کرپشن کو بے نقاب کرنا اس میں ملوث بڑی بڑی شخصیات کو انصاف کے کٹہرے تک لے جانا بھی‘ اس کا تمام تر کریڈٹ بھی عمران خان کو جاتا ہے۔ اب عمران خان کی کردار کشی کر کے جو کہ کسی بھی حوالے سے ہو یا کسی کے ذریعے ہی سے کروائی جائے یہ تمام تمام تر قومی انتخابات میں پی ٹی آئی کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش تو ہو سکتی ہے۔ مگر کرپشن کے خلاف جو تحریک عمران خان نے شروع کی تھی اس کے اثرات بہرحال اب صاف نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے میری لائبریری فائل میں برطانوی میگزینHelloکے شمارے جولائی 1995ء مارچ 1996ء اور اپریل 1996ء پڑے ہیں ان شماروں میں رنگین تصاویر کے ساتھ عمران خان کی جمائمہ خان کے ساتھ شادی اور پاکستان میں عمران خان کی چیرٹی ورک کے حوالے سے معلوماتی فیچر موجود ہیں۔Helloمیگزین کی خصوصیت ہے یہ دنیا کی انتہائی اہم اور مقبول ترین شخصیات ہی کو کوریج دیتا ہے اس سے پہلے اسی میگزین میں محترمہ بینظیر بھٹو کو بھر پور کوریج دی گئی تھی عمران خان اور محترمہ بینظیر بھٹو کو اس میگزین میں ٹائٹل سٹوری کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے ۔سرورق پر ان کی تصاویر شائع ہوتی رہی ہیں۔ یہ وہ شہرت ہے جو کہ دنیا کے اہم لوگ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عمران خان کو برابر کوریج دی جاتی رہی ہے اس شہرت اور عزت کی وجہ سے ریحام خان عمران خان کی زندگی میں آئی۔ جیسے بھی آئی یا لائی گئی۔ اور پھر اب ریحام خان کی کتاب کا ہنگامہ یہ سب کچھ بہت سارے سوالات کو بھی جنم دیتا ہے اور یہ اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے اب ریحام خان کی کتاب بارے پاکستانی میڈیا اپنی پالیسی بدلے اور اس ایشو کو دفن کر دے اور ملکی مسائل پر اپنا تمام تر وقت وقف کر دے۔ ماضی میں تہمینہ درانی نے کتاب لکھی کیا حاصل ہوا؟ اب ریحام خان نے کتاب لکھنے کی ٹھان رکھی ہے کچھ حاصل نہ ہو گا بس اتنا ہی ہو گا کہ اب ’’تیرا نام بھی آئے گا میرے نام کے ساتھ‘‘