کہا جاتا ہے کہ دنیا میں آموں، سانپوں، اونٹوں اور جاٹوں کی اتنی قسمیں ہیں کہ گنائی نہیں جا سکتیں، صرف دکھائی جا سکتی ہیں بلکہ دکھانا بھی کیا ہے، یہ اپنی کسی نہ کسی حرکت (جس کو یہ کارنامہ سمجھ رہے ہوتے ہیں) کی وجہ سے نظر آ جاتے ہیں۔ جاٹوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ پرانے زمانے کے بادشاہوں کی طرح ان کے بارے میں اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ اگلے لمحے کیا کر گزریں گے؟ کسی بھی جٹ کی دوسری نشانی یہ ہے کہ یہ کسی زمین، پلاٹ، پلازے کا مالک ہو نہ ہو، مرضی کا مالک ضرور ہوتا ہے۔ پنجابی میں جتنے وسیع معنی لفظ وَٹ کے ہوتے ہیں، اس سے زیادہ تیور جٹ کے ہوتے ہیں۔ یہ حضرات فوج میں خوش رہتے ہیں یا موج میں۔ پنجاب میںاگر کوئی شخص شادی، فوتگی یا میلے ٹھیلے پہ لڑائی نہ کرے تو جان لیں کہ وہ شیخ، رانا، ارائیں، انسان، کچھ بھی ہو سکتا ہے، جٹ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح تربوز، مقدر اور بیوی کسی کسی کی اچھی نکلتی ہے، بالکل اسی طرح جٹ بھی اتفاق سے کہیں کہیں کا ہی مناسب نکلتا ہے۔ یہ ملک سے باہر بڑے شوق سے جاتے ہیں لیکن جلد ہی شکوہ کرنے لگتے ہیں کہ وہاں ان کو کسی طرف کوئی ٹرمپ وِرک، ڈیوڈ ڈھلوں، فرائیڈ چیمہ، ولیم چٹھہ، ڈکسن مان، ایلن سرا، رابرٹ بسرا ، پیٹر کاہلوں، چارلس تارڑ، مارک تتلہ، ہنری وریاہ، بوتھم باجوہ دکھائی نہیں دیا، ہر طرف کمی کمین بھرے پڑے ہیں۔ اس کے بعد عطاء الحق قاسمی کی زبان میں یہ کہتے ہوئے واپس آ جاتے ہیں کہ: ولیم ، پیٹر ، ڈکسن، ڈیوڈ ، ہیری سے کیا لینا ہم کو اپنے ماجھے گامے اچھے لگتے ہیں عطاء الحق قاسمی سے یاد آیا کہ چند سال قبل جب الحمرا، لاہور میں ایک کانفرنس کا ڈول ڈالا گیا تھا۔ (میرے نزدیک یہ قاسمی صاحب کی سرکاری ذمہ داریوں کا بہترین دور تھا) کانفرنس کے طنز و مزاح کے سیشن کا کنوینر ہونے کے ناطے مشاورت کے سلسلے میں، ایک دن مَیں جلدی جلدی قاسمی صاحب کے دفتر پہنچا تو وہاں پرویز رشید صاحب اور غریدہ فاروقی (کہ جسے شہباز شریف والے سیشن کی میزبانی کرنا تھی) اپنے حیران کن لباس اور خوشگوار موڈ کے ساتھ موجود تھے۔ یہ انھی دنوں کی بات ہے جب اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ نئے آرمی چیف کی خبر سننے کو بے تاب تھے۔ محترمہ مخصوص ناز وادا کے ساتھ موصوف سے نئے چیف کا نام اگلوانے کی کوشش میں تھیں۔ پرویز رشید فرما رہے تھے کہ نام تو ابھی نہیں بتاؤں گا لیکن اس بار جو بندہ ہم نے چُنا ہے، وہ ہماری توقعات کے عین مطابق کام کرے گا… دو دن بعد پتہ چل گیا کہ وہ اللہ کا بندہ جنرل قمر جاوید باجوہ تھا۔ لیکن دوستو! اس وقت مجھے قمر جاوید باجوہ پہ نہیں، ادب کی کثیرالجہات شخصیت اکرم باجوہ پہ بات کرنی ہے، جو بورے والا جیسے دُورے والا شہر میں اُردو اور پنجابی ادب کا مورچہ سنبھالے بیٹھے ہیں۔ مورچہ کا لفظ مَیں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ ہمارے اس باجوے کا تعلق بھی فوج سے رہا ہے لیکن خوش قسمتی سے انھیں کوئی پرویز رشید جیسا پارکھ میسر نہیں آ سکا۔ ویسے بھی یہ گن سے زیادہ گُن اور میدان سے زیادہ میلان کے آدمی ہیں۔ سیاسی تعظیم سے بچ بچا کے تعلیم کے کوچے میں جا نکلے اور تمام عمر پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کا دھندا کرتے رہے۔ درس و تدریس کا شوق ایسا چرایا کہ بچوں کو پڑھایا، بڑوں کو پڑھایا، عام انسانوں کے ساتھ ساتھ فوجیوں کو پڑھایا،ڈیپوٹیشن پہ سعودیہ جا کے دو سال عربوں کو پڑھایا، حج کرنے گئے تو خدشہ تھا کہ روا روی میں کہیں شیطان کو نہ پڑھانے بیٹھ جائیں، احتیاطاً ان کی بیگم کو ساتھ بھیجنا پڑا۔ اس عارضی دنیا کے تین شہر باجوہ قوم کا گڑھ بتائے جاتے ہیں: امرتسر، نارووال اور شکر گڑھ ۔ ہمارے ایک دوست کے بقول تو یہ قوم کہیں کہیں آسٹریلیا میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہ وہاں کے معروف کرکٹرز سٹیو وا، مارک وا کو بھی باج وا، ہی کی کوئی بگڑی یا بدلی ہوئی شکل قرار دیتے ہیں۔ متذکرہ بالا تین شہروں میں تو سنا ہے یہ آلو، گوبھی، پیاز اور باجرے سے بھی زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں باجوے اور باجرے کی راکھی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ طُرفہ تماشا یہ کہ خاندانی عمومیت کے ساتھ گھر والوں نے نام بھی عام فہم یعنی ’محمد اکرم‘ رکھ دیا۔ اکرم نام تو ہمارے ہاں اتنا عام ہے کہ حکیم جی کے بقول آپ کسی بھی شہر کے کسی گلی محلے کی کسی نکڑ پہ صرف ایک بار’ اکرم‘ کا آوازہ بلند کریں تو پلک جھپکتے میں اٹھارہ اکرم اکٹھے ہو جائیں گے۔ کسی مردانہ کالج میں جا کے سرسری سا بھی دریافت کر لیں کہ اکرم سے ملنا ہے، تو وہ آپ کا یہ پوچھ پوچھ کے ناطقہ بند کر دیں گے کہ کون سا ا کرم؟ اُردو والا اکرم یا کیمسٹری والا اکرم؟ جٹاں دا اکرم یا بٹاں دا اکرم؟ مونچھوں والا اکرم یا داڑھی والا اکرم؟ کالا اکرم یا گورا اکرم؟ ہمارے اکرم باجوہ نے اسی اکرمیت یا عمومیت سے بچنے کے لیے پہلا کام تو یہ کیا کہ ان تینوں شہروں سے کسی طرح کا تعلق ہی نہیں رکھا۔ ان کے بزرگ اپنا تعلق باجواؤں کی ایک جنگجو شاخ ’نارو‘ سے بتاتے تھے، انھوں نے اس ’نارو‘ کو بھی ہمیشہ ’’نا رہو‘‘ ہی پڑھا، چنانچہ امرتسر سے اُٹھے اور نارووال، شکر گڑھ کو روندتے، پھلانگتے لائلپور جا پہنچے، پھر برادری کے کسی قسم کے تعاقب کے خدشے کے پیشِ نظر وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے اور بورے والا جا قیام کیا۔ دوسری احتیاط یہ برتی کہ اپنا قبیلائی دَف مارنے کے لیے قلم، کتاب، نصاب سے دل لگا لیا۔ دونوں طرف کے پنجاب سے نسبت ہونے کی بنا پر پنجابی شاعری سے رَج کے پیار کیا اور دس کتابوں کے مرتکب ہوئے، ایک محبِ وطن شہری ہونے کے ناطے قو می زبان کو پانچ شعری مجموعے دئیے۔ جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے ، فوج سے عملی لگاؤ خوبصورت مِلّی شاعری اور جوش و جذبے سے بھرپور عسکری ترانوں کا باعث بنا اور دین سے قلبی رغبت دل رُبا حمدوں اور دل گداز نعتوں میں ڈھلتی چلی گئی۔ نعت اُردو ادب کی ایسی دل پذیر شاخ ہے کہ جو قلم کی بجائے قلب پہ اُترتی ہے، روایتی سیاہی کی بجائے روحانی روشنائی سے لکھی جاتی ہے۔ یہ آدمی کے لیے نہیں وجہِ تخلیقِ آدمیت کے لیے تحریر ہوتی ہے۔ یہ وقت گزارنے کے لیے نہیں وقت سنوارنے کے لیے تخلیق کا حصہ بنتی ہے۔ یہاں کمال، جمال کے ہم رکاب ہو جاتا ہے۔ ہمارے یہ محمد اکرم باجوہ عمر بھر ’اکرم باجوہ‘ کے نام سے شاعری کرتے رہے، ’محمد ؐ ‘ کا لفظ انھوں نے محمد ﷺ سے محبت کے لیے وقف کر رکھا تھا، جو نعت کے پیکر میں ان کی پہچان بنتا چلا گیا۔ دنیا کے کئی ایوارڈ اسی نسبت سے حاصل کر چکے ہیں اور آخرت کے کئی تمغے ان کے انتظار میں عرشِ بریں پہ رکھے ہیں۔ ان کی حمد و نعت سے تبرک کے طور پر دو اشعار: تیرا وِرد وظیفہ ہر اک نوکِ زباں پر ہے تیری بات کی بات ہی کیا ، ہر بات میں بولے ہے …… ہماری ساری ہی الجھنوں کا ہے حل حیاتِ محمدیؐ میں اسی سے سارے سوال چمکے، اسی سے سارے جواب مہکے