مورخ اگر سچ لکھے، تو ضرور لکھے گا کہ اس دور کی سب سے بڑی ناانصافیاں، انصاف کے پردے میں ہوئیں! پہاڑ جیسے ظلم، مظلوموں پر مدد کے دھوکے میں توڑے گئے! ہستی اور نیستی میں، بقول ِمیر، ایک دو دَم کا فرق ہے۔ تْف ہے ان پر جو اس میں بھی دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور آفرین ہے اْن کو، جو اسے اَوروں پر قربان کر دیتے ہیں! درست کہا صوفی شاعر نے کہ ع دل بدست آور کہ حج ِاکبر است نیوزی لینڈ کی وزیر ِاعظم نے دِل جیت لیے ہیں۔ ہمت اور جرأت کا یہ مظاہرہ، بڑی "مردانگی" کا طالب تھا۔ جہاں بڑے بڑے "لیڈروں" کا پِتہ پانی ہو گیا، وہاں تول میں، جیسنڈا آرڈرن پورا اتریں۔ تْرکوں کی تعریف میں کیا کہا جائے؟ فسلطینیوں کی حمایت سے، اب اکثر عرب ملک بھی "تائب" ہو چکے ہیں۔ لیکن اسرائیل اور فلسطین، دونوں میں، تْرکوں کی کارگْزاریاں، مَیں خود دیکھ چکا ہوں۔ زائرین میں سب سے بڑھ کر یہی قوم ہوتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں، تْرک یہاں وارد ہوتے ہیں اور فلسطینیوں کے آنسو پونچھ کر ان کا درد ِدل کچھ تو بٹا ہی آتے ہیں۔ اللہ! اللہ! ع کہاں کہاں تیرے عاشق تجھے پکار آئے ان کا یہ جذبہ، انہیں دوبارہ زندہ کر رہا ہے۔ آتش ِشوق کی دِل میں، کبھی ایک چنگاری بھی کافی ہوا کرتی ہے۔ یہاں تو ثابت ہو چکا ہے کہ ع آگ بجھی ہوئی نہ جان، آگ دبی ہوئی سمجھ! اور شاعر کی یہ الہامی پیش گوئی تو موجود ہے ہی عجب کیا ہے یہ بیڑہ غرق ہو کر پھر ابھر آئے کہ ہم نے انقلاب ِچرخ گردوں یوں بھی دیکھے ہیں خدا کا شکر ہے کہ مسلمانوں کا نوحہ، اب عیسائی برادری کی بھی زبان پر ہے۔ ہمارا بھی فرض ہے کہ مظلوم عیسائیوں کے لیے، آواز اٹھائیں۔ جنوبی امریکہ کے مْلک وینزویلا کا نام آپ نے سْن رکھا ہو گا۔ یہ ملک تیل کی دولت سے کتنا مالا مال ہے، اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ دنیا بھر میں تیل کے ذخیرے، سب سے زیادہ اسی میں ہیں۔ ایران اور عراق، دونوں کے ذخائر، مِل کر وینزویلا کے برابر پہنچتے ہیں۔ اسی ملک میں کچھ عرصے پہلے، ایک مرد ایسا ہو گزرا ہے، جسے عرب شاعر، ہزار شہسواروں کے برابر قرار دیتے! ہْوگو چاویز! یہاں کا غریب طبقہ، ناانصافی اور غربت کے پاٹوں کے بیچ، بے طرح پِس رہا تھا۔ ہْوگو چاویز نے کمال محنت اور نیک نیتی سے، اس قوم کے دن پھیر کر رکھ دیے۔ امریکہ اور اسرائیل نے بہت کوشش کی کہ جنوبی امریکہ کے دوسرے لیڈروں کی طرح، چاویز کو بھی ڈھرے پر لے آئیں، لیکن وہاں تو دِل میں ایک ہی دْھن سمائی ہوئی تھی، اپنے عوام کی فلاح! سو چاویز کا ٹکرائو، بیرونی ممالک اور ان کے زرخریدوں سے ہو کر رہا۔ جب تک وہ زندہ رہا، دشمنوں کی چھاتیوں پر دْہرے مونگ دَلتا رہا۔ ایک وینزویلا کے غریبوں کی فلاح و ترقی، اور دوسرا ان طاقتوں کو براہ ِراست للکارنا۔ اس کی بہادری کا اندازہ یوں لگائیے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ، فلسطنیوں کی نہ صرف حمایت کرتا، اسرائیل کے خوب لتے لیتا۔ اقوام ِمتحدہ میں اس کی تقریریں، کسے بھْولیں گی؟ اچانک اس کا بیمار ہو جانا اور پھر انتقال، اس پر لوگوں نے بڑی چہ میگوئیاں کیں۔ بعضوں کے نزدیک، یہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کی کارروائی تھی۔ واللہ اعلم۔ اپنی وفات سے پہلے، اس نے جانشین مقرر کر دیا تھا۔ نکولس مَڈْورَو۔ یہ اب وینیزویلا کے صدر ہیں۔ ان کے خلاف ان دنوں بڑے ہنگامے ہو رہے ہیں۔ حَد یہ ہے کہ ہوان گْوائیڈو نامی شخص نے، خود کو اصل صدر قرار دے رکھا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ مَڈْورَو سے چاویز کی سی بات نہیں بَن پائی۔ وہ خوبیاں بھی ان میں کم ہیں، جن کی بدولت، سارا مْلک چاویز کا دیوانہ تھا۔ لیکن دوسری طرف، خود ساختہ صدر صاحب پر میڈ ان امریکا کی مْہر لگی ہوئی، صاف نظر آ رہی ہے! چند روز قبل، پہلے ٹرمپ اور پھر ان کے وزیر ِخارجہ مائیک پومپیو نے اپنے عزائم ظاہر کر دیے تھے۔ پھر ایک روز وینیزویلا سے بجلی اچانک غائب ہو گئی۔ اس پر صدر مَڈْورَو نے اپنے خطاب میں بغیر کسی لاگ لپٹ کے، امریکا کو ذمہ دار قرار دے دیا۔ دراصل یہ سارا کھیل، تیل کا ہے۔ ہوان گْوائیڈو اس میں ایک مْہرے، ایک پیادے سے زیادہ نہیں ہیں۔ ان پیادوں کا انجام کیا ہوتا ہے، مشرق ِوسطیٰ کے سوا، جنوبی امریکہ کی تاریخ بھی اس سے بھری پڑی ہے۔ گْوائیڈو کا ساتھ، امریکہ کے سوا وہ مقامی طبقہ بھی دے رہا ہے، جسے محترم عبدالقادر حسن صاحب نے بدمعاشیہ قرار دیا تھا! وینیزویلن عوام کی حالت روز بروز خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ خْدا ہی ہے جو ان کی مدد کو آئے۔ ع ہے اکبر ِبے کس ایک طرف، اور ساری خْدای ایک طرف! ٭٭٭٭٭ ظفر علی خاں کا مقدمہ نام ِنیک ِرفتگان، ضائع مکْن تا بماند، نام ِنیکَت، برقرار اپنے محسنوں اور بزرگوں کو، ہم یاد نہیں کرتے تو اپنا ہی نقصان کرتے ہیں! قائد ِاعظم اور علامہ اقبال کے سوا، علی برادران، حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خاں بھی، اس پائے کے بزرگ ہیں کہ ان کی یادگاریں برقرار رہنی چاہیے تھیں۔ چند سال پہلے، مولانا ظفر علی خاں کے پڑپوتے راجا اسد علی خاں نے، ایک ٹرسٹ ان کے نام پر قائم کیا تھا۔ اس ٹرسٹ کے تحت، مولانا کی تقریبا نایاب تحریروں اور ان کے اخبارات کو محفوظ اور شائع کرنے کا سلسلہ بڑی تیزی سے شروع کر دیا گیا۔ درجن بھر کتابیں یہ ٹرسٹ چھاپ چکا ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ ع عالَم میں ٹْکڑے ٹْکڑے، میری داستاں کے ہیں سو اس بکھری ہوئی داستان کے جوڑنے اور پیش کرنے میں، انہیں پروفیسر احمد سعید جیسے نامور محقق کا ساتھ حاصل ہو گیا۔ پروفیسر صاحب نے بڑی محنت اور عقیدت سے مولانا کی وہ تحریریں بھی جمع کیں، جو صرف زمیندار وغیرہ میں چھَپی تھیں۔ ایک جِلد شائع کرنے کے بعد، دوسری بھی تیار تھی۔ لیکن پنجاب کی سابقہ حکومت کی غلط بخشیاں دیکھیے۔ ٹرسٹ سے راجا اسد علی خاں اور پروفیسر صاحب، دونوں کو بے دخل کر کے ایسے لوگوں کو داخل کر دیا گیا، جن کی وجہ سے ٹرسٹ میں اب چمگادڑیں رونق افروز ہیں اور اْلو بول رہے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون! جب ان کا دور تھا تو مولانا، اَوروں کا مقدمہ لڑا کرتے تھے۔ ان معرکوں میں ایک طرف وہ ہوتے اور اکیلے۔ دوسری طرف مخالفین کی پوری فوج ہوتی اور مسلح! مولانا ہنس ہنس کر ان کے وار خالی دیتے اور کہتے جاتے۔ زمیندار ایک، آپ اتنے، مگر اوج ِصحافت پر یہ اک تْکل لڑے گا آپ کی ساری پتنگوں سے پتنگیں، ایک ایک کر کے، کَٹتی گئیں اور مولانا باقی رہے! وہ حیات ہوتے تو یہ سوال پیدا ہی نہ ہوتا۔ لیکن ، اب ہے کوئی جو ظفر علی خاں کا مقدمہ لڑے؟