’’متنازعہ شہریت بل‘‘پر احتجاج کی پاداش ،بھارت کے مسلمان اوربالخصوص ان کے سرکردہ تعلیمی اداروں اور دانشگاہوں پر بھارتی فورسز کی تشدّد آمیز کارروائیوں نے، پوری انسانی برادری --- بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کو لرزا دیا ہے ۔دہلی اور علی گڑھ کی تاریخی یونیورسٹیوں کے طلبہ پر پولیس کے بدترین تشدّد نے مودی کی بربریّت کو دنیا بھر میں عیاں کر دیا ہے۔جنگ، صلح اور بین الاقوامی تعلقات سے آگاہی رکھنے والے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہسپتال اور تعلیمی اداروں کا تقدس تو ہولناک جنگوں میں بھی مجروح نہ کیا گیا، دوسری جنگ عظیم میں جرمن کے جہاز ، لندن پر اپنی بمباری کے دوران بھی ، وہاں کے تعلیمی اداروں کا خیال رکھتے، یہی وجہ تھی کہ چرچل نے اپنا ہیڈ کوارٹر ہی کیمرج میں شفٹ کر لیا تھا۔ یعنی دشمن فوج بھی مخالفین کے ان اداروں کا احترام کرتی ہے، کجا بھارت کی اپنی پولیس نے--- اپنے ہی دیس کی صفِ اول کی یونیورسٹی میں گھُس کر، انسانیت سوز تشدّد اور بہیمانہ مظالم کی وہ داستان رقم کی ہے، جس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ صرف یونیورسٹی کیمپس ہی نہیں بلکہ لائبریری میںبھی آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے، ریڈنگ روم میں پناہ گزیں طالبات کو ہراساں کیا گیا، ان قیامت خیز مناظر میں طالبات کی چیخیں فضاؤں کو چیرتی ہوئی یقینا آسمان کی طرف اُٹھیں، مسجد کا تقدس پائمال اور اس میں کُشت و خون کا بازار گرم ہوا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان جیرمی لارنس نے بھی اس متنازعہ بل کو مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی قرار دیتے ہوئے ،انہیں عدم تحفظ میں مبتلا کرنے کا منصوبہ قرار دیا ہے ۔ دہلی کے جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے طلبہ کا انتہائی کسمپرسی اور بے چارگی کے عالم میں ،اپنا سامان اُٹھائے ،یونیورسٹی کو چھوڑ کر جانے کے منظرسے ، ہر ذی فہم اداس اور پریشان ہے ، مجھے آج سے سو سال پہلے کا وہ لمحہ یاد آگیا جب 1920ء میں ہندوستان میں ’’تحریک عدم تعاون‘‘ کے سبب، ابتدائی طور پر ’’قومی تعلیم‘‘کے پیدا شدہ تقاضوں کا شدّت سے احساس کیاگیا ۔ہندوئوں کے زیر اثر اس نئی قومی تعلیمی پالیسی سے خود کو زیادہ دیر تک ہم آہنگ رکھنا، مسلمانوں کے لیے مشکل تھا ۔چنانچہ مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے اس قومی تعلیم کے مقابلے میں’’ مِلّی تعلیم‘‘ کی ضرورت اور طلب محسوس ہوئی ، علی گڑھ کی طرف نگاہوں کا اُٹھنا ایک فطری امر تھا،سرکاری امداد ترک کرکے ،علی گڑھ کو مِلّی بنیادوں پر از سرِ نو منظم کرنے کا تقاضا پُر جوش انداز میں آگے بڑھا ۔ علی گڑھ کے لیے اس نعرے کو اختیار کرنا ممکن نہ تھا ،چنانچہ 1920ء میں مولانا محمدعلی جوہر کی سرکردگی میں ،علی گڑھ یونیورسٹی کی کوکھ سے ،’’جامعہ ملّیہ اسلامیہ ‘‘ نے جنم لیا۔ابتدائی طور پر جامعہ ملّیہ اسلامیہ کا قیام علی گڑھ ہی میںہوا، جس کے سبب ہر دو اداروں میں قدرے کشمکش بھی رہی ،یہاں تک کہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے طلبہ سے علی گڑھ کے ہاسٹل خالی کروانے کے لیے ، کسی موقع پر پولیس کو بھی مداخلت کرنا پڑی ---مگر 1925ء میں اس جامعہ کے دہلی منتقل ہوجانے سے یہ تنائو مدہم پڑگیا اور پھر دونوں ادارے ، اپنے اپنے اہداف کی تکمیل میں سرگرم ہوگئے ۔جامعہ مِلّیہ کے پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس کے اوائل اور ابتدا ہی میں کہہ دیا تھا کہ اس جامعہ کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی آئندہ زندگی کا ایسا نقشہ تیارہو،، جس کا مرکزو محور ’’اسلام‘‘ ہو اور پھر اس نقشے کو سامنے رکھ کر ،ان کی تعلیم کا مکمل نصاب بنے ،پھر ان کے بچے جو مستقبل کے مالک ہیں، اس نقشے کے مطابق تعلیم حاصل کریں ۔علم محض معاش کے لیے اور علم محض علم کے لیے --- ان دونوں نظریات سے آگے بڑھتے ہوئے… علم ’’ زندگی کے لیے‘‘ سیکھنا اور سکھانا اس جامعہ کا بنیادی مقصد ہو ،جس کے وسیع دائرے میں منصب وحکومت ،صنعت وسیاست اور اقتصاد ومعیشت ---سب کچھ آجاتا ہے۔ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کا قیام دراصل اس تحریک حریّت کو آگے بڑھانے کا تسلسل تھا، جس کی طلب اور ضرورت اس وقت پورے خطے میںمحسوس کی جارہی تھی ۔ اس دور کے حالات اس امر کے متقاضی تھے کہ روایتی یونیورسٹی کے مقابلے میں ایسے ادارے قائم ہوں ،جوایک طرف عصری علوم کا منبع ، تو دوسری طرف ان کے طلبہ کے قلب وذہن اورفکرو نظر کو خالص اسلامی روح سے آراستہ کرنے کا داعیہ رکھتے ہوں ، علی گڑھ کا مقصد بھی یہی تھا، مگر سرکاری اثرات ، اوران کے سائے اُس پر بڑھتے گئے ،چنانچہ اس ضرورت کے پیش نظر، یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ ایک ایسی آزاد یونیورسٹی قائم ہو، جو گورنمنٹ کی اعانت اور سرکاری اثر سے بالکل آزاد ، اور اس کا تمام تر نظامِ عمل اسلامی خصائل اورقومی محسوسات پر مبنی ہو ۔ ’’ادارہ سازی ‘‘ بہر حال ایک مشکل کام ہے ،بالخصوص ابتلاء اور غلامی کے اُس دور میں۔۔۔ تو یہ مشکل اور بھی زیادہ تھی، لیکن بے لوث کارکنان کی جانثاری اور قربانیوں نے اس ننھے پودے کو شجرِ سایہ دار بنا دیا اور پھر یہ ادارہ ایک عظیم یونیورسٹی کے طور پر معروف ہوگیا ۔ اس وقت ہندوستان کی مرکزی یونیورسٹیوں میں اس کاشمار نمایاں انداز میں ہوتا ہے ،مہاتما گاندھی نے اس ادارے کے لیے کہا تھاکہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ ،جوکہ ایک مسلم، قومی درسگاہ ہے ،سیاسی اختلافات کی فضا میں ،اسے اپنے تہذیبی کردار کو باقی رکھتے ہوئے ، اپنی راہ پرچلنے کی آزادی ہونی چاہیے ،جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ’’اسلامیہ ‘‘ کے لفظ کو حذف کرنے کی تجویز پر انہوں نے کہا تھا کہ اگر اس لفظ کو نکال دیا گیا تو مسلمانوں کو اس ادارے سے کوئی دلچسپی نہ ہوگی ۔ بھارتی حکومت کی حالیہ پُر تشدّد کارروائیوں میں مسلم تشخص کے حامل تعلیمی ادارے ، جن میں بطور خاص جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی کیساتھ ساتھ ندوۃ العلماء اور علی گڑھ سمیت دیگر مسلم یونیورسٹیاں بھی بطور خاص نشانے پر ہیں اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میںہورہاہے ،جب سلطان المشائخ حضر ت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کے ---عرس کی تقریبات دہلی میں جاری تھی اور ان تقریبات میں شرکت کے لیے جانے والے 51رکنی پاکستانی زائرین کے وفد کو بھی نقل وحمل اور آمد ورفت میں محتاط رہنے کی ہدایت کردی گئی تھی ،جبکہ تاریخی طور پر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس وقت "تختِ دہلی"پر علائو الدین خلجی جیسے حکمران اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ براجمان تھے تو حضرت سلطان المشائخ کی خانقاہ سے کئی لاغر اور مفلس ہندو گھرانوں کی ضروریات پوری ہوتی تھی اور پھر اسی سلطان المشائخ کے پیشوائے طریقت ومعرفت خواجۂ خواجگان حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ کی ہدایت پر، سلطان محمد غوری نے ترائن کے میدان میں کامیابی ،اور اجمیر کی فتح کے بعد ، ایک مدت تک اس علاقے کو شکست خوردہ پرتھوی راج کے بیٹے گوبند راج کی نگرانی اور سرداری میں دیئے رکھا ،تاکہ مقامی باشندوں میں فاتحیں کے حوالے سے اجنبیت کا احساس نہ پیدا ہو، خواجہ ٔ خواجگان نے سلطان محمد غور ی کو مقامی آبادی سے حُسن سلوک اور نظامِ حکومت کو عدل وانصاف کے مطابق سرانجام دینے کی بطور خاص ہدایت فرمائی تھی ، صاحب تاج الماثر کے مطابق :’’رائے پتھورا کے بیٹے کو خلعت اور کرامتِ خاص سے نوازا گیا۔‘‘فتح کے بعد بھی ،اسی دہلی کا اختیار واقتدار بھی اُس وقت تک مقامی ہندو راجوں کے پاس رہا ،جب تک کہ وہ ان کی باغیانہ سازشوں کا سلسلہ شروع نہ ہوا۔