ملک بھر کے چڑیا گھروںمیں جانوروں کی خراب و خستہ صورتحال کا معاملہ وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے۔آجکل سوشل میڈیا پر کراچی چڑیا گھر میں مختلف جانوروں کی حالت ِزار کے ویڈیو کلپ گردش کررہے ہیں۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک نحیف و نزار شیر ہے جسکی پسلیاں نکلی ہوئی ہیں اور و ہ نیم زندہ حالت میں لیٹا ہانپ رہا ہے۔ جنگل کا بادشاہ بے کسی و بیچارگی کی قابل ِرحم تصویر بنا ہوا ہے۔یہ ویڈیو دیکھ کر ان لوگوں کا دل بھی دُکھتا ہوگا جنہیں جانوروں سے خاص اُنس نہیں۔ ساتھ ہی میڈیا میں یہ خبر نشر ہوئی کہ جس ٹھیکے دار کے پاس کراچی کے چڑیا گھر میں جانوروں کو کھانا دینے کا ٹھیکہ تھا اس نے خوراک مہیّاکرنا بند کردی ہے کیونکہ متعلقہ حکام نے اسے ادائیگی نہیں کی ۔ تاہم کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے وضاحتی بیان میں کہا کہ ٹھیکے دارخوراک کی رسد بند کردے تب بھی چڑیا گھر کے گودام میںجانوروں کے لیے ایک ہفتہ کا کھانا پینا موجود ہوتا ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ وائرل ہونے والے ویڈیو کلپ پرانے ہیں۔ اسوقت تمام جانور اچھی حالت میں ہیں۔ اگر کارپوریشن کی بات درست تسلیم کرلی جائے تب بھی یہ تو درست ہے کہ چڑیا گھر کے جانورکچھ عرصہ پہلے اس بُری حالت میں تھے۔ چڑیا گھروں کے حکام جانوروںکی خراب صورتحال پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسی برس کے شروع میں بھی کراچی چڑیا گھر کے جانوروںکی خراب صحت اور انکے پنجروں کی گندگی پر رپورٹیں نشر ہوئی تھیں۔ایک شہری نے اس معاملہ پر سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ۔ اسوقت سندھ ہائی کورٹ نے اس معاملہ پر نوٹس لیا تھا اور حکام سے جواب طلبی کی۔ عدالتی حکم کے باوجود متعلقہ حکام چڑیا گھر کے جانوروں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کرنے میں لیت ولعل سے کام لیتے رہے۔ اسی چڑیا گھر میںسال کے شروع میں ریچھ کا ایک چھوٹا بچہ سکردو سے لایا گیا اور اسے ایک چھوٹے سے پنجرہ میں ماں باپ کے بغیر بالکل تنہا بند رکھا گیا تھا۔ ایک ایسے ماحول میںجو اسکے فطری گرد و پیش سے یکسر مختلف تھا۔ یہ معاملہ بھی کچھ شہری سندھ ہائی کورٹ میں لے گئے تھے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ریچھ کے بچے کو مناسب غذا‘ پانی اور طبی امداد سے محروم رکھا گیا ۔ عدالت عالیہ کی جواب طلبی پر انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی کہ اس ریچھ کے لیے الگ مناسب پنجرہ بنایا جائے گا جو اسکی فطری ضرورتوں کے مطابق ہوگا۔مطلب‘ جب تک عدالت عالیہ کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا جائے اور میڈیا پر شور نہ مچایا جائے متعلقہ حکام کراچی چڑیا گھر کے جانوروںکو مناسب ماحول اور غذا فراہم نہیں کرتے۔ ہمارے ملک میں کرپشن اور بدانتظامی اتنی بڑھ چکی ہے کہ جانور بھی انکی زد میں آچکے ہیں۔ صرف کراچی نہیں ملک کے دیگر علاقوں میں بھی چڑیا گھروں کی حالت اچھی نہیں۔ اسلام آباد کا چڑیا گھر اکثر خبروں کی زینت رہتا تھا۔ وہاں شہریوں نے جانوروں کے حقوق بارے میں زوردار مہم چلائی اور معاملہ عدالت عالیہ تک چلا گیا۔ اسلام آبا د ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی دارلحکومت کے مرغزار چڑیا گھر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک عقوبت خانہ کی طرح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک غیر انسانی فعل ہے کہ دو ریچھوں کومحض انسانوں کی تفریح کی غرض سے انکے فطری ماحول سے محروم کردیا جائے۔ ان بھورے ریچھوں کو ملک کے شمالی علاقہ میںہمالیہ پہاڑوں میں گھرے انکے خوبصورت وطن دیوسائی سے اسلام آباد لایا گیا تھا اور دس برس تک پنجروں میں بند رکھا گیا۔حالانکہ یہ ریچھوں کی وہ نسل ہے جو معدوم ہونے کے خطرہ سے دوچار ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میںاردن میں ریچھوں کی محفو ظ پناہ گاہ میں بھیجا گیا۔ اردن میں شہزادی عالیہ نے ریچھوں کے تحفظ کے لیے ایک فاونڈیشن بنائی ہوئی ہے۔پاکستان میں غیر فطری ماحول میں رہنے کے باعث ان ریچھوں کی حالت خراب ہوچکی تھی اور وہ بائولے پن کا مظاہرہ کرنے لگے تھے۔ عدالت عالیہ نے کہا تھا کہ یہ ریچھ بہت تکلیف سہہ چکے لیکن اپنی زبان سے اِسے بیان نہیں کرسکتے۔ اس واقعہ سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کی مداخلت پر دارالحکومت میں ایک بیمار اور تنہائی کے شکار کاوان نامی ہاتھی کو کمبوڈیا کی پناہ گاہ میں منتقل کیا گیا تھا۔ انسانوں کی طرح جانوروں کی غذائی‘ سماجی اور نفسیاتی ضروریات ہوتی ہیں۔اللہ نے انکے بھی جوڑے بنائے ہیں ۔ کسی جانور کو تنہائی میں رکھنا بڑا ظلم ہے۔ انسانوں نے ان جانوروں کو انکے فطری ماحول سے دُور کرکے خالق ِکائنات کے پیدا کردہ فطرت کے توازن کو خراب کیا ہے۔ بعض امیر لوگوں نے غیر قانونی طور پر جنگلی جانوروں کو قید رکھا ہوا ہے۔گزشتہ برس لاہور میں ایک نجی ہاوسنگ کالونی میںتنہائی میں مقید ایک کالے ریچھ کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ریچھ ابنارمل طریقے سے پنجرے سے سر ٹکرارہا تھا۔ عالمی معاہدوں کے مطابق جو جنگلی حیوانات معدوم ہونے کے خطرہ سے دوچار ہیں انکی تجارت پر سخت پابندیاں اور شرائط عائد ہیں لیکن دولتمند لوگ وفاقی حکومت سے بیرون ممالک سے جانور درآمد کرنے کا اجازت نامہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ انسان نے فطرت سے بڑے پیمانے پر چھیڑ چھاڑشروع کررکھی ہے جس کی وجہ سے جانوروں سمیت جاندار اشیا ء کی سینکڑوں انواع معدوم ہوچکی ہیں اور بعض ناپید ہونے والی ہیں۔پاکستان میں بتدریج ہر شعبہ میں تنزل آیا۔ جانوروں کے باغات یعنی چڑیا گھر بھی کرپشن ‘ نااہلی اور بدانتظامی کا شکار ہوئے۔آئے دن ملک کے چڑیا گھروں میں جانوروں کی اموات کی خبریں آتی ہیں۔ وسائل کی کمی ہے اور جو عملہ تعینات ہے وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیتا ہے۔موجودہ حکومت نے ایک سال پہلے اعلان کیا تھاکہ اسلام آباد کے چڑیا گھر کو جنگلی حیوانات کے تحفظ کے جدید ترین ادارہ کی شکل دی جائے گی جہاں جانوروں کو انکے فطری ماحول میں رکھا جائے گا اور عام لوگوں کو انکو دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔ اس ادارہ کو قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں موجود تمام سرکاری چڑیا گھروںکے حالات بہتر بنانے کی خاطر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نئی قانون سازی کرنی چاہیے اور انتظامی اقدامات لینے چاہئیں۔ ٭٭٭٭٭