نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ با سعادت کی یہ بابرکت گھڑیاں او رسعید لمحے یقیناتاریخ انسانی کے روشن ترین ، سب سے اہم اور قیمتی لمحات ہیں ، جب خوشیوں اور مسرتوں کی خوشبوئیں پھیلیں اور عظمت و بزرگی کے اُجالے عام ہوئے ’’ربیع الاول‘‘، ’’پہلی بہار‘‘ یعنی بہار کے موسم میں، بہار کے مہینے میں اُس جانِ بہاراں کی آمد: ربیعٌ فی ربیعٍ فی ربیعٖ و نورٌ فوق نورٍ فوقَ نورٖ کھلے جنت کے دَر رحمت کے دن، صلی علی آئے مبارک مرحبا اھلاً و سھلاً مصطفی آئے حفیظ جالندھری نے کہا: یہ کس کی جستجو میں مہرِ عالمتاب پھرتا تھا ازل کے روز سے بیتاب پائمال پھرتا تھا یہ کس کے واسطے مٹی نے سیکھا گل فشاں ہونا گوارہ کر لیا پھولوں نے پائمال میں خزاں ہونا یہ سب کچھ ہو رہا تھا ایک ہی امید کی خاطر یہ سب کچھ ہو رہا تھا ایک صبح عید کی خاطر مبارک ہو کہ ختم المرسلین تشریف لے آئے جناب رحمۃ للعالمین تشریف لے آئے اس دن اُس ذاتِ قدسی صفات ﷺ کا ظہور ہوا ، جس سے زیادہ حسین ہستی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ، جس کی حیات طیّبہ سے زیادہ پاکیزہ ، مقدس اور پُربہار زندگی کا سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ جس روزِ سعید آپ ؐ کی ولادت باسعادت ہوئی، وہ دنیا میں بہاروں کا نقطۂ کمال تھا۔ وہ عظیم ترین دن ۔ جب صدیوں سے کعبے میں رکھے ہوئے بت۔ منہ کے بَل گڑ پڑے ، قیصر و کسریٰ کے محلات لرز گئے، دورِ جاہلیت کے رسومات کے خاتمے کے امکان پیدا ہوئے، ظہورقُدسی کے نکہت و نور سے، کائنات کے گوشے اور قریے جگمگا اُٹھے۔ بارہ ربیع الاوّل کی وہ خوبصورت ، خوش کن اور خوشگوار صبح۔ جب تاریکی جارہی اور روشنی آ رہی تھی، شب کی سیاہی رخصت ہونے کو۔ اور دن کا اُجالا اپنی کرنیں بکھیرنے کو تھا، دو شنبہ، پیر، بارہ ربیع الاوّل ، عام الفیل یعنی ابرہہ کے واقعہ کے پچاس دن بعد، حضرت عبدالمطلب کی جواں سال بیوہ بہو کے اُداس۔ مگر پُرنور گھر میں۔ ازلی سعادتوں اور ابدی مسرتوں کا نور چمکا۔ جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام حضرت سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ با سعادت کے وقت ، میں نے ایک نور دیکھا، جس کی روشنی سے شام کے محلات جگمگا اُٹھے، یہاں تک میں اس کو دیکھ رہی تھی، دوسری روایت میں بھی درج ہے کہ اس نور نے میرے سارے گھر کو بقعہ نور بنا دیا، اور میں جس طرف بھی دیکھتی تھی، ہر طرف نور ہی نور تھا۔ حضرت عبدالرحمن ابن عوف کی والدہ الشفأ ، جن کو حضور کی دایہ بننے کا اعزاز نصیب ہوا ، وہ کہتی ہیں ، جب ولادتِ باسعادت ہوئی، تو میرے سامنے مشرق ومغرب میں ایسی روشنی پھیلی، جس کے سبب میں نے شام کے بعض محلات دیکھے: آگیا وہ نور والا جس کا سارا نور ہے سیرت نگار لکھتے ہیں کہ حضرت عبدالمطلب جو کہ علی الصبح ، بعد از طواف صحنِ کعبہ۔۔۔ اور پھر حطیم جو کہ کعبہ ہی کا حصّہ تھا، میں اپنے خاندان کے مردوں اور جلیل القدر فرزندوں کے ساتھ تشریف فرما تھے، تو ، ولادتِ باسعادت کی خوشخبری موصول ہوئی۔ بقول حفیظ جالندھری: طوافِ کعبہ کرنا صبح کا معمول تھا اُن کا دُعا بن کر ہوا کرتا تھا ظاہر مدعا اُن کا دعا یہ تھی الہٰی نعمتِ موعود مل جائے بنو ہاشم کا مرجھایا ہوا گلزار کھل جائے اچانک صبح کی پہلی کرن ہنستی ہوئی آئی مبارکباد دے کر یہ خبر دادا کو پہنچائی کہ رحمت نے تیری سوکھی ہوئی ڈالی ہری کر دی تیری بیوہ بہو کی گود رب نے نور سے بھر دی دادا کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، پوتے کو بانہوں میں لیا اور کعبہ شریف میں وہاں آ کر کھڑے ہوگئے، جہاں اللہ رب العزت سے، اس عطائیگی کی دعا کیا کرتے تھے، اور برجستہ یہ شعر کہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَعْطَانِیْ ھٰذَا الْغُلَامَ الطَّیِّبَ الاَرْدَانِ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے مجھے پاک آستینوں والا بچہ عطا فرمایا۔ قَدْ سَادَ فِی الْمَھْدِ عَلَی الْغِلْمَانِ اُعِیْذُہ‘ بِالْبَیْتِ ذِی الْاَرْکَانِ یہ اپنے پنگھوڑے میں سارے بچوں کا سردار ہے۔ میں اسے بیت اللہ شریف کی پناہ میں دیتا ہوں حَتّٰی اَرَاہُ بَالِغَ الْبُنْیَانِ اُعِیْذُہ‘ مِنْ شَرِّ ذِیْ شَنْاٰنِ مِنْ حَاسِدٍ مُضْطَرِبِ الْعَیَانِ یہاں تک کہ میں اس کو طاقتور اور توانا دیکھوں۔ میں اس کو ہر دشمن اور ہر حاسد، آنکھوں کے گھمانے والے کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔ 12ربیع الاوّل کی ان ایمان افروز ساعتوں میں وہ مقدس ہستی پہلوئے آمنہ سے ہویدا ہوئی، جس نے تاریخ انسانی کے دھارے کا رُخ موڑ دیا۔ انسانیت کو پستی سے نکال کر رفعتوں کے آسمان پر پہنچا دیا ۔ دنیا کو پیغامِ امن و عافیت دیا اور دکھی انسانیت کے کندھوں سے وہ بوجھ اتارا جس کے نیچے وہ قرن ہا قرن سے دبی چلی آرہی تھی، آپ ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری پوری دنیا اور بالخصوص اہلِ اسلام کیلیے اللہ تعالیٰ کی نعمت اور احسانِ عظیم ہے۔ یہ آپ ﷺ ہی کے فیضانِ نظر کا اثر تھا کہ جہالت، غفلت اور ظلم کی تاریکیاں چھٹنے لگیں۔ حق و باطل میں تمیز ہونے لگی۔ قلب و ذہن ، فکر ونظر اور عمل و کردار میں خوشگوار انقلاب برپا ہوگیا۔ ضمیر بیدار اور دل منوّر ہوئے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات ہی کی بدولت حریت و مساوات کا نیا سورج طلوع ہوا۔ رنگ و نسل کی تفریق ختم ہوئی اور بنی نوع انسان کو انسانیت ، اخوت اور مساوات کا درس ملا۔ بلاشبہ نبی رحمت رسول اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت پوری انسانیت کے لیے سراپا رحمت وبرکت ہے ۔آپ ﷺ کی تعلیمات وطرزِ زندگی تمام انسانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے ۔عید میلاد النبی ﷺ تمام مسلمانانِ عالم کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اس مبارک موقع پر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تجزیہ کریں اوردیکھیں کہ ہماری معیشت ،سیاست ، معاشرت اور تہذیب وتمدن کس حد تک آنحضرت ﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کے اسوئہ حسنہ کے مطابق ہیں ۔آج کے دن ہمیں بطورِ خاص اپنے ان افعال و اعمال کا بھی جائزہ لینا چاہیے، جو ہم بزعمِ خویش ، عشق و محبتِ رسالتمآب ﷺ کے جذبے کے تحت کرتے ہیں، مگر ان میں حُرمت اور تقدس کا وہ پیرایۂ اور جذبہ ، ویسا نہیں ہوتا، جیسا ہونا چاہیے۔ میلادُالنبی ﷺ کے موقع پر ، ایسی اہتمامات ، جن میں شرعی حدود و قیود قائم نہ رکھی جائیں، گانوں اور فلمی نغموں کی طرز پر ایسا نعتیہ کلام ، جس سے حقیقی دینی روح مستحکم ہونے کی بجائے مجروح ہو، سرِ بازار ایسی تقریبات اور ایونٹس کو آراستہ کرنا، جن میں مردوزن کا اختلاط اور اہل علاقہ کیلیے تکلیف اور راہگیروں کے لیے مشکلات کا باعث ہو، کی روک تھام کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہ سب کچھ اسوۂ رسول ﷺ اور اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتا ہے۔