کیا یہ زندگی جینے کے قابل ہے ؟ جی ہاں ، جی ہاں ، یہ زندگی جینی چاہئیے ۔ امکانات اور نعمتوں سے بھری ہوئی ۔ اس دھرتی پر ایسے لوگ بھی آباد ہیں ، جن سے ملاقات ، جن کی یاد بھی جی میں اجالا کر دیتی ہے ۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کی کتاب میں وہ مجسّم ہو گئے ہیں ۔ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں ڈاکٹر طاہر مسعود سے پہلی ملاقات چالیس برس پہلے ہوئی تھی ۔ یہ 1979ء کے سرما کا آغاز تھا ۔ کراچی سے سجاد میر نے ’’تعبیر ‘‘ نام کے ایک ہفت روزے کا آغاز کیا۔ مختار حسن مرحوم ، سعود ساحر اور ظہیر احمد ایسے جیّد صحافی ان کے ہم رکاب تھے۔ یہ ناچیز بھی جا شامل ہوا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے دوسری بار الیکشن ملتوی کرنے اور’’ مارشل لا کومارشل لا کی طرح چلانے‘‘ کا اعلان کیا ۔سنسر لگااور کھیت کم آبی کی نذر ہو گیا۔ کراچی میں تین ماہ کے قیام کا انعام اس شہر سے محبت تھی ، جو بڑھتی پھولتی رہی ؛حتیٰ کہ گاہے اب بے قرار کر دیتی ہے ۔ جمال احسانی کے چند اشعار تھے اور طاہر مسعود سے ملاقات ۔جمال احسانی کا شعر یہ ہے :نہ کوئی فال نکالی ، نہ استخارہ کیا / بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا ۔ اس نادرِ روزگار آدمی جناب سلیم احمد سے ملاقات ۔ محض دانشور نہیں،سلیم احمد بہت بڑھ کر تھے۔ صاحبِ اخلاق، صاحبِ انہماک ۔ ایک عظیم شاعر اور نثر نگار، ڈرامہ نویس، کالم نگار ۔ اس کے سوا بھی ۔ ان میں سے ، جن کی یاد دل کو تڑپاتی اور احساس دلاتی ہے کہ آج کامعاشرہ کیسا بے سروساماں اور کیسا مفلس ہو گیا ۔ جب شہرِ نگاراںسے گزرو تو آنکھیں پوچھنے لگتی ہیں وہ لوگ گئے کس بستی کو دل جن کے لیے تھے شیدائی کہیں کہیں کوئی ہے ، ڈاکٹر خورشید رضوی ایسے چند لوگ،جن کے چراغ سے چراغ جلایا جا سکتاہے ۔ ہے غنیمت کہ سسکتے ہیں ابھی چند چراغ اور بند ہوتے ہوئے بازار سے کیا چاہتے ہو سجاد میر کی معیت میں دوتین بار سلیم احمد کے ہاں جانا ہوا۔ اپنی بساط نہ تھی کہ ان سے سوال بھی کرتے ۔ ان کا بہت ادھورا سا مطالعہ بعد میں کیا۔ یہ مشہور شعر انہی کا ہے ۔ شاید کوئی بندہ ء خدا ادھر آئے صحرا میں اذان دے رہا ہوں تھکا ہارا ٹی وی پروگرام کے بعد گھر لوٹتا ہوں تو اس کے سوا کوئی آرزو نہیں ہوتی کہ لکھنے پڑھنے کا باقی ماندہ کوئی کام ہے تو نمٹا کر آرام کیا جائے ۔ دن بھر سیاست اور سیاست دانوں کے تذکرے سے جو کچھ بیتی ہے ، اسے بھلانے کی کوشش میں ممکن ہو تو ڈھنگ کی کتاب پڑھی جائے ۔ ایلیکس ہیلے کی مشہور کتاب "The Roots"کا اردو ترجمہ لاہور سے اٹھا لایا تھا ۔ پرسوں شام دفتر جاتے ہوئے اس پہ نگاہ پڑی ۔ امید بندھی کہ دو تین راتیں شادماں ہوں گی۔ لوٹ کر آیا تو کتاب غائب۔ اس گھر کا چلن یہی ہے ۔ بے ترتیبی اور ایک ایسا شخص اس کا ذمہ دار ہے ، جسے سمجھایا بھی نہیں جا سکتا، فدوی!صاحب زادوں میں سے کسی نے تاک لی ہوگی ۔ کوئی مہمان لے گیا ہوگا۔ کتابیں اس گھر میں بہت ہیں لیکن بے ترتیبی اس سے زیادہ۔ بے زری سے نہیں ، زندگی بے سلیقگی سے بھدی ہوتی ہے ۔ میرؔ صاحب کے شعر کا موضوع دوسرا ہے مگر اس میں نہاں ایک نکتہ یہ بھی ہے۔ مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں سلیقہ چاہئیے ، ترتیب چاہئیے ، جذباتی توازن درکار ہوتاہے ۔ غور و فکر سے تہی ،جذبات اور ہیجان کے مارے آدمی کی کوئی منزل ہوتی ہے اور نہ معاشرے کی۔ کل شب اور بھی تاخیر سے لوٹا۔ میز پہ ایک پیکٹ پڑا تھا۔ وہ خاکی کاغذ ، جس کی جگہ اب غلیظ پولی تھین نے لی ہے ۔ ایاز امیر سمیت جو ہم سب کی جان کا روگ ہے ، جس سے چھٹکارا پانے کی ہمت اس حکومت میں نہیں ، جس نے دھرتی کو آسمان بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ سوچا:اللہ کرے تبصرے کے لیے کوئی کتاب نہ ہو۔ کسی نوجوان شاعر کا کلام ، جو نہیں جانتا کہ خیال کو قلب میں تھامنا پڑتا ہے ۔ کسی نثر نگار کی بے تابی، جس کے ہجے تک غلط ہوتے ہیں ۔ ارے بھائی، ارے بھائی، یہ تو ڈاکٹر طاہر مسعود کی کتابیں ہیں ۔ شاعری کا مجموعہ ’’ شاید میں نے دیر لگادی ‘‘ اور خاکے ’’ اوراقِ نا خواندہ ‘‘ کوئی آگاہ نہیں باطنِ دیگر سے ہے ہر ایک فرد جہاں میں ورقِ ناخواندہ اس کام کو بھول کر جو شاید سب سے زیادہ ضروری تھا، اوّل ان کی چند نظمیں دیکھیں ۔ پہلی حمدیہ نظم ہی چونکا دینے والی ۔ غالبؔ نے سچ کہا تھا ۔ چار عشروں کے مراسم ،اس کے باوجود ڈاکٹر طاہر مسعود بھی میرے لیے ورقِ نا خواندہ ہی نکلے۔ ان کی شخصیت کے ایک اہم پہلوکا ادراک ہی نہ کر سکا ۔ دیباچے سمیت سو صفحے پڑھ ڈالے۔ ان کے ابی جان، پھوپھی جان مرحومہ ، ایک لہکتے ہوئے کردار سید بدر عالم ، سلیم احمد، ڈاکٹر جمیل جالبی، انتظار حسین، ڈاکٹر اسلم فرخی اور مشتاق احمد یوسفی کے خاکے ۔ ایک گہرا ملال ، درد کی ایک مستقل زیریں لہر ، ماتم ایک شہرِ آرزو۔ وہ دنیا جو کبھی تھی، اب نہیں ہے ۔ وہ عالم کہ جس کا خواب دیکھا کیے اور مجسم نہ ہو سکا۔ تحریر یہی ہوتی ہے ۔ لفظ اگر احساس اور درد میں نہ گندھے ہوں تو بے نتیجہ ، بے ثمر۔ پھر سلیم احمد یاد آئے، ڈاکٹر طاہر مسعود کے محبوب مفکر ۔ دلوں میں دردبھرتا آنکھ میں گوہر اگاتا ہوں جنہیں مائیں پہنتی ہیں ، میں وہ زیور بناتا ہوں شہر یاد آیا ، ساحل یاد آیا اور اس پر بتائی گئیں چاندنی راتیں ۔ کیا ہم ا س لیے ساحل کا رخ کرتے ہیں کہ شہر کوبھول سکیں؟ اس کی عطا کردہ کلفت اور رنج کو ؟سمندر کی بے کراں وسعت گاہے صحرا کی طرح ہراساں کرتی ہے ۔ پھر وہ دل ربا اور دل زیب کیوں لگتا ہے ؟ ڈاکٹر طاہر مسعود کی تحریر ایک مہذب اور شائستہ آدمی کی تحریرہے ۔ سنسنی پسندی سے پاک ، شین قاف سے درست ۔ ہمدردی اور انسان دوستی۔ اپنے کرداروں سے ان کا رویہ ہمدردانہ ہے اور گاہے غیر معمولی احترام کا۔ یہ آدمیت کا احترام ہے ، ایک سچی شائستگی ۔ نرگسیت کے مارے صحافیوں ، شاعروں اور ادیبوں کے برعکس ایک ایسا لکھنے والا ، جس میں ابدی اصولوں سے وابستہ رہنے کی تمنا برقرار رہتی ہے ؛تاہم اظہارِ صداقت بھی ۔ ایک آدھ شخصیت مثلاً مشتاق یوسفی کے باب میں تو ایسی بے باکی کہ آدمی حیرت زدہ رہ جائے ۔ کیا یہ زندگی جینے کے قابل ہے ؟ جی ہاں ، جی ہاں ، یہ زندگی جینی چاہئیے ۔ امکانات اور نعمتوں سے بھری ہوئی ۔ اس دھرتی پر ایسے لوگ بھی آباد ہیں ، جن سے ملاقات ، جن کی یاد بھی جی میں اجالا کر دیتی ہے ۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کی کتاب میں وہ مجسّم ہو گئے ہیں ۔ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں