ریاست ماں کے جیسی کا نعرہ ہماری سرزمین پر لگتا رہا اور اس کا عملی مظاہرہ ہمیں نیوزی لینڈ کی سرزمین پر دکھائی دیا، جب نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کرائسٹ چرچ کے مسلمان متاثرین کے لیے مجسم ماں کے روپ میں ڈھل گئی۔ وحشت اور خوف کے لہولہان اذیت ناک منظروں کے درمیان یہ زخموں پر مرہم رکھنے جیسا اجلا منظر تھا۔ جیسے کوئی اپنا آنسوئوں کو اپنی پوروں میں جذب کر کے دکھ کی گھڑی میں آپ کو آپ کے ساتھ ہونے کا یقین دلائے۔ جیسنڈا آرڈرن کے نام سے بھی ہم واقف نہ تھے لیکن ان کی ہم درد اور دل گزاز طبیعت نے دنیا کے دل موہ لیے ہیں۔ وہ اپنے سر پر دوپٹہ اوڑھے مسلمان کمیونٹی کے دکھ بانٹنے کے لیے ان کے پاس خود پہنچیں۔ حیرت ہے کہ انہیں کسی اور سرکاری مصروفیت نے روکا نہیں کہ وہ اپنے کسی ترجمان اور نمائندے کے ہاتھ متاثرین کرائسٹ چرچ کو تعزیت کا پیغام پہنچا دیتیں۔ کیونکہ ہم پاکستانیوں کو اسی کی عادت ہے کہ ہمارے حکمران کبھی اس طرح دکھ اور قیامت کی گھڑی میں اپنی عوام کو گلے سے نہیں لگاتے۔ بس کچھ مذمتی پیغامات جاری ہوتے ہیں۔ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے روایتی دعوے دہرائے جاتے ہیں اور کسی وزیر مشیر سطح کے سیاسی رہنما کو ’’بادشاہ وقت ‘‘ اپنا پیغام دے کر متاثرین کی طرف روانہ کردیتے اور کبھی کبھی یہ زحمت بھی نہیں کی جاتی۔ مگر آفرین ہے جیسنڈا آرڈرن پر جنہوں نے بطور حکمران اس ذمہ داری کو اپنے دل سے قبول کیا کہ دکھ کی اس گھڑی میں ریاست کو ماں جیسا کردار ادا کرنا چاہیے اور ماں کون ہوتی ہے۔ محبت، ہمدردی کا ایک پیکر۔ زخموں پر مرہم رکھنے والی، ڈھارس دینے والی، غمگسار، بطور حکمران جیسنڈا آرڈرن ریاست کی نمائندہ تھیں۔ سو خود ماں کے پیکر میں ڈھل گئیں، افتخار عارف کا شعر یاد آ رہا ہے کہ: ہجر کی دھوپ میں چھائوں جیسی باتیں کرتے ہیں آنسو بھی تو مائوں جیسی باتیں کرتے ہیں سو مائوں جیسی وزیراعظم نے غمزدہ عورتوں کو گلے سے لگایا۔ ان کی غم سے کپکپاتی آواز اور چہرے پر دکھ کے گہرے سائے بتاتے تھے کہ نیوزی لینڈ کی حکمران نے تارکین وطن کا دکھ اپنا دکھ سمجھا ہے۔ کرائسٹ چرچ کے متاثرین بلاشبہ قیامت خیز سانحے سے دوچار تھے۔ ریاست پر ان کا اعتماد اور یقین میں دراڑ پڑ چکی تھی۔ اسی نازک صورتحال میں وہ کسی ردعمل کا اظہار بھی کرسکتے تھے لیکن ان تمام خدشات نے بھی جیسنڈا آرڈرن کو کرائسٹ چرچ کے متاثرین کے پاس جانے سے نہیں روکا۔ وہ غم زدہ عورتوں کو گلے سے لگاتیں۔ انہیں ڈھارس اور دلاسا دیتی تھیں، اگرچہ اس سے نقصان کا ازالہ نہیں ہوتا لیکن دکھ کی گھڑی کچھ آسودہ ہو جاتی ہے۔ ایک جاپانی کہاوٹ ہے کہ: One kind word can warm three months of winter season. ڈھارس اور ہمدردی سے بھرا ایک لفظ، سردیوں کے تین مہینے گرمائش پہنچا سکتا ہے۔ اب ذرا ہمدردی کی پیکر جیسنڈا آرڈرن کے سحر سے نکل کر اپنے وطن کے منظر نامے پر نگاہ ڈالیں۔ بے حسی اور عوام اذیتی کے ایسے ایسے مناظر دکھائی دیں گے کہ بس۔ ہم صرف نعرے باز قوم ہیں۔ خالی خولی نعروں پر ستائشیں حاصل کرنے والے۔ ہمیں بے حس اور کٹھور حکمرانوں سے پالا پڑتا رہا ہے۔ تازہ ترین سانحہ تو ساہیوال میں ہوا جہاں ایک خاندان ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوا۔ ماں باپ بڑی بہن اس دہشت گردی میں مارے گئے۔ تین معصوم بچے، اس قیامت خیز گھڑی میں سہمے ہوئے بے آسرا کھڑے تھے۔ پوری دنیا میں جن کی تصویریں وائرل ہو گئیں، ان معصوم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے اور انہیں گلے سے لگانے کے لیے حکمرانوں کے پاس وقت نہیں تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی بیرون ملک سے خالی خولی بیان جاری کیا کہ ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دیں گے۔ غالباً وہ قطر میں تھے اور کہا کہ واپس آ کر سب سے پہلے اس کیس کو دیکھوں گا لیکن صاحب… یہاں پاک سرزمین پر کوئی وعدہ، کوئی دعویٰ کبھی پورا ہوتے دیکھا ہے۔ یہاں تو ریاست سوتیلی ماں جیسی بھی نہیں۔ ایک ڈائن بن چکی ہے جس کے سینے میں دل کی بجائے عوام کا خون چوسنے کی خواہش موجود ہے۔ جی ٹی روڈ پر م مجھے کیوں نکالا ریلی کے دوران سرکاری پروٹوکول کی گاڑی نے ایک معصوم بچے کو روند ڈالا تھا۔ کسی نے ماں باپ کے دکھ کو محسوس نہ کیا۔ ریلی میں بدستور بھنگڑے ڈالے جاتے رہے۔ اس ظلم پر شور اٹھا تو اعلان کیا گیا کہ چند دن تک سابق وزیراعظم نوازشریف اس بچے کے گھر خود غمگساری کے لیے جائیں گے۔ چند دن کیا چند ہفتے اور پھر کئی مہینے گزر گئے۔ نوازشریف غمزدہ والدین کے پاس نہ گئے۔ شاید اپنے کسی ترجمان کو بھیج دیا۔ سانحہ ماڈل ٹائون، جس میں 14 بے گناہ ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ خادم اعلیٰ کو فرصت نہ ملی کہ غمزدہ خاندان سے تعزیت کرتے۔ ڈھارس کے دو لفظ بوتے۔ شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے۔ ہمدردی اور غمگساری وہی حکمران کرسکتا ہے جس کا دل اور نیت میلی نہ ہو اور وہ اعلیٰ ظرف ہو۔ یہاں تو بے حس اورتھڑ دلے لوگ ہم پر مسلط ہیں۔ کبھی اسد عمر عجب بے حسی سے فرماتے ہیں کہ مہنگائی اتنی بڑھے گی کہ عوام کی چیخیں نکل جائیں گی۔ غریب شہر کی حالت تو یہ ہے کہ غربت اور بھوک کے سبب چیخیں مارنے کی بھی سکت نہیں اور جن کی چیخیں نکل رہی ہیں انہیں سننے کے لیے حکمرانوں نے سماعتوں کے در بند کررکھے ہیں۔ کالم یہاں تک پہنچا تو ٹی وی پر ہیلتھ ورکرز کے دھرنے کی خبر آ رہی تھی۔ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا انہیں طنزاً سیاستدان کہنا ان پر جچا نہیں۔ فرماتی ہیں کہ ہم نے ان کے مطالبات مان لیے مگر یہ دھرنے پر مصر سیاست کر رہی ہیں، ان کو تو سیاستدان ہونا چاہیے۔ ہمدردی، دلاسا، احساس کیا ہوتا ہے، ہمارے حکمران نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن سے سیکھ لیں: وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھائوں جیسا ہے