ہائے ہائے بارش میں بھیگتی ہوئی بہار‘ نئی کونپلوں سے نہال ہوتا ہوا انار‘ ایسے میں میر کیوں نہ یاد آئے: چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم بادو باراں ہے درخت نیا پہناوا پہن رہے ہیں سبز ہوتی ہوئی زمیں زندگی کا استعارا ہے۔ پھولوں ‘ رنگوں اور خوشبوئوں نے جسے دو آتشہ کر دیا۔ رنگینیوں میں ڈوبے ہوئے فطرت کے مظاہر ۔ قدرت کا اظہار کتنا بے ساختہ ہے: یہ میرے شعر نہیں ہیں ترا سراپا ہے کہ خوبصورتی اپنی نمو ڈھونڈتی ہے صرف شاعری ہی نمو پذیر نہیں پھولوں کی آرائش بھی تو اپنی نوع کا سخن ہے اور مصوری ہے۔ اس حوالے سے پی ایچ اے نے جشن بہاراں منایا ہے تو آمد بہار کو پھولوں کی آواز بنا دیا ہے۔ ہم باغ جناح میں بہاریہ مشاعرہ کے لئے پہنچے تو آنکھیں خیرہ اور دل باغ باغ ہو گیا۔ پھولوں اور بیلوں کی آرائش دیکھنے والی تھی اپنا دوست عدیم ہاشمی یاد آ گیا: دور سے جان لیا میں نے کہ گھر تیرا ہے بیلیں لپٹی ہوئی دیکھیں جہاں دیوار کے ساتھ پتہ چلا کہ اس خوبصورتی کے پیچھے پی ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فیصل ظہور‘ چیئرمین یاسر گیلانی‘ ڈائریکٹر اختر محمود اور ڈائریکٹر علی نواز شاہ ہیں۔ علی نواز تو ایک خوبرو افسر ہی نہیں اچھا فکشن رائٹر ہے۔ جشن بہاراں کا یہ سلسلہ ایک ماہ پر محیط ہے۔ بہار کا مشاعرہ اس کا کمبی نیشن پوائنٹ سمجھیے پی ایچ اے کا یہ بہاریہ مشاعرہ بہت برس پہلے شیر احمد نے شروع کیا جب شوکت علی شاہ سیکرٹری اطلاعات تھے۔ کئی مشاعروں کی نظامت میں نے کی۔ تب یہ مشاعرہ ریس کورس میں ہوا کرتا تھا۔ اب کے اس مشاعرے کے رنگ ڈھنگ ہی اور تھے۔ نئی ٹیم لگتا ہے ذوق شوق والی ہے کہ سب کے سب مشاعرے میں آخری وقت تک موجود رہے۔ انور مسعود کی صدارت کہ مشاعرے کی کامیابی کی دلیل۔ پھر امجد اسلام امجد ہمارے محبوب شاعر مہمان خصوصی نجیب احمد سے لے کر ڈاکٹر صغریٰ صدف تک دو درجن کے قریب نامور شعرا، سونے پہ سہاگہ کمپیئرنگ فرحت عباس شاہ کی، پھر وہ سینئر کو جونیئر اور جونیئر کو سینئر بنانے کے فن سے بھی آشنا تھا۔ سب سے بڑی خوشی کی بات یہ کہ اس مرتبہ سننے والے بہت بڑی تعداد میں تھے۔ تین اطراف میں بیٹھے خاندان اور سامنے بیٹھے نوجوان کہوٹہ سے آئے ہوئے جاوید احمد نے یہ شعر پڑھ کر خوب داد پائی: چند شاعر ہیں جو اس شہر میں مل بیٹھتے ہیں ورنہ لوگوں میں وہ نفرت ہے کہ دل بیٹھتے ہیں مشاعرے کا آغاز نعت سے کیا گیا تھا جب مشاعرہ عروج پر تھا تو چودھری محمد سرور گورنر پنجاب کی آمد ہو گئی۔ ان میں ایک خوبی ہے کہ وہ ڈائون ٹو ارتھ ہیں‘ وضعدار ہیں اور تعلق داری نبھانے والے ہیں۔ آئے اور سب سے بڑے تپاک سے ملے۔ وہ مہمان اداکار کے طور پر ہی آئے رنگ جمایا اور پھر کسی شادی کی تقریب کے لئے روانہ ہو گئے۔ تاہم انہوں نے ڈاکٹر فیصل ظہور اور یاسر گیلانی کی کاوشوں کو بہت سراہا اور کہا کہ حکومت عوام کی تفریح کا خاص خیال رکھے ہوئے ہے اور یہ بہاریہ پروگرام اسی کا ایک ثبوت ہے۔ یاسر گیلانی صاحب نے بتایا کہ اس مرتبہ 19ایونٹس رکھے گئے تھے جن کا تعلق فنون لطیفہ سے تھا۔ مشاعرہ اس میں اہم تھا کچھ اشعار ذہن میں رہ گئے: محبت حد سے بڑھتی جا رہی ہے بس آنا جانا تھوڑا کم ہوا ہے (فرخ محمود) ابھی تک ہوں طلسماتی فضا میں جو کہنا ہے وہ کرتی جا رہی ہوں (صغریٰ صدف) تو ایک حرف ملامت کو عمر بھر ترسے میں کم سخن ہوں یہی انتقام میرا ہے (شکیل جاذب) میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے وہ سمجھتا ہے مجھے اس سے گلہ کچھ بھی نہیں (اختر شمار) پتھروں سے جڑے ہوئے شیشے پتھروں سے بھی سخت ہوتے ہیں (باقی احمد پوری) یقینا سب کے اشعار لکھنا میرے بس میں ہی نہیں۔ احسان الحق ‘ شاہدہ دلاور شاہ‘ ڈاکٹر غافر شہزاد‘ ناصر بشیر‘ ڈاکٹر ناصر‘ اعجاز رضوی‘ عمرانہ مشاق مانی‘ ساجد گل‘ خالد مسعود‘ باقی احمد پوری‘ حسنین سحر‘ شفیق احمد‘ سید سلمان گیلانی‘ گیلانی صاحب نے تو خوب خوب مشاعرہ لوٹا۔ خوب ہلا گلا بھی تھا: شوہر کے دل میں کیا ہے ہر بیوی کو خبر ہے بیوی کا موڈ شوہر تھوڑے ہی جانتے ہیں بشر بے موت مارے جا رہے ہیں مسیحائی کا چرچا ہو رہا ہے ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں ہیں ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے مزے کی بات یہ کہ کارڈ پر مہمان خصوصی کا نام فیاض الحسن چوہان چھپا ہوا تھا مگر ان کا پتہ تو بہار میں گر گیا۔ وہ صرف کارڈ پر ہی رہ گئے۔ بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔ آخر میں امجد اسلام امجد اور انور مسعود صاحب سے بہت کچھ سنا گیا۔ ہلکی سی خنکی بھی فضا میں آ گئی تھی۔ لوگ تھے کہ امجد صاحب اور انور مسعود کو سننے کے لئے براجمان تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی ہی بامقصد تفریح لوگوں کو پہنچانی چاہیے۔ ایک اور بات ذہن میں آئی ہے کہ چھوٹے شہروں کی طرف جبھی توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ یہ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں یک طرف لے جانے کا اچھا اقدام ہے۔ رات گئے باربی کیو کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔ ایک جشن کا سماں تھا۔ ایک مرتبہ سید یاسر شاہ اور ان کی ٹیم کا شکریہ کہ انہوں نے رنگوں اور خوشبوئوں سے بھرا بہار یہ مشاعرہ منعقد کیا اور علی نواز شاہ کا شکریہ جس نے کوشش اور حکمت عملی سے شعرا کو مشاعرے سے گھنٹہ قبل ہی اکٹھے کر لیا، یوں گپ شپ بھی ہو گئی۔ دو شعروں کے ساتھ اجازت: مجھ سا کوئی جہاں میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو