جنوبی پنجاب صوبہ کی باسی کڑھی میں اُبال آتا رہتا ہے۔گزشتہ دنوں سینٹ میںایک بار پھر یہ مسئلہ اٹھایا گیا۔پنجاب کے جنوبی اضلاع کے وڈیرے اور قبائلی سردار عرصۂ دراز سے صوبہ کے اقتدار سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ خوب مال بنا یا‘ عیش کی۔ انہوں نے اپنے عوام کی غالب اکثریت کوپسماندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ زرعی زمینوں پر ان کا قبضہ رہا۔ حکومتی اداروں کا حصّہ رہے اور ریاستی سرپرستی سے فیض یاب ہوتے رہے۔ جو سیاسی جماعت حکومت میں آئی اُس میں شامل ہوگئے۔ سب سے زیادہ لوٹے اسی خطّہ میں پائے جاتے ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے پنجاب کے جنوبی اضلاع میں مڈل کلاس کاحجم بڑھ گیا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ انہیں صوبہ کے وسائل میں جائز حصہ اور حکومتی ڈھانچہ میں ان کی آبادی کے تناسب سے سرکاری ملازمتیں نہیں مل رہیں۔ ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے انہیں لاہور کے دھکے کھانے پڑتے ہیں جہاں وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والی افسر شاہی غلبہ ہے۔ وہ انہیں لفٹ نہیں کرواتی۔ جنوبی پنجاب کے وڈیروں کو خدشہ ہونے لگا ہے کہ الیکشن میں ناراض نوجوان انہیں چیلنج کریں گے ۔ ان کے دائمی اقتدار کے لیے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس لیے وڈیرے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ یہ ان کی سیاسی بقا کا معاملہ ہے۔ ورنہ یوسف رضا گیلانی کو کیاغرض تھی کہ وہ سینٹ میں جنوبی پنجاب کیلیے آواز بلند کریں۔ وہ ایک بار قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ایک بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ اُس وقت تو انہیں جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا کبھی خیال نہیں آیا۔ انہوں نے ملتان کے ساتھ ساتھ لاہور میں عالیشان بنگلہ بنایا ہوا ہے۔ ہر دو صورتوں میں ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ اپنے حلقہ کے عوام کو خوش کرنے کے لیے ایک تقریر کردی۔ ان کا مطلب پورا ہوگیا۔ سینٹ میں یوسف رضا گیلانی خوب گرجے برسے کہ انہیں جنوبی پنجاب کے لیے الگ سیکرٹریٹ نہیں چاہیے بلکہ الگ مکمل صوبہ چاہیے۔ تحریک انصاف کے ملتان سے رہنما شاہ محمود قریشی نے ان کی تائید کی اور کہا کہ انکی جماعت اس معاملہ پر اپوزیشن سے مل کر آئینی ترمیم لانے کو تیار ہے کیونکہ یہ کام پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کے بغیر ممکن نہیں اور انکی حکومت کے پاس اتنے ارکان نہیں ہیں۔ پنجاب کو تقسیم کرکے الگ صوبہ بنانے کے لیے پنجاب اسمبلی کی منظوری بھی درکار ہوگی ۔ یہاں پیپلزپارٹی کے ارکان مٹھی بھر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حمایت کے بغیر یہ منظوری نہیںمل سکتی لیکن اس نے شاہ محمود قریشی کی اس معاملہ پر بات چیت کرنے کی پیش کش کو فوراً ٹھکرا دیا۔ حالانکہ اگر فوری طور پر جنوبی پنجاب کا صوبہ بن جائے تو باقی ماندہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی غالب اکثریت ہوگی اور اسے صوبائی وزارتِ اعلیٰ مل جائے گی۔ لیکن ن لیگ کو نظر آرہا ہے کہ اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کی حالت پتلی ہوگی اور اسے سارے پنجاب میںحکومت کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ وہ کسی چھوٹی چیز پرکیوں رضا مند ہو؟تمام سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب کے غریب‘ حقوق سے محروم عام لوگوں کے ساتھ کھیل کھیل رہی ہیں۔ خطہ کی اشرافیہ کی موجیں لگی ہوئی ہیں ۔ مسائل تو عوام اور متوسط طبقہ کے لئے ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ کے مطالبہ سے کوئی مخلص نہیں ۔ تونسہ شریف کے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنے ہوئے پونے چار سال ہوگئے وہ ابھی تک جنوبی پنجاب کے الگ سیکرٹریٹ کو پوری طورح فعال نہیں کرسکے۔بار بار اس کا علان کیاجاتاہے لیکن عملی کام سست رفتاری کا شکار ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ افشر شاہی کی اکثریت وسطی پنجاب سے تعلق رکھتی ہے اور اختیارات پر اپنی اجارہ داری کو ختم ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔ افسر شاہی اور بڑے سیاستدان نہ بااختیار ضلعی نظام قائم ہونے دیتے ہیں نہ چھوٹے صوبوں کا قیام۔حالانکہ پنجاب کی آبادی گیارہ کروڑ ہوچکی ہے۔ اتنے بڑے صوبے کا نظم و نسق لاہور شہر سے بیٹھ کر اچھی طرح نہیں چلایا جاسکتا۔ مری میں ہونے والے المناک واقعہ کے پیچھے بڑی وجہ یہ تھی کہ مری میں انتظامی نگرانی موثر نہیں تھی۔ پنجاب کے جنوبی اضلاع صوبہ کے تقریباً نصف رقبہ پر مشتمل ہیں لیکن یہاں آبادی کا ارتکاز باقی علاقوں سے کم ہے۔ ان اضلاع میں صوبہ کی ایک تہائی آباد ہے۔ چونکہ یہاں کی آبادی کی اکثریت کی زبان سرائیکی ہے اس لیے اسے سرائیکی خطہ بھی کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسکے لیے وسیب اور رُوہی کے ا لفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ گیارہ جنوبی اضلاع پر مشتمل سرائیکی علاقہ صوبہ میں زرعی پیداوار کا بڑا مرکزہے۔ ماہر معیشت حفیظ پاشا نے اپنے ایک مضمون میں جنوبی پنجاب کے حوالہ سے قابلِ غور اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ پنجاب میں کپاس کی پیداوار کا ستاسی ( 87) فیصد‘ گنے کا انچاس( 49) فیصد اور گندم کا پینتالیس( 45) فیصدجنوبی اضلاع میں پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان ٹیکسٹائل سے جو دولت کماتا ہے اسکا مآخذ جنوبی پنجاب ہے۔لیکن اس علاقہ کو صنعتی اعتبار سے پسماندہ رکھا گیا ہے۔ صوبہ کے صرف پندرہ فیصد صنعتی کارخانے جنوبی اضلاع میں واقع ہیں۔ صنعتی مزدوروں میں جنوبی پنجاب کے لوگوں کا حصہ صرف تیرہ فیصد ہے۔ حالانکہ جنوبی پنجاب کراچی کی بندرگاہ سے شمالی اضلاع کی نسبت زیادہ قریب ہے۔یہاں صنعتی ترقی کی گنجائش زیادہ ہے۔ اس خطہ میں غیر آباد زمین زیادہ رقبہ پر محیط ہے جہاں صنعتی شہر آسانی سے بسائے جاسکتے ہیں۔ اس خطہ میں بارشیں کم ہوتی ہیں یہ ایک ریگستانی علاقہ ہے جہاں سورج سارا سال چمکتا ہے اور شمسی توانائی کے منصوبوں کے لیے آئیڈیل ماحول ہے۔پنجاب حکومت نے موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے جنوبی اضلاع کو وہاں کے زمینداروں‘ جاگیرداروں کی ملی بھگت سے جس طرح پسماندہ رکھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے جنوبی پنجاب میں بجلی کی صرف ایک تقسیم کار کمپنی میپکو کام کرتی ہے جبکہ باقی صوبہ کے لیے چارایسی کمپنیاں ہیں۔ جنوبی پنجاب میں صرف ایک میونسپل ’ میٹروپولیٹن کارپوریشن ہے جبکہ باقی صوبہ میں چھ میونسپل کارپوریشنیں ہیں۔ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انسانی ترقی کے اشاریوں کے اعتبار سے ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژن پنجاب کے پسماندہ ترین علاقے ہیں۔یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی کی تقریریں صرف سیاسی مقاصد کے لیے ہیں۔ ان سے جنوبی پنجاب کے عوام کو کچھ ملنے والا نہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں کیے گئے و عدے وعید ہوا ہوگئے۔شاید آئندہ بھی ایسا ہی ہو۔