لاہور سمیت کئی شہروں میں انتظامیہ نے پارکوں میں موجود جنگلی حیات کو ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کا قانون موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث آج جنگلی حیات ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ چکور ‘ تیتر‘ چیتا ‘ مارخور‘ فاختہ اور ہرن کا شکار نہیں بلکہ ان کی نسل کشی کی جاتی ہے۔ بڑے شہروں میں قائم پارکوں اور چڑیا گھروں میں موجود پرندوں اور جانوروں کی بھی حفاظت کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے جاتے۔ موسمی حالات کے مطابق پرندوں کی سردیوں اور گرمیوں میں مناسب دیکھ بھال ہونی چاہیے۔ لیکن ہمارے ہاں سردیوں میں پرندے اور جانور موسم کی شدت سے بیمار پڑ جاتے ہیں لیکن مناسب ادویات اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث مر جاتے ہیں۔ گرمیوں میں بھی جانوروں اور پرندوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ اسلام آباد ‘ کوئٹہ‘ کراچی اور چترال کے علاقوں میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ شکار کر لئے جاتے ہیں جبکہ بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں کو بھی بغیر سوچے سمجھے شکار کے لائسنس جاری کر دیے جاتے ہیں۔ افسران بالا اور وزارت نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ جن پرندوں کے شکار کی اجازت دی جا رہی ہے ان کی افزائش نسل بھی کرنی چاہیے۔ بعض پارکوں میں تو جانوروں کو ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے جو صرف اپنے پیسے بٹورنے کے چکر میں جانوروں کی مناسب دیکھ بھال‘ ان کے دانے گوشت اور کھانے کا خیال نہیں رکھتے‘ حکومت جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائے تاکہ قدرت کے یہ شاہکار اپنی نسل قائم رکھ سکیں۔