متضاد نظریات کی حامل دو شخصیات اور میدان عمل کے دو مختلف شہسواروں کی ویڈیوز میرے سامنے ہیں۔ ایک امریکہ کے کسی شہر میں علامہ جاوید احمد غامدی صاحب کی سوال و جواب کی نشست میں ایک سوال کے جواب کی ویڈیو ہے جو تقریباً آٹھ منٹ کی ہے، جبکہ دوسری ویڈیو القاعدہ کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی پانچ منٹ کی ویڈیو ہے، جو کسی نامعلوم مقام پر ریکارڈ کی گئی ہے۔ ویڈیو کو انگریزی میں عنوان بھی دیا گیا ہے۔ "Battle of awareness and will - The solid structure" (آگہی اور ارادے کی جنگ۔ مضبوط ڈھانچہ )۔ دونوں افراد کے کسی تعارف کی ضرورت نہیں اور نہ ہی دونوں کے نظریات کے بارے میں کسی تمہیدی آغاز کی حاجت ہے۔ گزشتہ بیس سال سے ان دونوں نظریات کی جنگ ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ایک شدت پسندی ہے جو امریکی اور مغربی یونیورسٹیوں اور میڈیا میں غامدی صاحب جیسے خیالات کی ترویج کرتی ہے اور دوسری وہ شدت پسندی ہے جس پر دنیا کی ساری کی ساری عالمی طاقتیں گزشتہ بیس سالوں سے حملہ آور ہیں، یہاں تک کہ اب ان کا نام مقام اور پتہ ٹھکانا تک کسی کو تو معلوم نہیں لیکن ان کا خوف ہر دل میں بٹھا دیا گیا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کی اس ویڈیو میں ان کے نظریات کا احاطہ تو نہیں لیکن ان کی گفتگو سے وہ مقصد بہت حد تک واضح ہو جاتا ہے جس کی جانب وہ امت مسلمہ کو لے جانا چاہتے ہیں۔ غامدی صاحب سے ایک سوال کیا جاتا ہے ’’یورپ کے جو عیسائی ہیں، پچھلے تین سو سال سے حکمرانی کر رہے ہیں، مسلمانوں کی باری کب آئے گی؟‘‘ غامدی صاحب ایک طنزیہ مسکراہٹ بکھیرتے ہیں اور پھر جواب دیتے ہیں، ’’مسلمان اپنی باری لے چکے ہیں (وقفہ اور ہال تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھتا ہے)‘‘، میں یہ بات محض تفنن طبع کے طور پر نہیں کہہ رہا بلکہ قرآن مجید کہتا ہے ’’تلک الایام نداولہا بین الناس‘‘ ہم اسی طرح دنیا کا اقتدار لائن سے ایک کے بعد دوسرے کو دے رہے ہیں اور یہ ایام اسی طرح الٹتے پلٹتے رہیں گے۔ بلکہ مزید یہ کہتا ہے کہ دنیا کی قوموں کو ایک لائن میں رکھ کر ایک کے بعد دوسری کو سٹیج پر لا رہے ہیں۔ یہ آخری زمانہ ہے کہ جس کے بارے میں قرآن نے بتایا کہ حضرت نوحؑ کے تیسرے بیٹے یافث کی نسل کے پاس حکمرانی ہوگی۔ پہلا وہ دور ہے کہ ان کے بیٹے ہام کے پاس دنیا کی حکمرانی رہی ہے۔ یہ افریقی عوام ہیں۔ دوسرا وہ دور ہے جس میں دوسرے بیٹے سام (Semetic Nation) کے پاس حکمرانی رہی ہے۔ اب یہ تیسرا دورو ہ ہے جس میں یافث کی نسل کے پاس حکمرانی ہے جو امریکہ میں۔۔۔ آسٹریلیا میں۔۔۔ یورپ میں وسط ایشیا میں اور کچھ ہندوستان میں آباد ہیں۔ تو اللہ نے اپنی سٹیج پر ان کو موقع دے رکھا ہے۔‘‘ اس گفتگو میں تاریخ بھی جاوید غامدی صاحب کی اپنی ہے اور دنیا کی نسلی تقسیم بھی، چلو یہ دونوں تو ہر کسی کا میدان ہے اور ہر دوسرا شخص اس میں خود کو مرد میدان سمجھتا ہے، لیکن قرآن پاک میں انہوں نے قوموں کے اقتدار کی جو ترتیب عام سامعین و ناظرین کو بتائی وہ ترتیب نہ تو چودہ سو سال میں اس امت کے مفسرین کو نظر آئی اور نہ ہی جدیدیت سے مرعوب کسی اور روشن خیال دینی سکالر کے ذہن میں آسکی۔ انکی اس پوری گفتگو کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد اور مدعا نظر آتا ہے کہ دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا اب کوئی مستقبل نہیں ہے ، یہ اب ذلیل و رسوا رہیں گے ، کیونکہ محکومی ان کی قسمت میں لکھی جاچکی ہے اور اب یہ نشاۃثانیہ نغمے اور بیداری کے گیت گانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو کچھ ہے اللہ نے سب تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے آرام سے بیٹھو اور امریکہ یورپ اور آسٹریلیا کے اقتدار کو قبول کر لو کہ (غامدی صاحب کے نزدیک) یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور قرآن پاک میں لکھ دیا گیا ہے۔ غامدی صاحب نے جس طرح نسل پرستی کو قرآن سے نکالا ہے اور جس طریقے سے انہوں نے نسلی بنیاد پر قوموں میں اقتدار کی تقسیم کا فلسفہ بیان کیا ہے، یہ اللہ کی سنت سے متصادم، قرآن پاک کے مومنوں سے کئے گئے وعدوں کے بالکل برعکس اور سید الانبیاء ﷺ کی احادیث سے مکمل انکار پر مبنی ہے۔ غامدی صاحب کی تاریخ دانی اور نسل انسانی کے علم کا عالم یہ ہے کہ وہ قومیں جنہیں وہ ’’یافث‘‘ کی نسل قرار دیتے ہیں یعنی جن کا "Racial Stoch"نسلی نسب نامہ ایک ہے اور جن کے بارے میں ان کے نزدیک اور ان کے ’’قرآنی علم‘‘کے مطابق اب باری شروع ہوئی ہے، اس نسلی نسب نامے میں ترک بھی شامل ہیں جو کسی طور پر سامی نسل سے تعلق نہیں رکھتے وہ تو امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں آباد قوموں کے مدتوں حاکم رہے ہیں۔ آخری رومن سلطنت قسطنطنیہ میں تھی جسے سلطان محمد نے فتح کیا تھا۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یہی ترک مسلمان اپنے عروج پر تھے اور یافث کی اسی نسل کو جس کی آپ کے مطابق باری ہے 1924ء میں ذلت آمیز شکست ہوئی تھی۔ ترکوں کا اقتدار کسی طور پر سامی نسلوں کا اقتدار نہیں تھا۔ مغل، صفوی سمانی، سلجوقی یہ سب کے سب بھی سامی نسل نہیں تھے۔ آپ کی تاریخ کی اپنی تشریح اور اپنی تعبیر ہے اور آپ کو اس کا حق حاصل ہے۔ لیکن آپ نے جس طرح اس امت مسلمہ کو خواب غفلت کی میٹھی نیند کی گولیاں دے کر سلانے کا ماخذ و منبع قرآن حکیم کو قرار دیا ہے، وہ قرآن تو میرے آقا سیدالانبیائﷺ سے بار باران کے دین کے غلبے کا یہ وعدہ فرماتا ہے۔ سورۃ التوبہ، الفتح اور الصف میں یہ آیت آئی ہے جس میں رسول اکرمﷺ کے دین کے غلبے کی بات ہے۔ اللہ فرماتا ہے اس اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کرے اور اگرچہ اسے مشرک ناپسند کریں۔ ہر اس مومن کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے جو روز حشر تک قرآن پاک کے صفحات میں موجود ہے۔ اللہ فرماتا ہے ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا ۔‘‘(النور 55)۔ اس کے بعد سید الانبیاء ﷺ کی احادیث کی ایک لڑی ہے جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں جن میں آخرالزّماں، ملحمۃ الکبریٰ، دور فتن اور پھر پوری دنیا پر اسلام کے غلبے کی بشارتیں ہیں۔انکے مطابق اللہ کے دین نے پوری دنیا پر چھانا ہے۔ غامدی صاحب کے اس جواب میں جہاں انہوں نے پوری امت سے وہ خواب چھیننے کی کوشش کی ہے جو وہ صدیوں سے رسول اکرم ﷺکی بشارتوں اور قرآن پاک میں درج اللہ کے دئیے وعدے کے مطابق دیکھتی چلی آرہی ہے وہیں انہوں نے قرآن کی آیات سے صرف نظر کرتے ہوئے ان احادیث رسول ﷺکا بھی سرے سے انکار کر دیا ہے جو آخری دور کے بارے میں تمام کتب احادیث میں ملتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ غامدی صاحب کی یہ مجلس چند سال پرانی ہو کیوں کہ آج جو کچھ مسلم امہ کے ممالک میں برپا ہے، اسے سید الانبیاء ﷺ کی پیش گوئیوں کی روشنی میں پرکھا جا سکتا ہے اور تمام واقعات اس کسوٹی پر پورے اتر رہے ہیں شاید وہ آج کے واقعات کو دیکھتے تو اپنی بات پر نظر ثانی کر چکے ہوتے ۔ ایسی ہی ایک پیش گوئی کو بنیاد بنا کر ایمن الظواہری نے ایک جنگ، ایک علاقے اور ایک خطے کا اپنی ویڈیو میں تذکرہ کیا ہے۔ (جاری ہے) نوٹ: ایک انتہائی مفلوک الحال شخص کے بیٹے کا Stem cell transplantہوا ہے۔ انہیں کچھ عرصہ کے لیے ماہانہ ادویات کی ضرورت ہے۔ کوئی صاحب خیر شخص انہیں دوا خرید کر دے سکتا ہو تو اس نمبر پر رابطہ کرے۔ 03064444891