صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے واقف ہیں کہ انہیں ابلاغ عامہ میں خبر بنانے کا ایک اصول پڑھایا جاتا ہے جسے انگریزی میں proximity کہتے ہیں۔ مجھے اس کا اردو مترادف معلوم نہیں ۔ مراد اس سے یہ ہوتی ہے کہ جائے وقوعہ خبر بنانے والے اور پڑھنے والے سے کتنے فاصلے پہ ہے۔بعض اوقات کسی بہت چھوٹے سے قصبے میں کوئی جان لیوا حادثہ وہاں کے مقامیوں کے لئے بہت اندوہناک ہوتا ہے اور مقامی اخباروں میں سرخی لگ جاتی ہے لیکن یہی اندوہناک خبر شہر کے کسی بڑے اخبار میں اندرونی صفحات میں کسی کونے میں جگہ پاتی ہے کیونکہ شہر کے قاری کو اس بات سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی کہ اس کے مضافات کے کسی اندرونی محلے پہ کیا قیامت بیت گئی ہے۔شہر سے کاندھا ملائے کسی گاوں میں کسی کچے گھر کا بارش میں گرجانا ہم شہریوں کے لئے کوئی خبر نہیں ہے۔ پڑوس کے گھر میں ڈکیتی البتہ میرے لئے باعث تشویش واقعہ ہے کیونکہ اگلا شکار میرا گھر ہوسکتا ہے۔یہ تو چھوٹی مثالیں ہیں ، کراچی پورے تیس سال ہر روز کس قیامت سے گزرتا رہا ، اس کا اندازہ لاہور میں بیٹھے کسی صحافی کو نہیں ہوتا تھا۔ گلستان جوہر کے کسی چوراہے پہ پڑی بوری بند لاش برنس روڈ کی بوری بند لاش کی رشتہ دار نہیں ہوتی تھی لیکن خبر دونوں کی صفحہ اول پہ لگتی تھی۔یہی خبر لاہور ایڈیشن میں بیک پیج پہ کسی کونے میں نظر آجاتی تھی۔ یہی صحافت ہے اور صحافت کا یہ بنیادی اصول فطرت پہ استوار ہے۔ ہم اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات سے متاثر اسی ترتیب سے ہوتے ہیں۔ پہلے خاندان، پھر محلہ پھر قصبہ شہر ملک اور پھر پوری دنیا۔ لبرل ازم کے طفیل دنیا کو آزاد معیشت اور آزاد میڈیا کے ذریعے گلوبل ولیج بنا دینے کے باوجود انسانی نفسیات بدلی نہیں جاسکی۔وہ آج بھی اپنے لوگوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ہماری سیاست آج تک اس جنجال سے نہیں نکل سکی۔ ذات پات برادری اور عقیدے کی بنیاد پہ آج بھی ووٹ لئے اور دیے جاتے ہیں۔ کچھ سیانی برادریاں ملک میں موجود بڑی پارٹیوں میں اپنے خاندان تقسیم کرلیتی ہیں اور موج کرتی ہیں۔ایک برادری کا ووٹ کئی پارٹیوں میں صرف ذات کی بنیاد پہ تقسیم ہوجاتا ہے۔یہ تو خیر انتخابی سائنس ہے جو الگ موضوع ہے۔ میں نے عالمی سیاسیات پہ بہت کچھ لکھا۔ آج بھی میرے پاس لکھنے کے لئے کم سے کم چار عالمی نوعیت کے موضوعات ہیں جن میں مجھے فطری دلچسپی بھی ہے اور میرا ذہن ان کے لئے تیار بھی ہے۔ مسلسل عالمی سیاسیات کے ان گرما گرم موضوعات کا تعاقب کرتے رہنے کی وجہ سے مجھے ان پہ لکھنے کے لئے کوئی خاص تیاری نہیں کرنی پڑتی۔ذہن اور کی بورڈ دونوں ان موضوعات پہ رواں ہیں۔ میرے قارئین کا ایک قابل قدر حلقہ مجھے ان موضوعات پہ لکھتے دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ انہیں اس میں دلچسپی ہے اور وہ مختلف موضوعات پہ میری رائے جاننے کے متمنی بھی رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی ایک ٹھوس رائے رکھتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو میرے تجزئیے کا انتظار کرتے ہیں۔جب میں اپنے اس زمرہ کے کالم فیس بک پہ اپ لوڈ کرتی ہوں تو ایک دلچسپ منظر دیکھنے میں آتا ہے۔ ظاہر ہے پاکستانی ہونے کے ناتے میرے قارئین مختلف سیاسی رجحان رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کومیری ایک خاص سیاسی جماعت سے ذہنی اور جذباتی وابستگی ایک آنکھ نہیں بھاتی لیکن جب بات عالمی سیاست کی ہو تو وہ سارے اختلافات بھلا کر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور میرے سیاسی خیالات سے قطع نظر وہ میرے ان تجزیوں سے اتفاق بھی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ساد ہ سی ہے۔ ایک تو یہ کہ انہیں ان موضوعات میں اتنی دلچسپی ہے کہ وہ سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ دوسرے انہیں علم ہے کہ عالمی تجزئیے بھگارتے وقت ان کے سامنے کسی سیاسی جماعت سے وابستہ کوئی شخصیت نہیں بلکہ وسیع کینوس پہ سوچنے اور لکھنے والا ایسا ذہن ہے جس پہ وہ اس معاملے میں بھروسہ کرسکتے ہیں کیونکہ یہاں کسی کے سیاسی مفادات نہیں ہیں۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقامی سیاست پہ بات کرتے وقت میں نے کبھی حقائق نگاری میں ڈنڈی ماری ہے لیکن رجحان اور وابستگی اکثر آپ کو حق بات کہنے سے روکتے ہیں یا کم سے کم اسے توڑ مروڑ دیتے ہیں۔اگر آپ ایک ناظر یا قاری کی نفسیات سے اس بات کو دیکھنا چاہیں تو خود کو اس کی جگہ پہ رکھ کر دیکھیں۔آپ کو خود محسوس ہوگا کہ جہاں لکھنے والے یا دکھانے والے کا مفاد وابستہ ہے وہاں اس نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ عالمی موضوعات میں چونکہ مفادات کا مارجن لوکل مارکیٹ میں بہت ہی کم ہوتا ہے اس لئے یہاں یہ شبہ بھی کم ہوتا ہے کہ لکھنے والے نے خیانت کی ہوگی۔ یہاں آپ کو یہ بھی سمجھ آرہا ہوگا کہ پاکستانی میڈیا پہ عالمی موضوعات کا اتنا فقدان کیوں ہے۔ عالمی سیاست پہ بے لاگ تبصرے کرنے والوں کی کھپت کیوں نہیں ہے۔ کیوں کھمبیوں کی طرح اگے چینلوں اور اخباروں پہ ہر وقت چار بزرگ اور ایک دوشیزہ (یہ ترکیب الٹ ہوتی تو کیا ہی خوب تھا) بیٹھے دو یا تین سیاسی جماعتوں کی اندرونی سیاست پہ بھی دانش بھگار رہے ہوتے ہیں۔ کچھ عبقری چند قدم آگے بڑھ کر ایک سیاسی رہنما کی چارپائی تلے دفتر کھول لیتے ہیں او ر اس کے کاندھوں پہ تعینات کراما کاتبین کا فرض اپنے ناتواں کاندھوں پہ اٹھا لیتے ہیں۔غالبا قبروں میں منکر نکیر کا فرض بھی یہی نبھائیں گے۔پھر آپ دیکھتے ہیں کہ خبر کیسے بکتی ہے اور کیا خوب بکتی ہے۔بات ساری ترجیحات کی ہے۔ لکھنے والے کی ترجیح اور پڑھنے والے کی بھی۔ دیکھنے والے کی بھی اور دکھانے والے کی بھی۔آپ کیا دکھانا چاہتے ہیں یہ اس پہ منحصر ہے کہ آپ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور آپ کیا دیکھنا چاہتے ہیں اس کا فیصلہ دکھانے والے اپنے مفادات کے مطابق کریں گے۔ یہی وجہ ہے آج میں نے ایرانی سپہ سالار کے چالیس سال بعد پاکستان میں آمد کا موضوع ایک طرف رکھ دیا۔صدر ٹرمپ اور صدر پوٹن کی ملاقات کا موضوع بھی جانے دیا۔ بریگزٹ پہ تھریسا مے کی مشکلات کا ذکر بھی نہ کیا۔ آئرلینڈ کے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا بھی خیال نہ کیا جو دراصل ہمیں کرنا تھا۔ترکی میں معروف اور متنازعہ اسکالر ہارون یحیی کی سنسنی خیز گرفتاری کو بھی ایک طرف ڈال دیا۔ ترکی میں ہی طیب اردوان کے حلف اٹھانے کے بعد کے اقدامات سے بھی صرف نظر کیا۔مزید برآں اپنے پسندیدہ موضوع ارض شام میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھی نظریں چرا لیں۔ مجھے کیونکہ علم ہے کہ انتخابات کے اس گرما گر م بھاپ اڑاتے ماحول میں کس کو ان موضوعات میں دلچسپی ہوگی؟ میں نے فیصلہ کیا کہ وہ لکھوں جو آپ پڑھنا چاہتے ہیں۔ اور میں نے وہی کیا۔ یہاں proximity کا اصول مناسب طور پہ لاگو ہوتا ہے کیونکہ میرا قاری ان موضوعات سے فی الحال ذہنی طور پہ دور ہوگیا ہے اور محل وقوع کے اعتبار سے تو وہ ہے ہی فاصلے پہ۔آج میں آسمان کی خبر لاوں تو زمین پہ بیٹھا میرا قاری مجھ سے اتنا ہی دور ہوجائے گا۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔ پھر میڈیا کو کیا ہوا کہ جس وقت وہ عدالت سے سزایافتہ مجرموں کی لندن روانگی سے پاکستان آمد تک ایک ایک جنبش دکھانے کے لئے اتاولا ہورہا تھا،جہاں اس کی رسائی بھی نہ تھی، بلوچستان ایک خون آشام سانحے سے گزررہا تھا جہاں نہایت آسانی سے میڈیا کی رسائی ہو سکتی تھی۔شاید proximity کے اصول کے ہر زاویے سے مستونگ ابو ظہبی سے بہت دور تھا۔ سراج رئیسانی اور سینکڑوں پاکستانیوں کے خون کی کھربوں کرپشن کرنے والے وی وی آئی پی مجرم اور اس کی معاون دختر کی واپسی کے مقابلے میں میڈیا کے نزدیک کیا حیثیت تھی۔جس وقت مستونگ لہو کی بارش میں نہایا ہوا تھا ، میڈیا پہ بیٹھے جغادری یہ اندازے لگا رہے تھے کہ ابوظہبی سے اڑنے والے جہاز میں کیا ہوراہوگا۔ جب یہ سواری باد بہاری لاہور ائیرپورٹ پہ اترے گی تو کیا سماں ہوگا۔ ووٹ کو عزت دینے کے نعرے سے متاثرووٹر مجرموں کے استقبا ل کے لئے تمام رکاوٹیں عبور کرکے جمع ہونگے یا اپنے گھروں پہ سستاتے یہی تجزئیے سنتے اور جمائیاں لیتے رہیں گے۔آخر کیا ہوگا جب وہ جہاز سے باہر پہلا قدم رکھیں گے؟ دختر نیک اختر کے نازک ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالی جائیں گی تو پہلے دائیں ہاتھ میں ڈالی جائیں گی یا اس نحس گھڑی کا مہورت بائیں ہاتھ سے نکالا جائے گا۔ سابق وزیر اعظم کی شلوار اور دختر اعظم کی لپ اسٹک کی کریز تو ٹھیک بنی ہے جہاں ایک مسلسل مسکراہٹ چسپاں ہے؟یہ مسکراہٹ تب بھی قائم رہے گی جب وہ خصوصی طیارے میں سات سال قید کاٹنے کے لئے اپنا پہلا قدم دھریں گی؟یہ اور ایسے ہی کتنے اہم سوالات تھے جو نکالے، کریدے اور پیدا کیے جارہے تھے ۔ ادھر مستونگ ہماری proximity سے بہت دور تھا ۔ میڈیا نے تو بس وہی دکھایا جو ہم دیکھنا چاہتے تھے۔