اسلام آباد کے نجی ہوٹل کے سبزہ زار پر ہونے والی تقریب کا سب سے خوبصورت حصہ وہ تھا جب پاکستان او ر ترکی کے ترانے بجائے گئے۔ دور پار سے آنے والے ترک مہمان بھی احتراما کھڑے ہوگئے اورباادب کھڑے پاکستانی میزبانوں کے ہاتھ بھی احتراما سینے پر آگئے ۔میرے لئے یہ سب خوشگوار حیرت کا سامان لئے ہوئے تھاکہ آ ج کل توسرکاری تقریبات میں بھی قومی ترانے کا اہتمام خال خال ہوتا ہے اسلام آباد میں گزشتہ دنوں بڑے اہم سمینار ہوئے ہیں لیکن کسی ایک میں بھی پاک سرزمین شاد باد کے قومی کلمات سننے کو نہیں ملے یہ تو پھر ایک نجی تعلیمی ادارے رفاہ یونیورسٹی کی تقریب تھی جس میں ترکی کے پرائیویٹ ہیلتھ سیکٹر کے بڑے ادارے میڈیکل پارک کے ساتھ مفاہمتی یاداشت پر دستخط کئے جانے تھے ،میڈیکل پارک پرائیویٹ سیکٹر میں سترہ ہسپتالوں اور 6000ڈاکٹروں ،پیرا میڈیکل سٹاف کے ساتھ ترکی کا سب سے بڑا گروپ ہے جواسلام آباد کی رفاہ یونیورسٹی کے ساتھ تحقیق کے تبادلے کا معاہدہ کرنے چلا تھا ۔تقریب میں ترک سفیر احسان مصطفٰی بھی دوڑتے بھاگتے شریک ہوئے وہ کہیں مصروف تھے اور بمشکل وقت نکال کر پہنچے تھے۔ احسان مصطفٰی دانشور قسم کے ذہین نوجوان ہیں پاکستان اور ترکی کے تعلقات کے حوالے سے کسی بھی شعبے پر بات کر لیجئے اعداد وشمار انکی انگلیوں پر ہوتے ہیں ،مفاہمتی یاداشت پر دستخط کے بعد میں نے عرض کیا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان علمی، تحقیقی سطح پر تعاون کس حد تک ممکن ہے؟ میرا اشارہ دونوں برادر ملکوں کے درمیان زبان کی رکاوٹ کے حوالے سے تھا، ترکی میں چوں کہ ترک رہتے ہیں اس لئے وہاں ترکی ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے انہوں نے اپنی زبان پر اعتماد کیا، اسے اٹھاکر طاق میں رکھا نہ انگریزی یا فرانسیسی کو خوش آمدیدکہا۔ ترکی نے جرمنی،چین ،فرانس کی طرح ثابت کیا کہ ترقی مادری زبان ہی میں ہوتی ہے ۔میرے سوال پر ترک سفیرنے بے ساختہ کہا صرف تعلیم ہی کیوں دونوں برادر ممالک بہت سے شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں اورآگے بڑھ رہے ہیں ،تعلیمی میدان میں ہمارے درمیان پہلے ہی سے تعاون موجود ہے ہزاروں پاکستانی وہاں سکالر شپ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ ترک سفیرکے لہجے میں فخر ،مسرت اور بے تکلفی تھی ،ترک کوئی بھی ہو پاکستانیوں سے ایسے ہی آسانی اور محبت سے ملتا ہے لیکن مجھے احسان مصطفی اداس کرگیا مجھے چار برس پہلے استنبول کے علاقے فاتحی میں عمرفاروق کورکماز سے ہونے والی ملاقات یاد آگئی ،خبیب فاؤنڈیشن کے برادر ندیم کے رابطے سے ہونے والی اس ملاقات میں فاروق کورکمازپاکستان کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے میرے سامنے اپنا بازو سیدھا کیاا ور کہا میں ترک ہوں لیکن مجھ میں لہو پاکستان کا ہے ،وہ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے فارغ التحصیل تھے ،وہ مارگلہ کے پہاڑو ں کے ساتھ بنے کویت ہاسٹل میں بیتے شب و روز یاد کرنے لگے ۔اپنے اساتذہ کا ذکر کرنے لگے اور پھر شکوہ کرتے ہوئے بولے ’’اسلامی یونیورسٹی کا مقصد ہی یہی تھا کہ اسلامی ممالک کے طلباء کو ایک چھت تلے جمع کیا جائے انہیں مربوط کیا جائے، معاف کیجئے گا پاکستان نے یہ کام چھوڑ دیا اورپھر ہم نے شروع کر دیا ۔آج استنبول میں آپ کو پاکستان سے لے کر آذربائیجان تک کے طلباء ملیں گے۔ آپکو یہاں استنبول کی سڑکوں پر افریقی نوجوان ملیں گے ،بنگلہ دیش بھارت کے طالب علم دکھائی دیں گے ۔ فاروق کورکماز جو کچھ کہہ رہے تھے وہ میں نے استنبول میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ترک حکومت کالجوں یونیورسٹیوں ہی کے لئے نہیں بلکہ سکولوں کی سطح پر بھی سکالر شپس دیتی ہے ’’امام خطیب سکول سسٹم‘‘ میں جانے کون کون سے ملک کے بچے مل جائیںگے۔ ترکی میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ غیر ملکی طلباء موجود ہیں یہ سب اپنے اپنے ملک میں ترکی کے تاحیات سفیر بننے جارہے ہیں جیسے عمر فاروق کورکماز،برہان قایا ترک اورعلی شاہین جو اسلامی یونیورسٹی سے پڑھے او ر پھر ترک سیاست میں حصہ لے کر پارلیمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ترک حکومت اور مختلف اداروں میں پاکستان سے فیض اٹھانے والے طلباء اہم پوسٹوں پرذمہ داریاں ادا کررہے ہیں ۔انقرہ میں ترک خبر رساں ادارے انادولو جانا ہوا مجھے اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب عمر توکاف صاحب نے سلام کے بعد اردو میں ہمارا حال پوچھا میں ابھی حیرت کے اس جھٹکے سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ ایک اورسوٹڈ بوٹڈ سرخ و سپید فربہی مائل ترک مسکراتے ہوئے آئے اور گرمجوشی سے ملنے لگے میں ان کا نام بھول رہا ہوں یہ انادولومیں کسی شعبے کے انچارج تھے یہ نہ صرف اردو بول رہے تھے بلکہ جب انہیں میرے کوہاٹ سے تعلق کا پتہ چلا تو مجھ سے پشتو میں حال احوال کرنے لگے۔ حیرت کا یہ سلسلہ یہیں نہیں تھماشام کو ہم عمر توکاف صاحب کے صاف ستھرے فلیٹ پر پہنچے تووہاں آنے والا ڈائریکٹر اوقاف کسی پشتون کی طرح اردو بول رہا تھا ترکی میں ترکوں کی میزبانی میں ہونے والی وہ مجلس مکمل طور پر اردو میں تھی جس میں عمر توکاف نے ہماری ٹرکی پلاؤ سے مہمان داری کی۔ یہ سب اس ’’انوسٹمنٹ ‘‘ کا ثمر تھا جو جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر خورشید احمد کے دیئے گئے آئیڈیئے پراسلامی یونیورسٹی بنا کر کی گئی ۔آج اسلامی یونیورسٹی کے یہ ترک طالب علم دنیا میں پاکستان کے سفیر ہیں ،اردو سنتے ہی ان کی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے ،پاکستان کا نا م سنتے ہی ان کے لبوں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگتی ہے یہ وہ سرمایہ کاری ہے جو عمر بھر پھل دیتی ہے اوراس میں گھاٹے کا امکان اعشاریہ صفر فیصد سے بھی کم ہے۔ تقریب میں میڈیکل پارک کی بزنس ڈائریکٹر مس سماکا عتراف دل کو یک گونہ اطمینا ن دلا نے کے لئے کافی تھا ۔وہ کہہ رہی تھیں کہ دنیا میں پاکستانی ڈاکٹروں کا نام ہے یہ اس فیلڈ میں نمایاں ہیں بخدا جی چاہا کہ یہ الفاظ کسی طرح میرے ہاتھ آجائیں۔ میں انہیں لے کر بنی گالہ پہنچ جاؤں ۔وزیر اعظم کے سامنے رکھ دوں کہ اک اسلامی میڈیکل یونیورسٹی کا سنگ بنیاد ہی رکھ دیں ۔طب کی فیلڈ بہت بڑی ہیدنیا کھنچی چلی آئے گی اور جویہاں پانچ سال پڑھ کر جائے گا وہ پچاس سال تک یہاں کا چائے پراٹھا بھولے گا نہ پاکستان کا پیار !