تا دم تحریر جی ٹی روڈ گزشتہ کئی دنوں سے بند ہے۔کالعدم تحریک لبیک کے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لیے جگہ جگہ خندقیں کھودی گئیں۔ ہزاروں پولیس اور رینجرز اہلکار تعینات ہیں۔ عام شہری پریشان ہے۔ ایک تو ناموس رسالت کا معاملہ اتنا حساس اور سنجیدہ ہے کہ ہر دل میں ہیجان ہے، ایک بے قراری ہے اور دوسری جانب ٹریفک میں رکاوٹوں نے زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ بچے سکول نہیں جا سکتے، کاروبار بند ہیں، زندگی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ ٹی وی لگائیں تو متضاد بیانات نہ صرف کنفیوژن پھیلا رہے ہیں، بلکہ جذبات کو ٹھیس بھی پہنچاتے ہیں۔ معاملہ ایک معاہدے پر عمل درآمد کا تھا جوحکومت نے کالعدم تحریک لبیک سے کیا۔ جس کا اعلان پہلے گورنر ہا ؤ س لاہور میں کیا گیا اور پھر دوسری دفعہ جب حکومت نے عمل درآمد کے لیے دو ماہ کا وقت مانگا تو محترم وزیراعظم صاحب نے خود نیشنل ٹی وی پر آکر اس کا اعلان کیا۔ بعد میں نجانے کیوں حکومت اس وعدے سے پھر گئی اور ان کے لیڈرکو گرفتار کر لیا گیا۔ ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے، املاک کا نقصان ہوا، کئی جانیں گئیں۔ تحریک لبیک کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ سینکڑوں کارکنوں کو فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا۔ عدالتی جنگ شروع ہوئی۔ سعد رضوی پہلے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ ان کی نظر بندی غیر قانونی تھی۔ پنجاب حکومت کے یہ اقدامات بدنیتی پر مبنی تھے۔ لیکن حکومت بضد رہی اور سعد رضوی رہا نہ ہوئے۔ حکومت کی ہٹ دھرمی اور وزیراعظم عمران خان کا فیصلہ کہ سعد رضوی کو رہا نہیں کیا جائے گا ،موجودہ بحران کی وجہ بنا۔ تحریک لبیک کا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت اپنے معاہدے پر عمل درآمد کرے، سعد رضوی اور دوسرے گرفتار کارکنوں کو رہا کرے۔ فورتھ شیڈول سے نام نکالے، تحریک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لے اور فرانسیسی سفیر کی ملک بدری پر قومی اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد پر بحث اور رائے شماری کروائے۔ معاملہ صرف معاہدے پر عمل درآمد کا ہے۔ کوئی حکومتی رٹ کو چیلنج نہیں کر رہا۔ کوئی عمران خان صاحب کی حکومت کو نہیں ڈرا رہا۔ بظاہر اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس دھرنے کے پیچھے ہے۔ حکومتی عمائدین بار بار کہہ رہے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک صفحے پر ہیں۔ مظاہرین کو طاقت کی بجائے مذاکرات سے منتشر کرنے کی تجویز پر وزیراعظم کا اظہار آمادگی خوش آئند تھا۔ لیکن اس سارے بحران میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ حکومت میں فیصلہ سازی کا عمل درست نہیں ہے۔و زراء کے متضاد بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔صورتحال اتنی گھمبیر ہو گئی کہ علماء کے وفد نے جب وزیراعظم صاحب سے ملاقات کی تو وہاں موجود ایک وفاقی وزیر اور سینئر بیوروکریٹ کو کمرے سے جانے کا کہا گیا۔ وزیراعظم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنے ان دو ساتھیوں کو باہر بھیجتے۔ میٹنگ میں ایک اور وفاقی وزیر کے بیانات پر انگلی کا اشارہ کرتے کہا گیا کہ ان کو سخت زبان کے استعمال سے روکیں کیونکہ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے اور گفتگو انتہائی نامناسب ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ میٹنگ کے بعد وزیر صاحب کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی گریز کیا گیا۔ بعض لبرلز نے معاملہ کو مزید الجھا دیا۔ ان کا کہنا کہ یہ جتھے اسٹیبلشمنٹ کے ہیں اور حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں، حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ آئینے میں آج ذرا ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تحریک لبیک کے قیام کا تعلق پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کی جیل میں آسیہ بی بی سے ملاقات سے ہے۔ آسیہ بی بی کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے الزام میں سزا ہوئی تھی۔ مجھے یہ بتائیں کہ پنجاب کی جیلوں میں ہزاروں قیدی موجود تھے گورنر صاحب اور کتنے سزا یافتگان کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ اور پھر وہاں ملاقات کے بعد صحافیوں سے ایک ایسی غیر ذمہ دارانہ گفتگو، جس سے دل مجروح ہوں، کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور کیا یہ سب انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کیا تھا۔ذرا اس پر بھی غور کریں کہ پنجاب کی جیلوں میں ہزاروں قیدی سزائے موت کا انتظار کر رہے ہیں، فوری طور پر ممتاز قادری کو پھانسی پر چڑھانے کی کیا جلدی تھی۔ ایک نہایت حساس معاملہ تھا اگر ممتاز قادری کی سزا پر عمل درآمد موخر ہو جاتا تو اس سے پاکستان کو کیا نقصان ہوتا۔ کیا اْن کی پھانسی کے فیصلے پر عمل درآمد اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہوا تھا؟ ہمارے سیاستدان اپنی حکمرانی کو مضبوط رکھنے کے لیے اور اقتدار میں آنے کے لیے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش میں نجانے کیا کچھ کرتے ہیں۔ ممتاز قادری والے معاملے کو بھی مغربی ممالک کی خوشنودی کیلئے اور یہ ثابت کرنے کیلئے کہ ہم بہت آزاد خیال اور مغرب کے نزدیک ہیں مس ہینڈل کیا گیا۔ آج معاملہ حکومت کی وعدہ خلافی کی وجہ سے بگڑا ہے اور اس صورتحال سے نکلنے کے لیے حکومت کو ہی اپنے اقدامات پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اس سارے معاملے کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پیدا کرنے کی بات محض اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی ایک ایسی کوشش ہے جس نے پاکستان کی سلامتی کو خطرات کے سامنے پھینک دیا ہے۔ احتجاجی ہجوم کو روکنے کے لیے رینجرز اور ہمارے سکیورٹی کے دیگر اداروں کو استعمال کرنا ایک خطرناک کھیل ہے۔ مسئلے کا حل گولی نہیں، وعدہ وفائی ہے۔ تحریک لبیک کا قیام ایک ری ایکشن ہے۔ ہمارے قومی سیاست دانوں اور قومی سیاسی جماعتوں کی منافقانہ پالیسیاں عوام کو مجبور کرتی رہیں گی کہ عوام اپنے لیے نیا راستہ چنیں۔ آج لبیک کے معاملے پر تمام بڑی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور تحریک انصاف میں ایک خاموش اتحاد ہے کہ اس جماعت کو کالعدم ہی رہنا چاہئیے۔ 2018 کے انتخابات میں 23 لاکھ ووٹ لینے والی جماعت جس کے ایک عام سے کارکن نے لیاری میں بلاول بھٹو کو شکست دی ہو ان تمام جماعتوں کے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ بن سکتی ہے۔