اگلے روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک اور وفاقی حکومت نے تمام طرح کی کریپٹو کرنسیوں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کریپٹو کرنسیاںآن لائن ‘خودکار‘ غیر روائتی کرنسیاں ہیں جن پر کسی مرکزی بینک کا کنٹرول نہیں۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے سات دیگر ممالک بشمول چین اور سعودی عرب بھی اس کرنسی پر پابندی لگا چکے ہیں۔ اس سے پہلے یہ خبر آئی تھی کہ کریپٹو کرنسی کا کاروبار کرنے والی ملکی کمپنیوں نے پاکستانی شہریوں سے سترہ ارب روپے کا فراڈ کیا ہے۔ ایک اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کے امیر لوگوں نے کریپٹو کرنسیوں میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ تخمینہ شائد مبالغہ آمیز ہو لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ لوگوں نے بڑے پیمانے پر کریپٹو کرنسیاں خریدی ہوئی ہیں۔ دنیا کا عالمی مالیاتی ‘ فنانشل نظام پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم ایک ایسے عہد میںرہ رہے ہیں جسے فنانشل سرمایہ داری کہا جاتا ہے۔ یعنی زراعت اور صنعت کے ساتھ ساتھ فنانس ‘ مالیات کا غلبہ ہے۔ اصل میں ایک امریکی ڈالر موجود ہے لیکن کاروبارچارڈالر کا ہورہا ہے۔ یہ خیالی ڈالر دنیا کی تجارت ‘ کاروبار ‘ بینکنگ اور سرمایہ کاری کو کنٹرو ل کرتے ہیں۔ امریکہ نے جتنے ڈالر چھاپے ہوئے ہیں ان کا نصف یا دو تہائی ملک سے باہر دوسرے ملکوں میں گردش کررہے ہوتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ برس مارچ میں امریکہ کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کے مطابق 5,800 ارب ڈالرچھاپے ہوئے تھے لیکن دنیا میں 19,900 ڈالر کا کاروبار ہورہا تھا۔ اب ایک نئی پیچیدگی نے جنم لیا ہے کہ الیکٹرانک دور میں کرنسی ڈیجیٹل ہوگئی ہے۔ ممالک اپنی اپنی کرنسیوں کا ڈیجیٹل متبادل بنا رہے ہیں۔ ڈیجیٹل کریپٹو کرنسیاں وجود میں آچکی ہیں ۔ایک طرح سے سرمایہ کاروں کے آن لائن نیٹ ورک ہیں۔ یہ ایسی کرنسیاںہیں جن کے ماں باپ کا پتہ نہیں۔ لیکن دنیا نے انہیں قبول کرلیا ہے۔ ان میں لین دین کیا جاسکتا ہے۔ خرید و فروخت کی جاسکتی ہے۔ ان کے عوض دنیا کی کوئی اور کرنسی خریدی جاسکتی ہے۔ جس چیز کو بڑے پیمانے پر ایک معیار تسلیم کرلیا جائے اس کی قدر مستحکم ہوجاتی ہے۔ان میں سب سے مشہور بٹ کوائن ہے۔ دیکھا جائے تو نوٹ بھی ایک کاغذ ہے لیکن اسکی قدر کو دنیا نے تسلیم کرلیا اس لیے اسکی ویلیو بن گئی۔ روائتی مالیاتی ماہرین نے کریپٹو کرنسیوں کی بڑی مخالفت کی لیکن یہ مقبول ہوتی گئیں۔ کئی برس سے کریپٹو کرنسیوں میںکاروبار کھربوں ڈالر مالیت تک جا پہنچا ہے۔ اچانک حکمرانوں کو محسوس ہوا کہ اس سے ملکوں کی معیشت متاثر ہورہی ہے۔ حکومتی مالیاتی نظام پر ان کا اثر پڑ رہا ہے۔ حکومتوں کی گرفت کمزورہو جائے گی اور مالیات آزاد منڈی کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے جن کی کوئی ملکی سرحدیں نہیں ۔ گزشتہ برس چین نے ملک کے اندرکریپٹو کرنسی کے استعمال پر پابندی لگا دی ۔اس پابندی سے پہلے چین میں ایک مشہور کریپٹو کرنسی بٹ کوائن کی ڈیجیٹل طریقہ سے دو تہائی پیداوار (مائننگ) کی جارہی تھی۔ اب روسی حکام بھی کریپٹو کرنسی کے استعمال پر مکمل پابندی لگانے کی تیاریاںکررہے ہیں۔ حال میں روس کے مرکزی بینک نے میوچل فنڈز پر کریپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری پر پابندی لگادی ہے۔اس نیسٹاک مارکیٹ میں ایسی کمپنیاں درج ( لسٹ) کرنے پر پابندی لگا دی ہے جو ڈھکے چھپے انداز میں کریپٹو کرنسیوں کے اثاثوں کا کاروبار کرتی ہیں۔ انڈیا نے بھی کریپٹو کرنسی پر کچھ پابندیاں لگائی ہیں۔ تاہم انڈیا میں محدود پیمانے پر کریپٹو کرنسی کے استعمال کی اجازت ہے۔ کریپٹو کرنسیوں کی مقبولیت دیکھتے ہوئے ان کے مقابلہ میں دنیا کے ممالک نے اپنی اپنی ڈیجیٹل کرنسیاں متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ چین اور انڈیا کے مرکزی بینک اپنی اپنی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرواچکے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ دنیا میں بینکوں کے درمیان رقوم کی منتقلی کے نظام پرامریکہ کی اجارہ داری کمزور پڑ جائے گی۔اس خطرہ کے پیش نظرکہ امریکہ روس پر ملکوں کے درمیان رقوم کی منتقلی کے نظام سویفٹ کے استعمال پر پابندی لگاسکتا ہے اور اس کے بینکوں کو عالمی فنانشل نظام سے کاٹا جاسکتا ہے ماسکو نے متبادل عالمی بینکنگ کا نظام بنانے پر کام تیز کردیا ہے۔ روسی حکومت اپنے مرکزی بینک کی ڈیجیٹل کرنسی بنارہی ہے تاکہ اگر پابندی لگے تو وہ عالمی سطح پر اپنا کام جاری رکھ سکیں ۔سیوفٹ نظام امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔اگر امریکہ روس کو اس نظام کو استعمال کرنے سے روک دے تو روس کے بینکوں کے پاس زرمبادلہ نہیں آئے گا۔ انہیں ڈالر‘ یورو اور چینی کرنسی ین تک رسائی نہیں ہوگی۔ رُوس کے مرکزی بینک نے ڈیجیٹل کرنسی کا پروٹو ٹائپ تیار کرلیا ہے اور جلد اس کا آزمائشی بنیادوں پر استعمال شروع کرے گا۔ اس سال کے وسط تک بینک آف رشیا کریڈٹ اورکرنسی ایکسچینج کا کام کرنے والے اداروں کو ڈیجیٹل نیٹ ورک سے منسلک کرنے کا کام شروع کردے گا۔ مرکزی بینک روسی کرنسی یعنی ڈیجیٹل رُوبل متعارف کروائے گا جسے دنیا کی دوسری کرنسیوں جیسے ڈالر وغیرہ میں تبدیل کروایا جاسکے گا۔ غیر ملکیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ روائتی کرنسی کی بجائے ڈیجیٹل رُوبل استعمال کریں۔چین کی الیکٹرانک کرنسی کے نظام کو ’ای سی این وائے ‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کا مقصدعالمی بینکنگ نہیں ہے بلکہ ’اَلی پے‘ اور ’وی چیٹ پے‘ کے ذریعے ادائیگی کو کنٹرول کرنا ہے۔ چینی کمپنیاں دنیامیںآن لائن کاروبار پر چھائی ہوئی ہیں اور ’الی پے‘ اور ’وی چیٹ پے‘ کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کرتی ہیں۔ چین کے دو صوبے ہانگ کانگ اور ماکو کاروبار کے بڑے مراکز ہیں۔ چین کے باقی علاقوں اور ان صوبوں کے درمیان رقوم کی سہل منتقلی کے لیے چین نے اپنی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروائی ہے۔ دنیا کا مالیاتی نظام جس سمت میںآگے بڑھ رہا ہے‘ پاکستان کو بھی جلد اپنی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروانا پڑے گی۔ کریپٹو کرنسی پر پابندیاں شائد جزوی طور پر کامیاب ہوجائیں لیکن ان کا محدود استعمال تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں روکا نہیں جاسکتا۔ ٭٭٭٭٭