منصوبہ سازوں کو پورا حق ہے کہ وہ کب کون سا منصوبہ واپس لے لیں، کب کس میں ترمیم کردیں، تیز رفتار تبدیلیوں کا دور ہے۔ جنوبی صوبہ محاذ کا منصوبہ تو ابتدا ہی میں ترک کردیا گیا تھا کہ سروے رپورٹوں نے فائدے کے بجائے خسارے کی اطلاع دی تھی۔ اب خدا جانے سچ ہے یا جھوٹ یا ففٹی ففٹی والا معاملہ ہے، کچھ نئی قسم کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ اطلاع ’’سیکنڈ ہینڈ‘‘ ہے یعنی بنیادی ماخذ ایک ایسے صاحب ہیں جن کی رسائی عالم ملکوت تک ہے اور ان صاحب تک جن کی رسائی ہے، یہ اطلاع ان سے ملی ہے۔ فرمایا ہے کہ ’’اوریجنل‘‘ کوٹے میں خان صاحب کے لیے ستر سیٹیں قومی اسمبلی مختص کی گئی تھیں، اب ترمیم ہوئی ہے اور اس تعداد میں معتدبہ کمی کردی گئی ہے کیونکہ اب کچھ یوں طے ہوا ہے کہ معقول گنتی میں سیٹیں جیپ والے چودھری کو دی جائیں گی۔ سنجرانی ماڈل کی شکل میں بھی ردوبدل کیا گیا ہے۔ صدر تو وہی ہوں گے جن کی مدد سے سنجرانی ماڈل بلوچستان اور پھر سینٹ میں نافذ کیا گیا تھا یعنی وہی جو دوسروں سے زیادہ خود اپنی پارٹی پر بھاری رہے۔ وزیراعظم کے لیے بلوچستان سے کوئی نمونہ مستعار لینے کے بجائے اب یہ طے ہوا ہے کہ یہ منصب جیپ والے چودھری کو دیا جائے گا۔ خان صاحب کی تالیف قلب کے لیے وفاقی کابینہ میں ان کے وزیروں کی تعداد سب سے زیادہ رکھی جائے گی۔ زرداری صاحب نے بھی تصدیق مکرر کی ہے کہ وزیراعظم سنجرانی ماڈل سے ہو سکتا ہے اور سنجرانی تو کسی بھی صوبے کسی بھی علاقے سے ہوسکتا ہے۔ یہ منصوبہ اگر سچ ہے تو سوال ہے، کیا خان صاحب کی تالیف قلبی ہو جائے گی؟ شاید نہ ہو سکے لیکن ان کے پاس ’’چوائس‘‘ بھی تو کوئی نہیں ہے۔ پہلے بھی وہ اپنی چوائس پر کہاں تھے، جو رہنما خطوط انہیں وٹس ایپ پر آتے تھے انہی پر چلتے تھے۔ دھرنا دینے سے تو رہے۔ شاید راضی برضا ہو کر اپنی خانقاہ بنی گالہ میں روحانی امور کے لیے مختص ہو جائیں۔ جنات کو ہر روز گوشت ڈالنے کا کام بھی تو ایک دلچسپ، پرلطف مشغلہ ہے جسے ہمہ وقتی مصروفیت کے طور پر بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ جیپ والے چودھری صاحب وزیراعظم ہو گئے تو ان کا وزیر خزانہ کون ہوگا، ذرا اندازہ لگائیے؟ ہوسکتا ہے زرداری صاحب یہ منصب ڈاکٹر عاصم کو دلوانے کی سفارشیں کریں۔ کیا جیپ والے چودھری صاحب ان کی فرمائش نظرانداز کرسکتے ہیں؟ سوچئے، اس لیے کہ وہ زرداری صاحب ہیں، نوازشریف نہیں، وہ چودھری صاحب کو ’’شفایاب‘‘ کرنے کے نسخے نوازشریف سے کہیں بڑھ کر جانتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ اپنے انتخابی دوروں میں جیپ والے چودھری صاحب نے ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے دلچسپ بات کی۔ فرمایا، گدھے کو وزیراعظم بنا دو تو بھی وہ گدھا ہی رہے گا۔ یہ بات غالباً انہوں نے کوٹے اورمنصوبے میں حالیہ ترامیم سے پہلے کہی ہوگی، بہرحال، اس بات کا خوب چرچا ہے۔ ٭٭٭٭٭ جنرل مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت پاکستان میں لبرل ڈیموکریسی کو مسلط کرنے کے لیے سرگرم کوششیں ہورہی ہیں اور اس میں نواز لیگ رکاوٹ ہے۔ ایک اخباری انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کے لیے ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے اور یہاں ایسے حکمران لائے جائیں گے جن کا اسلام اور پاکستاان سے کوئی نظریاتی تعلق ہی نہ ہو۔ ٭٭٭٭٭ بین الاقوامی ایجنڈا یعنی عالمی اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ۔ بظاہر اس عالمی اسٹیبلشمنٹ میں چین شامل نہیں۔ اس لیے کہ نواز حکومت کے خلاف عالمی ایجنڈا تبھی حرکت میں آیا جب سی پیک کا معاہدہ ہوا اور پھر شنگھائی تعاون کونسل میں پاکستان کی شمولیت کے فیصلے نے تو گویا صبر کی حد ہی توڑ دی چنانچہ عالمی اسٹیبشلمنٹ کوپانامہ پلان بنانا پڑا، ایسا پلان جس پر عملدرآمد کی رفتار نے تیز رفتاری کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ اور انوکھی بات یہ ہے کہ لبرل ازم لانے کے لیے اہل مذہب کا بھی کیسا خوبصورت اور سلیقہ مند استعمال کیا گیا۔ اگرچہ بعدازاں بے صبری نے بے سلیقگی کا عنصر بڑھا دیا۔ سوویت یونین کے ایک کمیونسٹ رہنما ٹراٹسکی تھے، بعد میں معتوب قرار پائے، کہا گیا کہ وہ کمیونزم کے دشمن اورسامراجی ایجنٹ ہیں اور کمیونسٹ کے بھیس میں کمیونزم کو تباہ کر رہے ہیں۔ ان پر لگائی جانے والی تہمت ایک تاریخی پروورب بن گئی۔ کہا گیا، ٹراٹسکی کا فارمولا ہے کہ لال جھنڈے کو لال جھنڈے سے مارو۔ یہ تہمت سچ تھی یا نہیں، الگ بات ہے لیکن اہل ایمان کا صفایا اہل ایمان کے ذریعے کرو والی بات ضرور سچ ہے اور ٹراٹسکی کے پیدا ہونے سے بھی پہلے کی سچ ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کا اصل لشکر مسلمان تھا اگرچہ ہندوئوں کی معقول تعداد بھی اس میں شریک تھی۔ پھرانہی مجاہدین آزادی کے خلاف اہل ایمان سے کفر کے فتوے لیے گئے، بدلے میں مفتیان کو جاگیریں دی گئیں، وہ جاگیریں جو آج تک پاکستان کے کندھوں پر پیران تسمہ پا بن کر براجمان ہیں اور ان کے بوجھ سے آزادی کے ستر سال بعد بھی ملک ٹیک آف نہیں کرسکا۔ بنگلہ دیش بعد میں بنا، وہ ٹیک آف کر گیا اور کہاں پہنچ گیا، ہمارا ’’گردشی چکر‘‘ ویسے کا ویسا ہی چل رہا ہے۔ کیا عالمی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے کوبے بس ووٹر ناکام بنا سکتے ہیں؟ دیکھنے کی بات ہے۔ ٭٭٭٭٭ سندھ بار کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ گمشدہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ کونسل نے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ حملہ آور افراد کے ہاتھوں شہریوں کا لاپتہ ہونا جمہوری نظام پر بدنما داغ ہے۔ سچ یہ ہے کہ لاپتہ افراد کوئی ’’ایشو‘‘ ہے ہی نہیں۔دیکھ لیجئے، پاکستان کی کوئی بھی سیاسی اورمذہبی جماعت، پیپلزپارٹی سے لے کر مسلم لیگ ن تک، جے یو آئی سے لے کر جماعت اسلامی تک، اس مسئلے کا کبھی ذکر تک نہیں کرتی۔ اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی اس بات کی کہ یہ کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنے نئے منشور میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا وعدہ کیا ہے لیکن یہ وہ خانہ پری ہے جو کئی نان ایشوز پر کی جاتی ہے۔ پارٹی میں کچھ لوگ ازقسم رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر یہ مسئلہ گاہے گاہے اٹھاتے رہتے ہیں لیکن ظاہر ہے، یہ ان کی انفرادی اور ذاتی رائے ہے، پیپلزپارٹی یا کسی اور جماعت کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ لاپتہ افراد کا ایشو کشمیر ایشو کی طرح لاپتہ ہو چکا ہے اور اس کا کریڈٹ نوازشریف کو جاتا ہے جنہوں نے لاپتہ کمیشن کی سربراہی کے لیے جاوید اقبال کا حسن انتخاب کیا۔ جاوید اقبال کی سنہری خدمات تاریخ میں طلائی الفاظ سے لکھی جائیں گی۔ موصوف نے جس حوالے یہ ایشو لاپتہ کرنے کی ذمہ داری نبھائی، شاید کوئی اور اس طرح سے نہ نبھا سکتا۔ ٭٭٭٭٭ رپورٹ ہے کہ الیکشن کمشن اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا پارہا۔ ایک سیاسی جماعت کو جس طرح سے ’’بوری بند‘‘ کیا جارہا ہے، اس کا کوئی نوٹس بھی نہیں لے رہا۔ یہ بوری بند جماعت الیکشن کمشن سے بار بار فریاد کرتی ہے، جواب میں یہ شعر گونجتا ہے ؎ معذرت! میں تو کسی اور کے مصرف میں ہوں ڈھونڈ دیتا ہوں مگر کوئی تمہارے لائق (اگر کوئی ملا تو)