بجٹ میں ایکسپورٹ ریفنڈ کی ادائیگی کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے نہ صرف حکومت کی نااہلی واضح ہوتی ہے بلکہ بد نیتی بھی نظر آتی ہے۔ اعلان یہ کیا گیا ہے کہ سیلزٹیکس کے جو ریفنڈ کلیم پچھلے سالوں میں فائل کئے گئے اور یکم جولائی 2018کو ابھی زیرِ التوا ہونگے انکی ادائیگی ایک سال کے اندر مرحلہ وار کی جائے گی۔ اور جو کلیم یکم جولائی 2018کے بعد فائل کئے جائیں گے انکی ادائیگی ہر ماہ کی جائے گی۔ یعنی ایک تو اس نا اہلی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا گیا کہ پچھلے کلیم ابھی تک زیرِ التوا کیوں ہیں اور دوسرے نئی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ پچھلے کلیم بھی ادا کرے اور نئے بھی ہر ماہ ادا کرے۔ یعنی سیلز ٹیکس کی نیٹ وصولی میں کمی کا ملبہ نئی حکومت کے سر پر پڑے۔ بجٹ میں یہ نوید سنائی گئی ہے کہ ن لیگ حکومت نے پچھلے پانچ سال میں بجلی کی پیداوار میں 12300 میگاواٹ کا اضافہ کرکے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پاکستان کا ہر عام شہری اِس وقت بھی لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے کیوں گزر رہا ہے؟ اور جیسے جیسے گرمی زیادہ ہوتی جا رہی ہے اسکا عذاب سنگین ترکیوں ہوتا جا رہا ہے ؟ بجٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ مجموعی زرعی پیداوار میں 3.8 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ پچھلے کئی سالوں میں سب سے زیادہ ہے ۔ اس حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے یہ نوبت آئی کہ کسانوں نے تین مرتبہ اپنی اجناس کو پنجاب اسمبلی کے سامنے لاکر آگ لگائی۔ اس پس منظر میں پیداوار میں شرح نمو میں اضافے کا دعویٰ کھوکھلا لگتا ہے۔ گزشتہ تین سال سے آلو کے کاشتکاروں کو ناقابلِ برداشت نقصان ہوتا آرہا ہے۔ اس بجٹ میں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آلو کی برآمد ات کے فروغ کیلئے کرائے میں سبسڈی دی جائے گی جس کی تفصیلات ابھی طے ہونی ہیں۔ اسی طرح تمام کھادوں پر سیلز ٹیکس کم کرکے دو فیصد کر دیا گیا ہے ۔ یہ فیصلے چار پانچ سال پہلے کیوں نہ کئے گئے؟ کیا کسانوں کا بھرکس نکال کر ہی یہ سب کچھ کرنا تھا ؟ وزیرِ خزانہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ کاشتکاروں کیلئے بجلی کا رعائتی ٹیرف جاری رہے گا۔ زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی پانچ روپے فی یونٹ دی جارہی ہے ۔ اسکے مقابلے میں بھارت اپنے کاشتکاروں کو بجلی بالکل مفت یا تقریباً مفت مہیا کررہا ہے۔ وہاں مختلف کھادوں کی قیمت بھی پاکستان کی نسبت دو سو سے تین سو فیصد کم ہیں ۔ پھر ہمارا کاشتکار بھارتی کاشتکار کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ اس بجٹ میں بڑے فخریہ انداز میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں بہت اضافہ ہو ا ہے لیکن یہ نہیں بتایاگیا کہ یہ سرمایہ کاری کس نے کی ہے اور کہاں کی ہے ؟ ایک اندازے کے مطابق اس سرمایہ کاری کا تقریباً نوے فیصد حصہ تو سی پیک (CPEC) میں چین کی سرمایہ کاری ہے جو چین بنیادی طور پر گوادر پورٹ تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کررہا ہے۔ چینی سرمایہ کار مرکزی حکومت کی کرپشن سے ایڈجسٹ کر چکے ہیں۔ بقیہ دس فیصد ایسی سرمایہ کاری ہے جس کا ملک کو کوئی ٹھوس فائدہ نہیں۔ اس سال ہمارا کرنٹ اکاوئنٹ خسارہ بلندترین ہوا یعنی بارہ ارب ڈالر ‘ لیکن وزیرِ خزانہ نے اس بات کو بھی ایسے کیموفلاج (camouflage) کر کے پیش کیا ہے کہ سننے والے کو نہ تو درآمدات کے بڑھنے کا دکھ ہوتا ہے اور نہ برآمدات کے کم ہونے کا غم ہوتا ہے اور نہ ہی اس بات کا ملال ہوتا ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائرخطرناک حد تک گر گئے ہیں۔ اس وقت ہماری معیشت کی سب سے خوفناک حقیقت یہ ہے کہ ہم پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ستر سال میں سب سے زیادہ ہے۔ اگر اس میں بجلی کے معاملے میں پیدا ہونے والے گردشی قرضے کو شامل کر لیا جائے تو صورتِ حال اور بھی سنگین ہو جاتی ہے لیکن اس بات کو بھی بجٹ میں بڑے خوبصورت انداز سے گول کر دیا گیا ہے۔ یہ فنکاری بہت اعلیٰ درجے کی ہے ۔ لیکن یہ ہمیں بچا نہیں سکتی۔ اگرکبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلے تو بلی سے بچ نہیں سکتا۔ عرصہ دراز سے ہر حکومت اپنی بساط کے مطابق یہ کوشش کرتی رہی کہ معیشت کو زیادہ سے زیادہ دستاویزی (Documented) کیا جائے۔ اسی لئے کچھ سال پہلے نان فائلرز کیلئے بنک سے پیسے نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد کردی گئی تھی تاکہ انکو انکم ٹیکس نیٹ میں آنے پر راغب کیا جائے۔ لیکن اس بجٹ میں اس شرح کو کم کرکے 0.4 فیصد کردیا گیا ہے جو کہ پیچھے کی طرف ایک قدم ہے۔ حکومت نے غلط سمت میں کیوں چلنا شروع کردیا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ کارپوریٹ سیکٹر پر انکم ٹیکس کی شرح کم کردی گئی ہے جو کہ قطعی غیر ضروری تھا اس لئے کہ ایک تو کمپنیاں اور بنک بہت کمائی کرتے ہیں دوسرے ان میں مفصل ریکارڈ کیپنگ کی وجہ سے ٹیکس چوری کا امکان کم ہوتا ہے۔ اس غیر ضروری اقدام سے ن لیگ نے آنے والی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ یہ بات بھی مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف کارپوریٹ سیکٹر پربنیادی انکم ٹیکس کی شرح کم کی گئی ہے اور دوسری طرف سپر ٹیکس یعنی اضافی انکم ٹیکس کو قائم رکھا گیا ہے ۔اگر کارپوریٹ سیکٹر پر مجموعی ٹیکس میں کمی کرنی مقصود تھی تو سپر ٹیکس کو ختم کردیا جاتا اور اس طرح ٹیکس سٹرکچر کی پیچیدگی بھی کم ہوتی جو کہ ہر حکومت کی ترجیح ہوتی ہے۔ اسی طرح افراد پر ٹیکس کے استثنیٰ کی حدچار لاکھ روپے سالانہ سے بارہ لاکھ روپے سالانہ کردی ہے۔ اس سے ٹیکس گزاروں کی تعداد میں بڑی کمی ہو گی لیکن حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے گا۔ بظاہر ان دونوں باتوں میں ایک تضاد نظر آتا ہے۔ اگر حکومت کوٹھیوں اور کاروں کو نقظہ آغاز بناکر چندہزارافراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں کامیاب ہو بھی گئی تو دوسری طرف لاکھوں ٹیکس دہندگان ‘ استثنیٰ کی حدبڑھ جانے کی وجہ سے ٹیکس نیٹ سے نکل جائیں گے۔ یہ بھی ہماری خوش نصیبی ہے کہ پانچ سال حکومت کرنے کے بعد ہماری حکومت پر بالاخر یہ آشکار ہو ہی گیا ہے کہ ہمارے 39 فیصد بچے غذائی قلت (Malnutrition) کے باعث ناقص نشوو نما یعنی Stunted growth کا شکار ہیں۔ اسکا تدارک کرنے کیلئے حکومت نے ایک طرف دس ارب روپے کی رقم مختص کی ہے اور دوسری طرف ایسی مشینری پر عائد تین فیصد ڈیوٹی ختم کردی ہے جو آٹے میں صحت افزا اجزا (Micronutrients)مکس کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں: نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی بہت دیر کی مہرباں آتے آتے