رات گئے، پہلی حج پرواز پی اے 476 کو، عمائدین ِ حکومت اور اعیانِ سلطنت کے ہمراہ لاہور ایئرپورٹ سے مدینہ المنورہ کے لیے الوداع کہنے کی سعادت میسر آئی، "کوویڈ19 "سے انسانیت کو چھٹکارا نصیب ہوا،اور حج کی رونقیں اگرچہ محدود سطح پر ہی سہی، لیکن بحال تو ہوئیں، جس کے مطابق، سعودی حکام نے امسال دس لاکھ افراد کو حج کی اجازت دینے کا اعلان کیا، جن میں 85فیصد غیرملکی، جبکہ 15 فیصد مقامی عازمین شامل ہوں گے، سب سے زیادہ عازمین حج انڈونیشیا سے، جن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ جبکہ دوسرے نمبر پاکستان ہے، جس کا حج کوٹہ اکاسی ہزار ایک سو، بیاسی افراد پر محیط ہے۔ بھارت کا کوٹہ تقریبا ً80 ہزار جبکہ بنگلہ دیش کا 57ہزار، 585 افراد پر مشتمل ہے۔ ان عازمین کے لیے کچھ پابندیاں بھی ہیں۔جس کے مطابق 65 سال تک کی عمر کے ویکسین شدہ افراد، جنہیں سفر سے 72گھنٹے پہلے تک کا، منفی کرونا پی سی آر ٹیسٹ جمع کروانا ہوگا۔بہر حال حجاج کے وداع و روانگی کا یہ اہتمام، ہماری دینی اور تہذیبی روایت کا ایک اہم جزو ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ،جب ریلوے اسٹیشنوں سے حجاج کرام "رخصت"ہوتے اور برادری اور قریہ و کوچہ کے پیر و جواں، انہیں الوداع کہنے، دور تک ہمراہ آنے کو اعزاز اور برکت جانتے، از خود میرے والدِ گرامی ،اللہ انکے درجات کو مزیدبلند فرمائے،نصف صدی قبل 1971ء میں پہلی مرتبہ حج کے لیے روانہ ہوئے، تو پوری بس پر مشتمل معتقدین کا قافلہ لاہور تک ہمراہ ھوا، پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا، جب حجازِ مقدس روانگی کے لیے، حجاج کے قافلے ،بسوں کے ذریعے،خشکی کے راستے، کوئٹہ سے ایران کا بارڈرعبور کرتے ہوئے روانہ ہوئے، شدید سردی کے ان ایام میں، سردترین علاقوں سے ہوتے ہوئے، بسوں کے یہ قافلے، راستے میں مختلف زیارات سے بھرہ منداور سفری صعوبتوں سے نبردآزما ہوتے ہوئے آگے بڑھے۔ ایران کے بعض علاقوں میں سردی اس قدر شدید تھی کہ بسیں سٹارٹ ہونے کا نام نہ لیتیں۔ان کے نیچے سفر سٹوپ اورہیٹروغیرہ سے انہیں گرمائش دینے کا اہتمام ہوتا۔بَرّی راستے سے،یہ ایک طرفہ سفر پندرہ روز میں مکمل ہوا۔ والدِ گرامی (اللہ تعالیٰ اْن کی قبر کو نور سے بھردے) کی خیریت بذریعہ تار یا مراسلہ، پہنچتی، ان کے احباب اور عقیدت مند جمع ہو جاتے، بلند آواز میں خط پڑھا جاتا، فرداًفرداً سلام و دعا کا اہتمام متعلقین و متوسلین کو شاد کام کردیتا۔ میرے ذہن میں ان کی روانگی اور واپسی کے لمحوں کی یادیں اور نقش آج بھی محفوظ ہیں،دسمبر 1971ء کی سہ پہر، جامعہ اشرفیہ سے یہ قافلہ روانہ اور پھر پورے دو ماہ کے بعد یہیں پر واپس لنگر انداز ہوا۔ اس وقت مسلم ٹاؤن کے اس علاقے میں آبادی اور ٹریفک کا ایسا دباؤ نہ تھا۔خشکی کے راستے سرکاری حج سکیم کے ذریعے قافلوں کی ترسیل کا غالباً یہ پہلا اور آخری موقعہ تھا، سردتر اوردشوارترین راستوں سے نبردآزمااور عہدہ براں ہونے کے لیے، ہمارا انفراسٹرکچر اور ہیومین ریسورس، شاید جیسا ہونا چاہیے تھا، ویسا نہ تھا، چنانچہ اس تجربے کو دوبارہ نہ کیئے جانے ہی میں عافیت جانی گئی۔ 1922ء میں شائع شدہ تصنیف "پیام مشرق"میں "نغمہ سار بان حجاز" کے عنوان سے ایک فارسی نظم ہے جس کے مطابق اقبال ؒ اونٹنی پر سوار ہو کر حرمین شریفین جار ہے ہیں۔یہی ان کا اصل وطن ہے۔ تمام نظم جو نہایت خوش آہنگ ہے، اونٹنی کو خطاب ہے۔ اونٹنی یہاں محض ایک استعارہے۔ اقبال ؒ دراصل اپنی روح سے مخاطب ہیں کہ وہ جلد حرمین شریفین پہنچ کر سجدہ ریز ہو۔ اقبال یہی روح پیکر امت میں بھی پھونکنا چاہتے ہیں۔ اس دلآویز نظم کے چند آخری اشعار یوں ہیں: شام تو اندر یمن/صبح تو اندر قرن/ریگ دردشت وطن /پائے ترا یاسمن/اے چو غزال ختن تیز تر گام زن منزل مادور نیست: یعنی تو شام کے وقت یمن میں ہے اور صبح کے وقت قرن میں ہے۔ تیرے پاؤں میں وطن کی ریت چنبیلی کے پھولوں کی طرح ہے۔ تو غزال ختن ہے۔ ذرا تیز چل ہماری منزل دور نہیں۔ چاند تمام رات سفر کرکے تھک گیا ہے۔ وہ ریت کے ٹیلے کے پیچھے آرام کر نے لگا ہے۔ مشرق سے صبح کی روشنیاں پھوٹ رہی ہیں۔ رات کے پردے چاک ہوگئے ہیں۔ صحرا کی ہوا چلنے لگی ہے۔ تو ذرا تیز چل ہماری منزل دور نہیں۔ میرا نغمہ دل انگیز ہے۔ اس کا آہنگ روح پرور ہے۔ قافلوں کو بیدا ر کرنے والا ہے۔ ہنگامہ خیز اور انقلاب انگیز ہے۔ اے کہ تجھے حرم پاک میں پہنچ کر سجدہ کرنا ہے، ذرا تیز چل ہماری منزل دور نہیں ہے۔ اقبالؒ کو مدینہ منورہ کی خاک دونوں جہان سے زیادہ عزیزہے۔ اس لیے کہ محبوب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا وطن ہے: خاک یثرب از دو عالم خوشتر است اے خنک شہر ے کہ آنجا دلبر است حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے اقبال ؒ کا ایمان ہے کہ نبی کریم صلواۃ اللہ علیہ زندہ ہیں۔انہوں نے ایک خط میں لکھا:"میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریمؐ زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی اسی طرح مستفیض ہوسکتے ہیں جس طرح صحابہ ہوا کرتے تھے۔" اقبال کا دل حجاز سے ہے اس لیے ان کی آرزو ہے کہ وہ حجاز ہی میں وفات پائیں اور یہ بھی آرزو ہے کہ ان کی قبر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہ دیوا ر میں ہو۔اقبالؒ کا عقیدہ ہے کہ ہمارا انفرادی وجود اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ لیکن ہمارا ملی وجود محبو ب حجازی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی مساعی جمیلہ کا مرہون منت ہے۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے نتیجہ میں دنیا کے مسلمان ایک ملت ہیں: دل بہ محبوب حجازی بستہ ایم زیں جہت بایک دگر پیوستہ ایم مندرجہ ذیل شعر میں اپنا تعارف کراتے ہیں: تنم گلے ز خیابان جنت کشمیر دل از حریم حجاز و نوز شیراز است میں کشمیری نژاد اور فارسی زبان ہوں لیکن میرا دل حریم حجاز سے ہے۔ چونکہ دل حجاز سے ہے لہٰذا وہ اصلاًحجاز ی ہے باقی نسبتیں فروعی ہیں۔ عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری اقبال ؒ اپنے فرزندعزیزجاوید کو فقر حجازی حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس فقر کو پاکر انسان دنیا و مافیھا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔فقر کو حجاز سے اس لیے منسوب کیا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقر کو اپنے لیے باعث فخر قرار دیا۔ الفقر فخری و الفقر منی، فقر کے معنی ناداری نہیں، بلکہ بے نیازی ہیں۔ چنانچہ اکثر صوفیہ اور خود اقبال ? اپنے آپ کو فقیر کہتے چلے آئے ہیں۔یعنی اللہ کے فقیر: ہمت ہو تو ڈھونڈ وہ فقر جس فقر کی اصل ھے حجازی اس فقر سے آدمی میں پیدا اللہ کی شان بے نیازی