مسلم لیگ(ن) کی اندرونی کشمکش اب ٹی وی چینلز کی سکرین اور اخبارات کے صفحات کی زینت بننے لگی ہے‘آف دی ریکارڈ کچھ نہیں رہا‘سب آن دی ریکارڈ ہے۔بقول محمد دین تاثیر ؎ حسن کے راز نہاں ‘شرح بیاں تک پہنچے بات چل نکلی ہے‘ اب دیکھیں کہاں تک پہنچے مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہباز شریف سے سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق‘سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر ملے‘بقول ایاز صادق ایک ماہ کے وقفے کے بعد ملاقات کا مقصد شہباز شریف سے عید ملنا‘خیریت دریافت کرنا تھا‘ مگر خبر یہ پھیلی کہ ہونہار بھتیجی سے ناراض چھوٹے میاں صاحب نے مسلم لیگ کی صدارت سے استعفیٰ دیدیا ہے اور تینوں راہنما انہیں منانے پہنچے ‘استعفے کی تردید کے لئے میاں شہباز شریف ٹی وی سکرین پر نمودار ہوئے‘خبر کو جعلی قرار دیا مگر مستعد اینکر سلیم صافی نے اگلوا ہی لیا کہ مسلم لیگ کا صدر اپنے برادر بزرگ ‘قائد محترم کے علاوہ نائب صدر بھتیجی کے بیانیے سے متفق نہیں‘2018ء کے قومی اور 2021ء کے آزادکشمیر انتخابات میں شکست کا سبب منظم دھاندلی یا مداخلت نہیں‘مزاحمتی بیانیہ تھاورنہ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم ہوتے‘یہ بتانا البتہ انہوں نے مناسب نہ سمجھا کہ سپریم کورٹ سے تاحیات نااہلی کے بعد میاں نواز شریف انتخاب کیسے لڑتے اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار کیسے بنتے ؟وہ جو کہتے ہیں’’رموز مملکت خویش ‘خسرواں دانند‘‘ اس ملک میں ’’سب چلتا ہے‘‘ تین بار کا وزیر اعظم چوتھی بار کیوں نہیں چل سکتا۔ بیانیے کی اس بحث کو طویل عرصہ تک مسلم لیگی قیادت جماعت کا اندرونی معاملہ قرار دیتی رہی مگر اب یہ اندر کی بات نہیں‘سردار ایاز صادق نے 92نیوز کے پروگرام ’’ہو کیا رہا ہے‘‘ میں تسلیم کیا کہ مسلم لیگ کو اعلیٰ سطح پر کسی ایک بیانیے یا دونوں کے ملاپ سے کسی متوازن و معتدل بیانیے کی طرف آنا ہو گا‘ورنہ نقصان بڑھے گا گویا ؎ دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے یہ صرف مسلم لیگ(ن) کا المیہ نہیں ‘باقی ساری سیاسی جماعتیں بھی موثر تنظیم سازی پر توجہ دیتی نہ دوران اقتدار اپنے نظریاتی کارکنوں کو گھاس ڈالتی ہیں۔ جب سیاست اور انتخاب میں دھن اور دھونس کا عمل دخل بڑھا اور پارٹی فنڈز کے نام پر اُمیدواروں سے کروڑوں روپے بٹورنے کا چلن عام ہوا‘ ایماندار نظریاتی کارکن ویسے ہی جنس عنقا ہے ‘الشاذ کالمعدوم‘ جماعت میں پذیرائی نہ عوام میں قبولیت۔2013ء کے انتخابات میں عمران خان نے مخلص اور پرجوش کارکنوں کو تھوک کے حساب سے ٹکٹ دیے‘ قوم کا ریسپانس مایوس کن رہا ‘پتہ چلا کہ الیکٹ ایبلز نامی مخلوق کے بغیر اقتدار کی گلی میں داخلہ ممنوع ہے‘تیسری بار اقتدار میں آنے سے قبل میاں نواز شریف فراغت کے دنوں میں مریم نواز کے ذریعے نظریاتی کارکنوں کی کھیپ تیار کرتے تو مزاحمتی بیانیے کی تکمیل میں مددگار ہوتے مگر چُوری کھانے والے مجنوئوں کی فوج ظفر موج تیار کرنے کے بعد میاں صاحب پاکستان کے فوج سمیت تمام طاقتور اداروں سے ٹکرانے اور مریم نواز کی جوشیلی تقریروں سے پہاڑوں کو موم کرنے کے درپے ہیں‘جس سے کوئی دوسرا درکنار میاں شہباز شریف سمیت مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما تک متفق نہیں‘ووٹر اور سپورٹر بے چارے کس شمار قطار میں۔ یہ معمولی بات سمجھنے کے لئے آئین سٹائن کا دماغ درکار نہیں کہ عام انتخابات کے دوران لوگ گھروں سے یہ سوچ کر نکلتے ہیں کہ جس امیدوار کو ووٹ دیں گے وہ ان کی زندگی میں آسودگی لائے گا‘گلی محلے کے دیرینہ مسائل حل کرنے کی تدبیر کرے گا اور کسی مشکل میں کام آئے گا‘ دیہات اور شہروں میں بھی ووٹروں کی اکثریت کا مطمح نظر یہی ہوتاہے۔ اُمیدوار اپنی انتخابی مہم پر لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ’’ووٹ کو عزت دینے‘‘ اور اسمبلیوں میں پہنچ کر اپوزیشن کی بنچوں پر بیٹھنے ‘پانچ سال تک حکومت کی انتقامی کارروائیوں ‘ووٹروں کی لعنت ملامت کا سامنا کرنے کے لئے خرچ نہیں کرتے‘معدودے چند نظریاتی لوگ صدق دل سے سول بالادستی کے لئے اپنا سب کچھ تج دینے پر آمادہ ہوں گے مگر وہ مسلم لیگ(ن) میں کہاں ہیں؟خود میاں صاحب یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ لوگوں نے نعرہ لگایا ’’نواز شریف قدم بڑھائو‘ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘میں نے قدم بڑھایا‘ پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا‘ 1999ء میں یہ تجربہ کرنے کے بعد میاں صاحب نے 2016-17ء میں ایک سچے مومن کی طرح پھر اس سوراخ میں انگلی ڈالی اور ڈسے گئے‘میاں شہباز شریف کا بیانیہ یہی نظر آتا ہے کہ بار بار ایک ہی سوراخ میں انگلی ڈالنے کے بجائے ہمیں ماضی سے سبق سیکھنے اور باز آنے کی ضرورت ہے‘تجربہ بھی کرنا ہے تو آزمودہ اور ناکام نہیں‘کچھ نیا‘کوئی انوکھاکریں۔ میاں شہباز شریف کے استعفے کی تردید ہو گئی‘اس جملے کی وضاحت نہیں ہوئی کہ اس بیانئے کے ساتھ آزاد کشمیر تو کیا ہم پنجاب میں نہیں جیت سکتے‘جہاندیدہ سرد و گرم چشیدہ ووٹرز اور الیکٹ ایبلز کو مسلم لیگی قیادت یہ یقین دلانے کے بعد کہ اقتدار میں آ کر وہ ایک بار پھر محاذ آرائی کا بازار گرم کرے گی اور جلد سے جلد ایوان اقتدار سے نکلنے کو ترجیح دے گی‘ کوئی انتخاب جیتنے کی امید فریب نفس کے سوا کچھ ہوتی تو چودھری نثار علی خاں تیس سال کی رفاقت کو خیر باد کہتے نہ میاں شہباز شریف گھر میں ؎ ارادے باندھتا ہوں‘سوچتا ہوں‘توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے‘کہیں ایسا نہ ہو جائے کی تصویر بنے نہ بیٹھے ہوتے ‘ ایک دوست بتا رہے تھے کہ میاں شہباز شریف کی مفاہمتی کوششیں کامیابی کا منہ اس لئے نہیں دیکھ رہیں کہ یار لوگ جب گارنٹی طلب کرتے ہیں تو چھوٹے میاں صاحب کے ساتھ کوئی نثار علی خاں نہیں ہوتا جس کا وقار و اعتبار ماضی میں شریف خاندان کا اثاثہ تھا۔کنفیوزڈ اور دھڑے بندی کا شکار مسلم لیگ(ن) حکومت کا مقابلہ کرے یا داخلی تضادات پر قابو پائے؟یہ وہ مخمصہ ہے جس سے نکل کر ہی ماضی کی حکمران جماعت اگلے انتخابات کا معرکہ سر کر سکتی ہے‘دو مخالف بیانیے ایک دوسرے میں کیسے ضم ہوں گے اور باہم مشاورت کے بغیر دلوں کی الجھنیں کیسے کم اور دور ہوں گی؟ یہ سوچنا ان کا کام ہے جو قیادت کے منصب پر فائز اور باردگر اقتدار کے طلب گار ہیں‘کارکن بے چارے تو پہلے بھی ’’میاں تیرے جاں نثار‘بے شمار‘بے شمار‘‘ کے نعرے لگاتے رہے ‘اب بھی لگا رہے ہیں اور آئندہ بھی لگاتے رہیں گے کہ مسلم لیگ‘پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت سیاسی جماعتوں کے مخلص کارکنوں کی قسمت میں یہی لکھا ہے۔