گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور، جہاں بابا گرونانک کی زندگی کے آخری ایام بسر ہوئے ،کے لیے ’’سونے کی پالکی‘‘ کے ساتھ سکھ یاتری ---ایسے خوشگوار موسم میں لاہور پہنچے ہیں ، جہاں حضرت میاں میرؒ کا6 39وا ں سالانہ عرس اپنے افتتاحی اور ابتدائی مرحلے میں ہے۔سکھوں کی مقدس کتاب ’’گرو گرنتھ‘‘ جسے سکھ مذہب میں زندہ گورو کا درجہ حاصل ہے ،کی جائے سکونت وآمد ورفت کے لیے از راہ ِعقیدت پالکی کا اہتمام، سکھ مذہب کی روایات کا حصہ ہے۔ چنانچہ دہلی گوردوارہ مینجمنٹ کمیٹی کے سابق سربراہ ،سردار پرن جیت سنگھ سرنا کی طرف سے گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور کے لیے ’’سونے کی پالکی ‘‘ کے اس تحفہ کے ساتھ سکھ یاتری آج یعنی 4نومبر2019ء کو کرتار پور پہنچیں گے ،جہاں اس کی تنصیب کی ایک پُر وقار تقریب منعقد ہوگی، ساگوان کی لکڑی سے تیار شدہ یہ پالکی جوکہ اڑھائی کلو سونے سے مرصع ہے، کا حجم 8فٹ x 4فٹ جبکہ اس کی بلندی بھی 8فٹ ہے ۔سردست 1246یاتریو ںکی لاہور آمدہوچکی ہے ،جبکہ 10,000یاتریوں کی آمد متوقع ہے جو ان ایام میں کرتار پور راہ داری کے افتتاح کے بعدبابا گورونانک جی کے 550ویں جنم دن کی تقریبات میں شامل ہوں گے ۔ یہ تقریبات 10تا12نومبر2019ء ننکانہ صاحب میںجاری رہیں گی ،جس میں مختلف رسومات کے علاوہ ’’ گوروگرنتھ‘‘ جوکہ 1430صفحات پر مشمل ہے ،کومکمل طور پر پڑھنے کا عمل، ان تین ایام میں مکمل ہوگا ۔ اس موقع کو یادگار بنانے کے لیے خصوصی ڈاک ٹکٹ اور50روپیہ کے سکے کے اجراء کے علاوہ، وزیر اعظم عمران خان ننکانہ صاحب میں گورونانک دیوجی یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھ چکے ہیں ۔اور اس موقع پر انہوں نے صوفیاء کی محبت آمیز اور روادارانہ تعلیما ت کی ترویج کے لیے بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ سمیت اکابر اولیاء اللہ کے مزارات سے متصل یونیورسٹیز اور تحقیقی اداروں کی تشکیل کا بطور خاص اعلان کیاہے ، قبل ازیں حضرت میاںمیر ؒ کے مزار سے ملحق 54کنال اراضی پر ’’پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن &سیرت سٹڈیز کی تشکیل روبہ عمل ہے ، جبکہ وزیر اعظم ہائوس میںبھی اس پر غور وخوض جا ری ہے ۔حکومت پاکستان کی طرف سے یہ اقدامات ایسے ماحول میں اُٹھائے جارہے ہیں ،جب بھارت کی طرف سے خطّے کی محبت آمیزفضا کو مجروح کرنے کی گھنائونی سازشیں ہورہی ہیں ،بطور خاص ’’سکھ مسلم تعلقات‘‘ کی اہم ترین روایات،جس میں گوروارجن کی حضرت میاںمیر ؒ سے عقیدت خاص طور پر شامل ہے ،کو بھارت کے موجودہ نصاب سے نکالا جارہاہے ،اور پھر دربار صاحب امرتسر کے سنگِ بنیاد کے لیے حضرت میاںمیرؒ کی امرتسر تشریف آوری ---جیسے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ہندو بنیئے کایہ تعصب کوئی نئی بات نہیں ‘قبل ازیں بھی ایسی ہی ہندو سازشوں کے نتیجہ میں‘ مغل حکمران اور آخری سکھ گروصاحبان میں کشیدگی کا ماحول بنا تھا‘ جس میں حضرت میاں میر ؒ نے سکھ مذہب کے اکابرین کے زخموں پر جس انداز میں مرہم رکھا ،وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ دراصل سکھ مذہب کا قیام ہی ہندو برہمنوں کی تنگ نظری کے خلاف ایک احتجاج کا نتیجہ تھا، جس سے آج بھی اس خطہ کے عوام کو واسطہ ہے۔بہرحال حکومت پاکستان کے موجودہ اقدامات یقینا لائق تحسین ہیں۔اس وقت لاہور اور بالخصوص حضرت میاں میرؒ کے مزار پر سکھوں کی حاضری سے ایک محبت آمیز فضا دیکھنے میں آرہی ہے۔اور انشا ء اللہ، کل حضرت میاں میرؒ کے سالانہ عرس کی چادرپوشی میں بھی سکھ برادری شریک ہوگی۔ دراصل تصوّف اور روحانیت وہ حُسن اور نور ہے جس سے جبینیں جگمگا اُٹھتی ہیں ،چہرے چمکتے ، کردار سنوارتے اور شاہراہِ حیات منوّر ہوجاتی ہے۔ یقینا جسم فانی اور روح ازلی وابدی حقیقت ہے ۔روح کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے محض جسمانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرداں رہنا دانش مندی نہیں ۔اصلی عظمت ورفعت "روحانی"ہے ۔جسے حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رضا میں ڈھل جائیں ۔ہمارے ممدوح حضرت میاں میر ؒ اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ ـ: i۔’’سالک کے لیے لازم ہے کہ وہ احکام شریعت کی مکمل طور پر متابعت کرے اور جب ان احکام کی تعمیل میں کامل ہوجائے تو پھر طریقت کی راہیں کھل جائیں گی اوراس کے نفس کی اصلاح ہو جائے گی ۔‘‘ ii۔سالک جب طریقت کے فرائض کی بجا آوری پوری تندہی سے کرے گا تو اس پر حقیقت کے تمام گوشے عیاں ہو جائیں گے ۔اس سے دل کی اصلاح ہو جائے گی اور بُری خصلتوں سے باطن پاک ہو جائے گا۔ iii۔سالک کے مذکورہ طریقوں پر پختہ ہونے سے ، دل کی آنکھوں سے بشریت کے پردے اُٹھ جائیں گے ، حقیقت کے معانی اس پر آشکار ہوں گے ۔جس کا تعلق روح کی اصلاح سے ہے ۔ یہی فلاح اور خیر کا راستہ ہے۔ امام غزالی ؒ ’’احیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں :’’ جب کوئی شخص ذکر خدا کو اپنا معمول بنا لیتا ہے تو رفتہ رفتہ اُسے بدی سے نفرت ہو جاتی ہے ،کوئی ترغیب اُسے مائل بہ گناہ نہیں کر سکتی ۔یہ وہ منزل ہے جہاں اللہ اس کے دل کو اپنی مٹھی میں لے لیتا ہے ۔وہ ماسواسے بے نیاز ہو جاتا ہے اور بعد از مرگ اس کی روح ایک زندہ وپابندہ قوّت بن جاتی ہے۔‘‘بہلول نے ایک عارف سے پوچھا کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں ؟ اس نے کہا دنیا میںہر بات میری خواہش کے مطابق ہورہی ہے ،اس لیے بہت خوش ہوں۔ پوچھا وہ کیسے ؟ آخر کوئی بات تو تمہاری مرضی کے خلاف ہوتی ہوگی ،کہاہرگز نہیں ، کیونکہ اللہ کی قضاء میری رضا ہے اور میں اس کے ہر فیصلے پر مسرو ر مطمئن رہتا ہوں ۔ اہل مغرب طویل عرصے تک با بعد الطبیعاتی سوچ بچار اور ماوراء النفسیاتی تحقیق وتفحص سے احتراز کرتے رہے ۔۔۔کہ ان کے نزدیک انسانی زندگی میںنہ کسی علیم وقدیر خدا کی گنجائش ہے ،نہ نبوت والہام کی ہدایت کا کوئی وزن۔۔۔نہ موت کے بعد کسی دوسری زندگی کا تصوّر ،نہ اعمال کے احتساب کا کھٹکا اور نہ زندگی کے حیوانی مقاصد سے بالا تر کسی اورمقصد یا نصیب العین کا امکان ۔۔۔۔مغرب کے اس فلسفۂ حیات نے اخلاق کو نفسانیت ،ریا ، خلاعت اور بے قیدی کے سانچے میں ڈال دیا۔معیشت پر خود غرضی اور انسانیت کشی کا شیطان مسلّط کردیا او رمعاشرت کی رگ رگ او رریشہ ریشہ میں نفس پرستی ،تن آسانی اور خود کامی کا زہراتا ر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بے یقینی اور عدم اطمینان کی کیفیت ہر انسان پر چھائی ہوئی ہے ۔ لوگ غمو ں سے دل گرفتہ اوردکھوں سے آزردہ ہیں ۔ انسان ،انسانوں کے جنگل میں بھی تنہا ،اور ہر مادی آسائش کے باوجود نا آسودہ ہے ۔ گوہرِ مقصود مفقود ہے ۔دامنِ دل بھی خالی اور سچی خوشی کا حصول بھی ناممکن ۔ اب انسان مادی آسائشوں اور آرائشوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک گیا ہے ۔موجودہ تہذیب میںسرعت سے پھیلنے والے اس سرطان کا علاج نہ مغرب کے دانشوروں کے پاس ہے اور نہ ماہرین کے پاس ، ان کے دکھوں کا مداوا ایک ایسا طریق معاشرت ہے ،جو روحانی قدروں اورانسانی جذبوں کا امین ہو ۔یہی وجہ ہے کہ آج یورپ کے مفکرین نے ظواہر یت کے مغالطوں کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اس کی سطحیت اور کھوکھلے پن سے بیزار ہونے لگے ہیں ۔یہ طلب ،تڑپ اور کسک ان کو تصوّف اور روحانیت سے آگاہی پرمائل کررہی ہے ۔آج اہلِ مغرب ’’رومی‘‘ کو اپنامعلم وبیشوا بنانے پر آمادہ ہوچکے ہیں کہ شاید اِسی سے ان کی شبِ تاریک سحر ہو سکے ۔