حج کے مناسک شروع ہو چکے ہیں‘کوویڈ کے سبب، حج کی ادائیگی کیلئے صرف 60ہزارسعودی مقیم خوش نصیبوں کاانتخاب عمل میں آیا،جن میں ایک بھارتی آئیل کنڑیکٹراوراسکی فیملی بھی شامل جبکہ اس کیلئے 5,58000درخواستیںسعودی حکومت کوموصول ہوئیں ،بہرحال۔۔۔۔ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے۔۔۔ آج وقوفِ عرفات۔۔۔مسجد نمرہ میں شیخ بلیلہ خطبۂ حج دیں گے‘وہ مقام۔۔۔جہاں آج سے 1432سال قبل‘پیغمبر انسانیت ﷺ نے اپنے آخری حج کے موقع پر‘وہ عظیم خطبہ ارشاد فرمایا ،جو قیامت تک انسانیت کے لئے منیارۂ نور اور بالخصوص کمزوروں‘ناتوانوں اور زیردستوں کے حقوق کا ضامن ہے۔ ہجرت کے بعد بنی رحمت گیارہ سال تک مدینہ منورہ میں سکونت فرما رہے‘اس عرصے میں آپ نے صرف ایک ہی حج ادا فرمایا‘ جو ’’حجتہ الوداع‘‘ کے نام سے موسوم ہوا‘اس سفر میں آپ نے مختلف مقامات پر جو خطبات و ارشادات عطا فرمائے‘ان میں صراحۃً بتا دیا کہ اس مقام پر میری تم سے یہ آخری ملاقات ہے‘ ان خطبوں میں آپ نے اْمت کو الوداعیہ پندونصائح اور احکام و ارشادات سے نوازا‘قرآن پاک کی سورہ المائدہ کی وہ عظیم آیت،جس میں انعامات و احسانات کے اتمام وکمال کا اعلان ہوا‘اسی موقع پر نازل ہوئی‘جسے دوسری اقوام وامم نے بصد حسرت و یاس سْنا اور حصول کی خواہش کی۔ ہجرت کے دسویں سال جب اسلام کی عظمت وسطوت کا پرچم جزیرہ عرب کے گوشے گوشے میں لہرانے لگا‘معبودان باطل ہمیشہ کیلئے ریزہ ریزہ ہو گئے‘کفر و شرک اور باطل روایات و شعائر کا خاتمہ کر دیا گیا‘مرد و زن کے برہنہ طواف پر پابندی عائد کر دی گئی‘چنانچہ ہادی برحق سنت ابراہیم کو اس کے اصل خطوط پر زندہ و تابندہ بلکہ بقائے دوام سے بہرہ مند کرنے‘ازخود حج کے قافلہ سالار ہوئے‘جس کا اعلان و اشتہار‘مژدہ جانفزا کی حیثیت کا حامل تھا‘قافلوں کے قافلے مدینہ پہنچے‘کوچہ و بازار بلکہ اردگرد کے کھلے میدان‘اللہ کے مہمانوں اور رسول اللہﷺ کے دیوانوں سے لبریز ہو گئے۔25ذی القعدہ‘ہفتہ کے روز نبی اکرمﷺ کی اقتدامیں یہ عظیم کاررواں مدینہ منورہ سے فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوا۔تمام ازدواج ِمطہرات کو اس سفر میں ہمرکابی کا اعزاز عطا ہوا‘اس سفر کو طے کرنے میں آٹھ یوم صرف ہوئے۔ اتوار4ذوالحجہ دس ھجری‘آنجناب علیہ الصلوۃ والسلام صحن کعبہ میں تشریف فرما ہوئے‘کعبہ مقدسہ پر نظر پڑی تو اللہ کی بارگاہ میں یوں دعا فرمائی: (ترجمہ)اے اللہ! اپنے گھر کے شرف کو‘اس کی عظمت کو ،اس کی ہیبت کو اور زیادہ بڑھا۔آٹھ ذی الحجہ کو مکہ سے چل کر منیٰ اور پھر اگلے روزیعنی آج کے دن،عرفات میں تشریف فرما ہوئے۔مسجد نمرہ کے پاس‘ایک خیمہ نصب ہوا۔ جب سورج ڈھل گیا تو اپنی ناقہ قصویٰ پر کجاوہ آراستہ کروایا‘اس پر جلوہ آرا ہو ئے،بطن وادی میں تشریف فرما کر،وہ عظیم خطبہ ارشاد فرمایا‘جس میں اسلام کی ساری تعلیمات کا خلاصہ بیان کر دیا‘زمانہ جاہلیت کی تمام رسم و رواج کو نیست و نابود‘عزت و حرمت کے پیمانوں کو دوام‘انسانی جان‘ انسانی مال اور آبرو کو تحفظ و استحکام اور معاشرتی اور معاشی پہلو کو تہہ و بالا کرنے والی رسومات کو کالعدم قرار دینے کے لئے،ان کی نظیر اپنے خاندان سے پیش کی۔یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے ہر خطے میں عورتوں کی حالت ازحد پسماندہ اور ناگفتہ بہہ تھی‘آپ نے عورتوں کے ساتھ بہترین سلوک کی وصیت فرمائی اور بتایا کہ کچھ حقوق شوہر کے اس کی بیوی پر ہیں۔اسی طرح کچھ حقوق بیوی کے اس کے شوہر پر ہیں‘دونوں پر لازم ہے کہ اپنے اپنے فرائض خوش دلی سے انجام دیں۔اس خطبہ میں نوع انسانی کے مختلف طبقات کے حقوق و فرائض کو جس طرح متعین کیا گیا وہ ملاحظہ ہوں: اے لوگو! تمہاری جانیں اور تمہارے اموال،تم پر عزت و حرمت والے ہیں۔یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو۔ یہ اس طرح ہی ہیں،جس طرح آج کا دن حرمت والاہے اور جس طرح تمہارا یہ مہینہ حرمت والا ہے اور جس طرح تمہارا یہ شہر حرمت والا ہے۔بیشک تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے۔ وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھاجا ئیگا۔ سنو!اللہ کا پیغام میں نے پہنچا دیا اور جس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہو۔اس پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچا دے۔سارا سود معاف ہے لیکن تمہارے لئے اصل زر ہے‘نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر کوئی ظلم کرے۔ اے لوگو!اللہ سے ڈرتے رہو‘میں تمہیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ تمہارے زیردست ہیں‘ وہ اپنے بارے میں کسی اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور اللہ کے نام کے ساتھ،وہ تم پر حلال ہوئی ہیں‘تمہارے ان پر حقوق ہیں اور ان کے تم پر حقوق ہیں‘تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر کی حرمت کو برقرار رکھیں اور ان پر یہ لازم ہے کہ وہ کھلی بے حیائی کاارتکاب نہ کریں‘ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو‘تو پھر اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کر دو اور انہیں بطور سزا تم مار سکتے ہو ‘ لیکن جو ضرب شدید نہ ہو۔ اگر وہ باز آ جائیں تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔ اے لوگو!میری بات غور سے سنو اور اس کو سمجھو تمہیں یہ چیز معلوم ہونی چاہیے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔کسی آدمی کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز ہے‘ بس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔ جان لو!کہ دل ان تینوں باتوں پر حسد و عناد نہیں کرتے: کسی عمل کو صرف اللہ کی رضا کے لئے کرنا، حاکم وقت کو ازراہ خیر خواہی نصیحت کرنا، مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ شامل رہنا۔بیشک ان کی دعوت ان لوگوں کو بھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے علاوہ ہیں۔جس کی نیت طلب دنیا ہو،اللہ تعالیٰ اس کے فقر و افلاس کو اس کی آنکھوں کے سامنے عیاں کر دیتا اور اس کے پیشہ کی آمدن کو منتشر کر دیتا ہے۔ اور نہیں حاصل ہوتا اس کو اس سے مگر اتنا،جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہو اور جس کی نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور اس کا پیشہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور دنیا اس کے پاس آتی ہے مگر اپنا ناک گھسیٹ کر۔ تمہارے غلام ، تمہارے غلام۔۔۔۔ جو تم خود کھاتے ہو وہ ان کو بھی کھلائو۔ جو تم خود پہنتے ہو ان سے‘ ان کو بھی پہنائو ،جس کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کر دو۔اے اللہ کے بندو!ان کوسزا نہ دو،میں پڑوسی کے بارے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں(یہ جملہ اتنی مرتبہ دھرایا گیا کہ صحابہؓ کو اندیشہ ہوا کہیں پڑوسی وراثت میں حصہ دار نہ بن جائے) اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لئے کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اپنے کسی وارث کے لئے وصیت کرے۔بیٹا‘بستر والے کا ہوتا ہے یعنی خاوند کا اور بدکار کے لئے پتھر ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے بغیر کسی طرف منسوب کرتا ہے، اس پر اللہ ‘فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو ،جو چیز کسی سے مانگ کر لو‘ اسے واپس کر دو۔ عطیہ ضرور واپس ہونا چاہیے اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرنا چاہیے اور جو ضامن ہو اس پر اس کی ضمانت ضروری ہے۔