تقریباًایک ماہ سے پورے ملک میں ایک نیم کرفیو کی صورتحال ہے۔لوگوں کی بڑی تعداد گھروں میں محصور ہے۔طویل لاک ڈاؤن ان کے اعصاب پر بھاری پڑ رہا ہے۔بہت سے لوگ کام کاج پر لوٹنا چاہتے ہیں۔ محنت مشقت کرکے اپنی روزی کمانا چاہتے ہیں۔ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ حکومت اب معاشی سرگرمیاںمکمل بحال کرنے کی اجازت دے۔ کورونا وبا نے اب تک پاکستان میں بڑے پیمانے پر نقصان نہیں پہنچایا۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کورونا سے بیمار ہونے والے لوگوں میں مرنے والوں کی شرح صرف ڈیڑھ فیصد ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو زیادہ عمر کے تھے یا انہیں پہلے سے کوئی بڑی بیماری لاحق تھی جواس وائرس کی وجہ سے پیچیدہ ہوگئی۔زیادہ تر لوگ جس طرح عام نزلہ زکام سے صحت یاب ہوجاتے ہیں اس طرح کورونا سے بھی شفایاب ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک کورونا وائرس پراچھی طرح قابو پانے کا تعلق ہے تو یہ اسوقت تک ممکن نہیں جب تک اس سے بچاؤ کی ویکسین بن کر عام استعمال میں نہیں آجاتی ۔ مستند ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کا یہی کہنا ہے کہ ویکسین بازار میں آنے میں ایک سے ڈیڑھ سال لگے گا۔ ابھی تو یہ بھی معلوم نہیں کہ جو لوگ کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد ٹھیک ہوجاتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے صحت یاب ہوجاتے ہیں یا انہیں دوبارہ بھی یہ انفیکشن لاحق ہوسکتا ہے۔ جنوبی کوریا سے خبریں آئی ہیں کہ وہاں بہت سے مریض ٹھیک ہوگئے ‘ انکا ٹیسٹ منفی آگیا لیکن کچھ دنوں کے بعد ان میں دوبارہ وائرس نکل آیا۔ جیسے اور بہت سے وائرس ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں کورونا بھی ہماری زندگیوں میں داخل ہوچکا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی بیماری زُکام کی ایک قسم ہے جواگرمریض کی قوتِ مدافعت کمزور ہو اورمرض بگڑ جائے تو زیادہ خطرناک ہوجاتی ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جن کے جسم میں کورونا وائرس موجود ہے لیکن ان کی مدافعت مضبوط ہونے کی وجہ سے ان میں علامات ظاہر نہیں ہورہیں۔ہمارے معاشی حالات میںتوممکن نہیں کہ کروڑوں لوگوں کے کورونا ٹیسٹ کیے جائیں۔ یہ کام تو امریکہ جیسا ملک نہیں کرسکا۔ اس وقت دیہات میں معمول کے مطابق کام کاج ‘ کاروبارِ حیات چل رہا ہے‘ وہاں کوئی وبا نہیں پھیلی۔ لیکن شہروں‘ قصبوں میں لوگوں کی اکثریت اپنے گھروں میں بند ہے۔ بیروزگاری پھیل گئی ہے۔ حکومت ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں تک تیزی سے امدادی رقوم پہنچا رہی ہے۔بعض نجی ادارے بھی ضرورت مند خاندانوں کی مدد کررہے ہیں۔ لیکن سفید پوش طبقہ جو نہ امداد مانگتا ہے نہ لینا چاہتا ہے وہ کام کاج اور کاروبار پر پابندیوں کی سختی محسوس کررہا ہے۔ ایک ہفتہ پہلے کچھ محدود تعداد میں کارخانوں‘ ملوں کو کھولنے کی اجازت دی گئی ہے ۔سندھ میں ماہی گیروں کو سمندرسے مچھلیاں پکڑنے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔تاہم ملک کا بیشتر کاروبار بند ہے۔بہت سے ہنرمند افراد پر سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا گیاتھا لیکن اسکا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ ملک میں تقریباًتیس لاکھ پرچون دکاندارہیں جن کی اکثریت روزی کمانے سے محروم ہوچکی ہے۔ ایک طبقہ سخت لاک ڈاؤن جاری رکھنے کا حامی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مزید ایک ماہ تک یہ پابندیاں قائم رہنی چاہئیں۔ دکانیں‘ صنعتیں‘ عبادت گاہیں مکمل بند رہیں۔ نقل و حمل بہت ہی کم ہو۔لوگ گھروں میں بیٹھیں۔ ان لوگوںکا موقف ہے کہ پاکستان میں کورونا وبا مئی کے آخر تک اپنے عروج پر پہنچے گی اور اگر اسے سماجی فاصلہ کے ذریعے نہ روکا گیاتو ملک میں لاکھوں لوگ بیمار ہوجائیں گے جنہیں ہمارے ملک کا صحت کا نظام سنبھال نہیں سکے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ لوگ گھر بیٹھ کر اس وبا سے بچنے کی کوشش کریں جیسا کہ اب تک کیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان کی اکثر آبادی اس پوزیشن میں ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر اپنے بنیادی اخراجات پورے کرسکے؟ کیا پاکستان کی ریاست کے اتنے وسائل ہیں کہ وہ کروڑوں لوگوں کو گھر بٹھا کر چند ماہ تک روٹی کھلا سکے؟ میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔پاکستان میںایک ماہ سے زیادہ طویل لاک ڈاؤ ن کرنا حقیقت پسندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔ یہ ٹھیک ہے کہ شہروں کے درمیان مسافروں کی آمد و رفت کی گاڑیاں نہ چلائی جائیں‘ صرف سامان کی نقل و حمل ہوتی رہے جو اب بھی جاری ہے۔ مسافر بسوں میں درجنوں لوگ قریب قریب بیٹھتے ہیں جس سے وائرس کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے۔عدالتیں بھی کچھ اور عرصہ بند رکھی جاسکتی ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی چند ماہ مزید بند رہنے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ یوں بھی سخت گرمی کا موسم سر پر ہے۔ کروڑوں بچے‘ نوجوان گھروں سے اسکولوں‘ کالجوں کے لیے نکلتے ہیں تو سڑکوں‘ گلیوں میںہجوم بڑھ جاتا ہے۔ ویسے بھی سرکاری اسکولوں ‘ کالجوںمیں ایک ایک کلاس میں پچاس پچاس ‘سو سو بچے ساتھ ساتھ دیر تک بیٹھتے ہیں۔ یہ بڑا خطرہ ہے۔ تاہم‘ صنعتی پیداوار کے کارخانے اور ملیں مزید بند رکھنا معاشی تباہی کے مترادف ہوگا۔ ملک میں کام کاج کرنے والی آبادی کا ایک چوتھائی صنعتوں سے وابستہ ہے۔ اگر یہ مزید بند رہیں تو محنت کش عوام کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ حکومت نے بارہ ہزار کی امداد دی ہے اس میں ایک خاندان کا بمشکل ایک ماہ گزارہ ہوگا۔حکومت دوسری بار ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو اتنی امداد دینے کی استعداد نہیں رکھتی۔ لوگوں کو کام کاج کرکے ہی اپنا گھر چلانا ہوگا۔ حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ چند احتیاطی شرائط کے ساتھ تمام صنعتوں اور دکانداروں کو اب کام شروع کرنے کی اجازت دے دی جائے ۔کوئی بھی ملک چاہے وہ کتنا امیر‘ ترقی یافتہ ہوطویل عرصہ تک لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سے کہیں زیادہ متاثر ہونے والے یورپ کے ممالک بھی کاروباری سرگرمیاں کھولتے جارہے ہیں۔