ایک حلقے نے تجزیہ کاروں کی توجہ پائی ہے ،کچھ تو حقائق لازمی اہم ہوں گے ۔ایک عمر کے بعد دیکھا کہ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم سرکاری اداروں اور عملے کی مدد کے بنا چلائی گئی۔ مسلم لیگ چونکہ اقتدار میں نہیں تھی اس لیے پیپلزپارٹی کو بھی آزادانہ ماحول میسر آیا۔ مسلم لیگ جیت تو گئی لیکن نتیجہ یہ امکان پیدا کر رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں سرکاری مدد میسر نہ ہونے پر اس کی جیت کے خواب چکنا چور ہونے والے ہیں۔ لاہور میں مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کا ایک ہی انداز ہے۔ ایل ڈی اے‘ پی ایچ اے‘ کارپوریشن اور صوبائی محکموں میں کنٹریکٹ پر اپنے سرگرم کارکنوں کو بھرتی کیا جاتا ہے‘ ایسے کئی مستقل ہو چکے ہیں۔ الیکشن مہم میں ان کارکنوں کی بیٹھکوں میں امیدوار ایک دو بار جاتا ہے‘ حلقے میں دو تین بڑے جلسے کئے جاتے ہیں۔ سینکڑوں انتخابی دفتر‘ ہر ایک کا خرچ لاکھوں میں۔ حکومت اپنی ہوتی تھی، ہر شخص کے ساتھ بیس پچیس ووٹ تو ضرور ہوتے ہیں۔ کچھ ناراض دھڑوں کو کسی امن کمیٹی‘ پولیس رابطہ کمیٹی‘ شکایت سیل وغیرہ میں نمائندگی دے کر منایا جاتا۔ جو لوگ ووٹ فروخت کرنے کے خواہش مند ہوں ان کو معقول معاوضہ دیا جاتا۔ برسوں سے سرکاری اداروں کی نالائقی سے ٹوٹی ہوئی گلیاں‘ ابلتے گٹر‘ گڑھوں والی سڑکیں اور کچرے سے بھرے بازار صفائی و مرمت سے چمکا دیئے جاتے۔ ان تمام سرگرمیوں میں اختیار اور پیسہ استعمال ہوتا ہے‘ اس سے تیس سے چالیس ہزار ووٹروں کی حمایت کا ٹارگٹ متعین کیا جاتا ہے۔ 2018ء میں مسلم لیگ ن نے حلقہ این اے 133 میں 90 ہزار سے چند ووٹ کم لیے تھے اس بار اقتدار و اختیار نہیں تھا ،ووٹر 46000 تک آ گئے۔ حکومت مسلم لیگ کی تھی۔ عدالتی حکم پر تحقیقات کے نتیجے میں جن چار حلقوں کے نتائج پر گڑ بڑ اور بے ضابطگی پائی گئی ان میں سے ایک سپیکر ایاز صادق کا تھا۔ یہاں دوبارہ الیکشن کا فیصلہ ہوا۔ ایاز صادق کی مہم پنجاب اور وفاق کے سرکاری فنڈز سے چلائی گئی۔ نوکریاں ریوڑیوں کی طرح تقسیم ہوئیں۔ روپے کا بے دریغ استعمال ہوا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے عبدالعلیم خان کو ٹکٹ دیا۔ علیم خان نے بھی ہاتھ کھول کر خرچ کیا۔ مسلم لیگ ن کو پیسے کے ساتھ اختیار کا فائدہ بھی تھا۔ دونوں امیدواروں نے 90,90 ہزار کے قریب ووٹ لیے۔ علیم خان صرف 500 ووٹ سے ہار گئے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں دیکھ لیں جس نشست پر بھی پی ٹی آئی امیدوار لیگی امیدوار سے ہارا وہاں ووٹوں کا فرق بہت زیادہ نہ تھا۔ اعجاز چودھری اس حلقے سے پرویز ملک مرحوم کے نوے ہزار ووٹوں کے مقابلے میں 77500 ووٹ لے گئے تھے جہاں مسلم لیگ پچھلے چار الیکشن جیتی ہوئی تھی۔ پیپلزپارٹی جانتی تھی کہ پنجاب میں اس بار اسٹیبلشمنٹ اور حکومت اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ ایک موقع میسر تھا کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک ختم ہونے کی بات غلط ثابت کی جا سکے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کا گلی گلی جانا عام آدمی کے لیے اہم تھا۔ ایک سابق وزیراعظم جب گلی محلے میں اتر کر کارکنوں سے بات کرتا ہے تو اس کا سیاسی تاثر لازمی پیدا ہوتا ہے۔ پھر شہلا رضا جیسی مستعد سیاسی کارکن مدد کو موجود تھیں۔ خواجہ طارق رحیم سے وفادار رہنے والے بعض افراد نے اسلم گل کی مہم کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ خصوصاً زون کے کچھ عہدیدار اور ان سے وابستہ افراد نے حسب سابق ن لیگ سے رابطہ رکھا اور بے دلی سے کام کیا لیکن پارٹی کا پرانا کارکن اور حامی اعلیٰ قیادت کی موجودگی میں چارج ہوگیا۔ پیپلزپارٹی جانتی تھی کہ تیس سال کے بعد لاہور میں انتخابی مہم چلانا آسان نہیں۔ جیتنا تو ناممکن تھا۔ اس لیے ہدف بیس ہزار سے زائد ووٹ رکھا گیا۔ 32000 ووٹ ملنا ہدف سے زیادہ ہے۔ اسی لیے اس شکست کو پارٹی میں بہت بڑی جیت تصور کیا گیا۔ آصف علی زرداری نے اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے بلاول ہائوس لاہور میں جشن منایا۔ ورکر اور پارٹی عہدیداروں سے کہا کہ اسی طرح محنت کرو باقی مجھ پر چھوڑ دو کہ اقتدار کس طرح حاصل کرنا ہے۔ پیپلزپارٹی نے کھیل میں واپس آنے کا جو تاثر ابھارا ہے اس کا فائدہ نئے اور اچھے امیدواروں کی صورت میں مل سکتا ہے۔ سکڑتا ہوا ووٹ بینک ایک بار پھر واپس آ سکتا ہے لیکن یہ تاثر بلدیاتی انتخابات تک کام دے گا۔ لاہور کا بلدیاتی الیکشن جو جماعت جیتی اسے اگلے عام انتخابات میں انتظامی سہولیات مل جائیں گی۔ مقامی حکومت کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے لاہور کو ہدف بنا لیا اور مرکزی قیادت نے معاملات ضلعی تنظیم پر نہ چھوڑے تو اچھے نتائج آ سکتے ہیں۔ سماج میں مخصوص انتہا پسندانہ نظریات کو بے قابو ہونے سے روکنے کے لیے ایسی جماعتوں کا طاقتور ہونا ضروری ہے جو ایک متوازن موقف کے ساتھ سماج کی جمہوری اقدار میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس سارے منظر نامے میں تحریک انصاف زیر بحث نہیں آ سکی۔ وجہ وہ اہم موڑ تھا جہاں تحریک انصاف غلط امیدوار کو ٹکٹ دے بیٹھی۔ اپنے چند کروڑ بچانے کے لیے جمشید اقبال چیمہ نے پوری جماعت کی اہلیت پر جو سوال اٹھا دیا ہے وہ مستقبل کے امکانات کو متاثر کرے گا۔ جھنگ میں مقیم شاندار غزل گو شاعر اسد اعوان کی تازہ کتاب ’’اک گلی شہر میں تھی‘‘ سے دو شعر دیکھئے: تیری آنکھوں پر مرے ہیں جو دیار شوق میں تیری خاطر مر بھی جاتے پھر بھی خمیازہ نہ تھا …… اس قدر فرقہ پرستی تھی زمانے بھر میں اس تعصب کی بناپر وہ ہمارا نہ ہوا