کشورِ پنجاب کے فرمانروا چوہدری محمد سرور نے فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمیں صرف چھ ارب ڈالر دے کر ہم سے سب کچھ لے لیا ہے۔انہوں نے اور بہت سی باتیں کی ہیں ۔مثال کے طور پر یہ کہ پارٹی نے مجھے گورنر بنا کر سائیڈ لائن کر دیا وغیرہ وغیرہ ۔مجھے نہیں معلوم چوہدری صاحب یہ سب کیوں کہتے پھر رہے ہیں‘اگرچہ انہوں نے تردید کی ہے کہ پارٹی نے انہیں عہدہ چھوڑنے کے لئے نہیں کہا تاہم ہر طرح کی خبریں گرم ہو رہی ہیںکہ سرور صاحب بالآخر چاہتے کیا ہیں۔ قطع نظر اس بات کہ ان کے مستقبل کے منصوبے کیا ہیں‘ان کی یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمیں چند ٹکے دے کر ہم سے سب کچھ چھین لیا۔ہماری خود مختاری کا سودا کر لیا۔مجھے نہیں معلوم سٹیٹ بنک کی نام نہاد خود مختاری کا بل پاس ہوا یا ابھی تک زیر التوا ہے۔اس لئے کہ حکومت نے جو 33بل بیک جنبش قلم پاس کئے ہیں ان کی تفصیل نہیں آئی۔کوئی کہتا ہے اس میں یہ بل شامل ہے‘مگر بعض بااثر اور باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ ابھی حکومت نے اسے روک رکھا ہے۔اس کے تحت ہماری اقتصادی خود مختاری آئی ایم ایف کو گروی رکھ دی جائے گی۔ میں تو ایک عرصے سے کہتا آیا ہوں کہ ہمارا سودا ہو چکا اور ہماری معیشت کا ستیاناس کرنے کا سب بندوبست کر دیا گیا ہے۔جب یہ حکومت برسر اقتدار آئی تھی تو میں نے عرض کیا تھا کہ ہمارے پاس دو آپشن ہیں۔ ایک یہ کہ ہم سی پیک کے راستے پر چلتے رہیں‘دوسرا آپشن یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے ہو رہیں۔میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ حکومت کے وزیروں‘مشیروں حتیٰ کہ وزیر اعظم تک کے بیانات یہ بتاتے ہیں کہ ہم سی پیک کے خدا حافظ کہہ کر آئی ایم ایف کی جھولی میں جا رہے ہیں۔ہمارے ہاں خارجہ امور کے نام نہاد ماہر بھی یہ راگ الاپ رہے تھے کہ سی پیک کی صورت میں ہمارے ہاں دوسری ایسٹ انڈیا کمپنی آ رہی ہے گویا آئی ایم ایف ہماری آزادی و خود مختاری کا پیمانہ تھا۔میں نے بار بار عرض کیا کہ اس پورے پراسس میں شرح سود بڑھائی جا رہی ہے اور ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے۔مرے اس خیال کو بالآخر شوکت ترین کے اس بیان سے تقویت ملی جو انہوں نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے دیا تھا کہ روپے کی قدر کم کر کے اور شرح سود بڑھا کر پاکستان کی معیشت کا ستیا ناس کر دیا گیا۔عرض کیا تھا کہ جب 1948ء سٹیٹ بنک قائد اعظم نے سٹیٹ بنک کا سنگ بنیاد رکھا تھا تو بتایا تھا کہ یہ ہماری اقتصادی خود مختاری کی علامت ہو گا۔ہم ہیں کہ اسے آئی ایم ایف کا غلام بنانے پر تل گئے ہیں۔خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔یہ ہم کیا چاہتے ہیں۔یہ اب تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستان کے ابتدائی بجٹ پوری کسمپرسی کے باوجود فاضل بجٹ تھے۔ان دنوں مقامی لوگ ہمارے کرتا دھرتا تھے۔ملک غلام محمد نے گورنر جنرل کے طور پر جو کچھ بھی کہا مگر وزیر خزانہ کی حیثیت سے انہوں نے بے مثال کارکردگی کا ثبوت دیا۔یہی معاملہ چوہدری محمد علی کا ہے‘بلکہ ایک لحاظ سے تو ان کا بنیادی کردار تھا۔ پھر آ گئے ایوب خاں‘ہم نے دفاعی معاہدوں پر دستخط کر دیے۔شعیب اور ایم ایم احمد ہماری معیشت پر قابض ہو گئے۔ان دنوں کا میڈیا اٹھا کر دیکھ لیجیے وہ چیختا رہ گیا۔ہم امریکہ اور آئی ایم ایف کو پیارے ہو گئے۔ ہن برسنے لگا۔مفت کی گندم‘ گھی آنے لگے۔ہمارے منہ کو قرضے کی لت لگ گئی۔ یہ بات درست ہے کہ گزشتہ دونوں ادوار میں دونوں جماعتیں آئی ایم ایف میں گئیں۔پیپلز پارٹی کی معاشیات ذرا کمزور ہے۔وہ جلد بھاگ گئی اور بہت کچھ خراب کر بیٹھی۔ن لیگ آئی تو اس نے آئی ایم ایف کا پروگرام اپنایا‘اسے خوش اسلوبی سے چلایا۔پھر اس سے جان چھڑا لی۔جب عبوری حکومت آئی اور اس نے روپے کی قیمت میں کمی کرنا شروع کی اور شرح سود بڑھانے کا آغاز کیا تو اسحق ڈار نے لندن ہی سے کہا کہ اگر مری پالیسیوں پر عمل جاری رہتا تو ہم کبھی آئی ایم ایف میں نہ جاتے مگر اب لگتا ہے ان لوگوں نے آئی ایم ایف میں جانے کا فیصلہ کر دیا ہے۔میں ماہر معاشیات نہیں ہوں۔مگر میں نے بھی یہ عرض کیا تھا کہ سب راہیں اسی کارن تراشی جا رہی ہیں۔یہ شمشاد اختر جو عبوری وزیر خزانہ بنی ہیں‘ان کے سپرد یہی ڈیوٹی لگائی گئی ہیں۔آنے والی نئی حکومت نے تو لٹیا ہی ڈبو دی۔نہ صرف آئی ایم ایف میں گئی بلکہ غالباً اس شرط پر گئی کہ ہم سی پیک سے تو یہ کرتے ہیں۔ہمارے چینی دوست چیختے رہ گئے کہ کیوں اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہے ہو۔مگر اس نالائق حکومت نے ایک نہ سنی اور ہم آئی ایم ایف کی وہ شرائط مانتے گئے جو اس ادارے کی تاریخ میں کبھی کسی نے نہ مانی تھیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ اس دوران ہمارے دوستوںنے بھی ہمارے ساتھ اچھی نہ کی۔سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔وہ جب مدد دیتا تھا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔بلکہ ایک بار تو ہمارے وزیر خزانہ کو اسمبلی میں کہنا پڑا کہ انہیں نہیںمعلوم ان کے خزانے میں ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آ گیا ہے‘کس نے ڈال دیے ہیں۔اب کی بار مگر یہ ہوا کہ ایک بار انہوں نے اچانک راتوں رات تین ارب ڈالر کا قرض واپس مانگ لیا جو ہم نے چین سے لے کر ادا کیا اور دوسری بار جب مجبور ہو کر ہم دوبارہ گئے تو انہوں نے ہزار شرائط لگائیں۔پہلے تو ایک ڈیڑھ ماہ منظوری کے چکر میں سعودی شاہی دربار میں گھومتا رہا۔پھر شرائط نامہ سامنے آیا تو ایسا جو کبھی دیکھا نہ سنا۔مبینہ طور پر اس میں شرح سود بہت زیادہ ہے‘ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ 72گھنٹے کے نوٹس پر ہمیں یہ واپس کرنا پڑے گا اور بھی بہت کچھ ہے۔ یہ ہماری نالائقی ‘نااہلی کا آغاز ہے۔یہ بتانا ہے کہ دنیا ہمیں کس نظر سے دیکھتی ہے۔ہم بہت شور کرتے تھے کہ پشاور سے کراچی تک ریلوے لائن کا منصوبہ ایم ایل 1بس تیار پڑا ہے۔شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔اب تک آغاز نہ ہو سکا۔چینی بنک قرضہ منظور کئے بیٹھی ہیں۔پھر کیا معاملہ ہے۔کیا چین ہم پر اعتبار نہیں کر رہا یا آئی ایم ایف نے کہہ دیا ہے کہ تم اتنا بڑا قرضہ نہیں لے سکتے۔ہم نے اپنی اقتصادی خود مختاری گروی رکھ دی ہے۔بھاشا ڈیم کے لئے ہم نے براہ راست فنڈز مختص کئے تھے،یہی کیا۔ہمارا حال بھی بے حال ہے۔ملک کی معیشت دلدل میں دھنس رہی ہے۔کوئی ہے جو اسے بچا سکے۔معلوم ہوا ہے کہ کوئی بھی آگے آنے کو تیار نہیں۔