لاہور کے حلقہ 133 کے نتائج آ چکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی شائستہ پرویز ملک 46811 ووٹ لیکر کامیاب ہوئی ہیں اور ان کے مد مقابل پاکستان پیپلز پارٹی کے اسلم گل صاحب 32313 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔اس طرح 14498 ووٹ کی اکثریت سے پاکستان مسلم لیگ نواز جیت گئی۔ اس الیکشن سے بہت دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔ سب سے پہلی بات کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اب بھی لاہور میں ایک قوت ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کافی عرصے کے بعد پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ووٹر ٹرن آئوٹ بہت کم رہا ہے۔2018 میں ٹرن آئوٹ 52 فی صد کے قریب تھا جو اب کم ہو کر 19 فی صد رہ گیا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نے 2018ء میں یہاں89699 ووٹ لئے تھے جو اب کم ہو کر 46811 رہ گئے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ نواز نے 2018ء سے 42888 کم ووٹ لئے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کا اس بار یہاں کوئی امیدوار نہیں تھا 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اعجاز چوہدری نے 77293 ء ووٹ حا صل کئے تھے۔ اس بار پاکستان تحریک انصاف کا حامی ووٹر بہت کم نکلا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے 2018ء کے الیکشن میں 5585 ووٹ لئے تھے جس میں اس بار 26728 ووٹوں کا اضافہ ہو گیا ہے اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں نمبر 1 پاکستان پیپلز پارٹی کو اس بار نواز مخالف ووٹ مکمل مل گیا جو 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ووٹر ٹرن ائوٹ کم ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے ضمنی الیکشن میں ووٹر ٹرن آئوٹ کم ہی ہوتا ہے۔ جو پہلے 54 فی صفد تھا اسکو 35 تا 40 فی صد کے درمیان ہونا چاہئے تھا لیکن اس بار یہ صرف 18 فی صد رہ گیا یہ بہت الارمنگ پوزیشن ہے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے عوام الیکشن پراسس سے مایوس ہو چکے ہیں۔ ان کے خیال میں الیکشن سے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے مایوسی الیکشن ٹرن آوٹ کم ہونے کی صورت میں نکلی ہے۔ لوگ مہنگائی سے بہت تنگ ہو چکے ہیں انکے خیال میں الیکشن انکے مسائل کا حل نہیں ہے اگر یہ مفروضہ درست ہے تو اگلے الیکشن میں ووٹر ٹرن آئوٹ بہت کم ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے ووٹ بہت کم ہو گئے ہیں اسکی ایک وجہ یہ ہے اب لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کا بیانیہ مقتدر حلقوں کو پسند نہیں ہے اور اب اسکے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بہت کم امکانات ہیں۔ لاہور جو پاکستان مسلم لیگ نواز کا قلعہ تھا اس الیکشن سے اس میں دراڑ محسوس کی جا سکتی ہے۔ الیکشن کے جو نتائج آئے ہیں اور جس طرح برتری صرف 14 ہزار تک رہ گئی ہے اگر پاکستان تحریک انصاف کا امیدوار ہوتا تو نتائج مختلف بھی آ سکتے تھے۔پاکستان تحریک انصاف نے جس طرح اس سیٹ پر پاکستان مسلم لیگ نواز کو واک اوور دیا ہے بہت ہی شرمناک بات ہے۔ ایک جماعت جو حکومت میں ہے اور اس کا امیدوار جو وزیر اعظم کا مشیر بھی ہے اسکے کاغذات میں تکنیکی خامی بتاتی ہے کہ حکمران جماعت کا زیادہ وقت دوسروں کی خامیاں گنوانے میں گنوانے میں صرف ہوتا ہے۔ جمشید اقبال چیمہ اور انکی اہلیہ دونوں کے کاغذات اس حلقے سے مسترد ہو ئے ہیں کچھ حلقوں کا خیال ہے پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ امیدوار کا عمل دخل بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس بار یہاں سے26728 ووٹ لئے ہیں جو 2018 کے ووٹ سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔ لگتا ہے 2023ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں تیسری پارٹی بن سکتی ہے۔ 2018 ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی پہلی پانچ پارٹی میں شامل نہیں تھی۔یہ ایک خوش آئند بات ہے اب اس بات کا نقصان کس کو ہوگا یہ دیکھنے کی بات ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ توڑتی ہے یا پاکستان مسلم لیگ نواز کا یہ پتہ 2023ء کے الیکشن میں چلے گا۔ ایک اور ناخوشگوار بلکہ المناک واقعہ جو سیالکوٹ میں پیش آیا جس میں پر تشدد ہجوم نے سری لنکا کے باشندے جو اس فیکٹری میں مینییجر تھا کی جان لے لی۔ مقتول پر الزام تھا کہ اس نے مذہبی گستاخی کی ہے۔ ابھی ہم 15 سال کے عرصہ میں گوجرہ کے واقعہ کے داغ نہیں دھو سکے کہ ایک اور سانحہ ہو گیا۔ گوجرہ جس کی وجہ شہرت ہاکی، انکھوں کے ہسپتال اور غلہ منڈی کی وجہ سے تھی اب انٹر نیٹ پر ان فسادات کی وجہ سے مشہور ہے جو وہاں عیسائی اقلیت پر برپا ہوئے۔ سیالکوٹ کی وجہ شہرت فٹ بال، آلات جراہی اور دوسرے کھیلوں کے سامان کی وجہ سے ہے اب اسکی وجہ شہرت وہ افسوسناک واقعہ ہے جو وزیر آباد روڈ پر واقعہ فیکٹری میں آیا۔ اب اس واقعہ کے تمام مجرم حراست میں ہیں مگر جو نقصان ہونا تھا اسکی تلافی نہیں ہو سکتی۔ ہم بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے ظلم کی بات کرتے ہیں اب انڈین میڈیا اس بات کو کس طرح پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ چند نا عاقبت اندیش عناصر کی کم عقلی کی بنا پر سارا ملک تنقید کی زد میں آگیا ہے۔ابھی ہم فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اس واقعہ کے کیا اثرات ہونگے ابھی بتانا قبل از وقت ہے۔ ساری قوم نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے اس ضرورت اس امر کی ہے ان افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو اس واقعہ میں کسی بھی طرح سے حصہ دار ہیں تاکہ مستقبل قریب میں ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔ ہمارے مذہبی رہنما ؤں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو بتائیں اس طرح کے واقعات میں خود عدالت نہ بنیں جب قوانین موجود ہیں انکو استعمال میں لایا جایا اور جو لوگ عوام کو اسطرح کے واقعات پر اکساتے ہیں انکو کڑی سی کڑی سزا دی جا سکے۔بحر حال یہ ایک ایسا واقعہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔