وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کی امید کم ہی رکھیں جبکہ دوسری طرف امید افزا باتیں سامنے آئی ہیں ، کہا گیا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان الیکشن کے معاملے پر مذاکرات کا دوسرا دور ’مثبت پیشرفت ‘کے ساتھ ختم ہوگیا، اب دونوں فریقین منگل کو دن گیارہ بجے بیٹھیں گے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اچھے ماحول میں بات ہوئی اور ہم نے مناسب پیشرفت حاصل کی، عمران خان کو لاہور جاکر اعتماد میں لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نیت ہے آئین کے دائرے میں مسئلے کا حل تلاش کیا جائے، ایک طرف مذاکرات دوسری طرف گرفتاریاں ہورہی ہیں، حکومتی کمیٹی کے سامنے یہ معاملہ بھی اٹھایا ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کی بات کی صداقت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی گرفتاری کے لئے پولیس اور اینٹی کرپشن بکتر بند گاڑی کی مدد سے گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئی، خواتین سمیت 25 ملازمین کو گرفتار کیا۔ جو بھی اقتدار میں آتا ہے خود کو پاک صاف جبکہ اپوزیشن کو کرپٹ قرار دیتا ہے ،خرابی دونوں طرف سے موجود ہے جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اقتدار کی رسہ کشی میں عوامی مسائل اوجھل ہو چکے ہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بیروزگاری عام ہو چکی ہے، عام آدمی کا جینا دو بھر ہو چکا ہے، امن و امان کی صورتحال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ آئے روز دہشت گردی کے واقعات پیش آ رہے ہیں، دیہاتوں میں چوری ، اغوا اور ڈاکہ زنی کی وارداتیں بڑھ چکی ہیںمگر حکومت کی طرف سے مثبت اقدامات سامنے نہیں آئے۔ مہنگائی کہاں سے کہاں چلی گئی، ظلم یہ ہے کہ حکومت کو عام آدمی کی غربت کا کوئی احساس نہیں ، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے، ایل پی جی تین سو روپے سے متجاوز ہے، مزید ظلم دیکھئے کہ سوئی نادرن گیس کمپنی نے گیس میٹر کا کرایہ چالیس روپے سے بڑھا کر 500 روپے کر دیا ہے، کتنی شرمناک بات ہے کہ دس سے بیس روپے اضافہ تو سمجھ آتا ہے مگر چالیس روپے سے یک دم 500 روپے اضافہ کرنا ریاستی جبر اور بھتہ خوری کے ضمن میں آتا ہے۔ ایک طرف گیس کی لوڈشیڈنگ ہے دوسری طرف حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، اس سے عمران خان مقبول نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔ مہنگائی کہاں جا پہنچی اس کا اندازہ حکومت کے اپنے ادارہ شماریات کے مطابق رمضان کے بعد پہلے ہفتے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا اور مہنگائی0.15 فیصد بڑھ کر مجموعی شرح 46.82 فیصد ہو گئی۔ ادارہ شماریات نے بتایا کہ ایک ہفتے میں21 اشیا مہنگی ہوئیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق آلو 8.22، چکن 1.75 فیصد، آٹا 1.55، گڑ 1.23 اور بریڈ 1.13 فیصد مہنگی ہوئی، اس کے علاوہ چاول، مٹن، دودھ، بیف اور لہسن کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں ٹماٹر سستے ہوئے ، ادارہ شماریات کو صحیح رپورٹ پیش کرنی چاہئے کہ سرائیکی وسیب میں ٹماٹر اس قدر بے قدر ہوا کہ وسیب کاشتکاروں کے بیس ارب روپے ڈوب گئے۔ پانچ کلو ٹماٹر کا شاپر پچاس روپے میں بکتا رہا ، حکومت نے گندم کا ریٹ چار ہزار روپے من مقرر کیا مگر بیوپاری کم ریٹ پر خرید کر رہے ہیں ، زرعی پیداوار بہت اہم ہے ، حکومت فصلوں کے لئے بیمہ پالیسی کا اعلان کرے ورنہ زراعت کی پیداوار میں پاکستان بہت پیچھے رہ جائے گا۔ سرائیکی وسیب میں فصل خریف یعنی کپاس کی کاشت کا سیزن شروع ہو چکا ہے مگر نہروں میں پانی نہیں ہے ہر طرف سے پانی پانی کی صدائیں آ رہی ہیں۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے سرائیکی وسیب کے اضلاع میانوالی ، ڈی آئی خان اور ٹانک ، لیہ اور بھکر پانی کے حصے سے محروم ہیں۔ سرائیکی وسیب میں آبپاشی کا کوئی منصوبہ بننا ہو تو سیاسی بنیاد پر مخالفت شروع کر دی جاتی ہے ، 1990ء میں نواز شریف نے سندھ کے ساتھ پانی کا معاہدہ کیا اور وسیب کے حصے کا پانی سندھ کو اضافی طور پر دے کر نعرہ لگایا کہ بڑے بھائی سندھ کے لئے قربانی دی ہے ، پہلے ہی وسیب کے لئے پانی کم ہے ، ارسا میں وسیب کی نمائندگی نہیں ہے، باقی صوبوں کا ایک ایک نمائندہ موجود ہے ۔پرویز مشرف نے سندھ کو اس بناء پر دو نمائندے دئیے کہ سندھ ٹیل میں آتا ہے، جبکہ سرائیکی وسیب کو کوئی بھی نمائندہ نہیں دیا گیا، اصولی طور پر سندھ کا ایک نمائندہ ختم کر کے ارسامیں سرائیکی وسیب کو نمائندگی دی جائے۔ پاکستان زرعی ملک ہے ، ملکی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے ، سرائیکی وسیب میں پیدا ہونے والی کپاس دنیا کی بہترین کپاس شمار کی جاتی ہے، وسیب کی کپاس سے ہی ٹیکسٹائل انڈسٹری چلتی ہے اور ٹیکسٹائل مصنوعات ہی زر مبادلہ کمانے کا واحد ذریعہ ہے ۔ سرائیکی وسیب کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ زرعی مسائل پر بھی توجہ کی ضرورت ہے اور اس کا بہترین حل یہی ہے کہ سرائیکی وسیب کو صوبے کا درجہ ملے اس سے نہ صرف یہ کہ وسیب ترقی کرے گا بلکہ پورا ملک خوشحال ہوگا کہ تاریخی ، ثقافتی ، جغرافیائی ، زرعی اور معاشی اعتبار سے ترقی کا محور و مرکز صرف سرائیکی وسیب ہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سی پیک ناکام ہوا، سازش کے تحت سی پیک کا مغربی روٹ تبدیل کیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سرائیکی وسیب کو سی پیک میں سے ایک بھی صنعتی بستی نہیں دی گئی، جب سی پیک کا ڈول ڈالا گیا تو سب سے بڑا نعرہ ہی یہی تھا کہ زراعت سے وابستہ علاقوں میں انڈسٹریز قائم کی جائیں گی مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوا۔ سی پیک منصوبے کے تحت سرائیکی وسیب کو کم از کم دو سے تین ٹیکس فری انڈسٹریل زون ملنا اس بنا پر ضروری ہیں کہ اس سے وسیب کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا بہترین مفاد بھی وابستہ ہے۔