کورونائی دور میں ،21اپریل کو دینی طبقات کی معاونت اور مشاورت سے ، ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے لیے ایس او پیز تشکیل پائے اور مساجد کو محدود اور مشروط سطح پر عبادات کے لیے کھولا گیا ، تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے دانشور اس فعل کو حماقت سے تعبیر کرتے ہوئے اربابِ بست وکشاد کے ساتھ ساتھ--- صاحبانِ محراب ومنبر اورا ہل مسجد ومدرسہ پر بھی برس پڑے اور یوں مذہب اور مذہبی طبقات پر طعن وتشنیع کا انہیں ایک موقع میسر آیا ،جس سے انہوں نے بھر پور استفادہ کیا ، لیکن اس اہم اور نازک موقع پر دینی لیڈر شپ نے جس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ، اور مساجد کے آئمہ /خطبا اور علما ء نے اس تشویشناک صورتحال کو، جس حُسنِ انتظام سے نبھایا ، اب وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے ، جس کا اعتراف تین روز قبل صدرِ پاکستان کی سربراہی میں محرم الحرام کے حوالے سے قومی سطح کے ایک ایسے ہی اعلیٰ اجلاس میں بھی ہوا ، جس کا بہت زیادہ کریڈٹ وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ ڈاکٹر نور الحق قادری کو بھی دیا گیا ، جس کے ، وہ بجا طور پر حقداربھی ہیں ،وزیر موصوف کا یہ بھی اعزاز ہے کہ انہوں نے وفاقی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی ورکنگ گروپ تشکیل دے کر ، اہم قومی ، ملّی و دینی امور کی بابت ویڈیو لنک سے ملک گیر نشستوں کا اہتمام کیا، گفت وشنید اور باہمی اعتماد کے ذریعے، قدرے ناممکن امور کو ناممکن بنایا، بالخصوص دینی طبقات کے ساتھ گراں قدر مشاورت کی ایک نئی طرح ڈالی ہے ، اورحقیقی سٹیک ہولڈرز سے ،براہِ راست رابطہ کا اہتمام ہوا ، اور یوں بین المسالک ہم آہنگی کی فضا مزید مضبوط اور مستحکم ہوئی ، وزیرموصوف "مردِ خلیق"ہیں ، یہی ان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے ، اقبال ؒ نے بھی تویہی کہا تھا: ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں فقط یہ بات کی پیر مغاں ہے "مردِ خلیق" ہمارے صدر مملکت بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ’’کوویڈ19‘‘ کے سبب پہلے مساجد پھر عیدین اور اب محرم الحرام کی مجالس کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لیے ایوان صدر کے دَروَا کیے۔ اس منصب کے ’’روایتی جاہ و جلال‘‘ کے برعکس، ماہ رمضان میں ایس او پیز پر عملدرآمد کے جائزے کے لیے موصوف از خود مساجد میں ہو گئے اور مختلف متعلقہ امور کو براہِ راست ’’مانیٹر‘‘ کیا۔ بصورت دیگر ایوان صدر کو تو، بطور خاص ان امور سے ماوراء اور مجموعی طور پر ان کی ’’عدم فعالیت‘‘ ہی کو جمہوری نظام کی بقا کا موجب جانا جاتا ہے۔ ہمارے صدر صاحب نے ایسے شعبے کی سرپرستی کی ہے۔ جس سے عمائدین ذرا احتراز ہی کرتے اور اسی میں عافیت جانتے ہیں جو کہ بعض اوقات درست بھی ہوتا ہے…کہ ان کے الفاظ بعض اوقات عروض اور کبھی کبھی اعراب کے مسلمہ معیار کے مطابق نہیں ہوتے تو پھر ؎ اسی طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں بہر حال ---رمضان ایس او پیز کی طرز پر ، "محرم ایس او پیز" ترتیب پاچکے ہیں ، یقین ہے کہ عید الضحیٰ او رپھر محرم الحرام کے اجتماعات اور مجالس بھی بحسن وخوبی انعقاد پذیر ہوں گے ،بلاشبہ حکومتِ پاکستان کے مذکورہ اقدامات کی کامیابی کے بعد ، دنیا بھر میں مذہبی اوردینی عبادات اور عبادت گاہوں کو محدود پیمانے پر کھولنے کا عمل جاری ہوا، جس کی سب سے بڑی مثال پیش آمد ہ حج 2020ہے ،جس کے لیے ایس او پیز کی تشکیل اورانتہائی محدود پیمانے پر حج کا اہتمام ہوگا ،جس کے مطابق سعودی عرب میں پہلے سے مقیم صرف70فیصد غیر ملکی اور 30فیصد سعودی باشندے اس بار حج کی سعادت حاصل کر سکیں گے ، جس کے لیے سعودی حکومت نے رجسٹریشن کا آغاز کر دیا ہے ۔منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کا مرحلہ انتہائی نازک اور حساس ہوتا ہے ،اگرچہ اس بار ہجوم اور بھگڈر کا توسِرے سے اِمکان نہیں ،لیکن "کورونائی حج" میں جس امر کا بطور خاص اہتمام کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ شیطان کو مارنے کے لیے کنکریاں بھی "سینی ٹائزڈ"ہوں گی اور ان کو چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں فراہم کیا جائے گا ۔پہلے تو کنکریاں مزدلفہ سے چُنی جاتی تھی،جن کی تعداد70ہوتی ہے ،حجاج کرام ،بالعموم ان کو منرل واٹر کی خالی بوتلوں میں ڈال کر ، پانی سے ان کی دُھلائی کا اہتمام کر لیا کرتے تھے ، ہمارے اکثر حجاج ’’جمرات‘‘ کو شیطان کی جائے قیام سمجھتے ہوئے، بعض اوقات جذباتی ہو کر بڑے بڑے پتھر اٹھا کر دے مارتے اور بعض جوتیوں سے پٹائی کر کے، اپنے گزشتہ حساب بیباک کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں…اب کہ یقینا ضابطہ کا ر انتہائی سخت اور احتیاطی تدابیر بہت مؤثر ہوں گی ۔منیٰ ،مزدلفہ اور عرفات میں غیر رجسٹرڈافراد کے داخلے کا امکان نہ ہونے کے برابر ،جبکہ طواف کعبہ کے دوران حجرِ اسود کو چومنے ،کعبہ کو چھونے اور مسجد الحرام میں اشیائے خوردونوش ساتھ لانے پر پابندی ہوگی ۔"سماجی فاصلے "کو یقینی بنانے کے لیے طواف اور سعی کے لیے "ٹریک لائنز"بنائی جائیں گی ،جس کے مطابق دو افراد کے درمیان ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھنا ضروری ہوگا، یہ وہی "ڈیڑ ھ میٹر"ہے ، جس کا اہتمام ہماری مساجد میں دونمازیوں کے درمیان "چھ فٹ"کے فاصلے کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ اسی طرح طواف اور سعی کے دوران "ہینڈ سینی ٹائزر"کا استعمال لازمی ہے ، مسجد حرام سے قالین ہٹا دیئے جائیں گے اور ہر حاجی اپنی ذاتی جائے نماز کا اہتمام کر سکتا ہے ۔حاجیوں کی بسیں" ڈس انفیکٹ" اور دورانِ سفر نشستوں کے درمیان سماجی فاصلہ بھی یقینی بنایا جائے گا۔ یقینا حج جیسے عالمی اور عالمگیر اجتماع کے لیے ، ایسے موثر اور مضبوط ضوابط اور لائحہ عمل--- اس امر کا غماز ہے کہ وبائی ایام میں انسانی جان کی حفاظت کے یقینی اہتمام کے ساتھ، عبادات کو روبہ عمل رکھنا اور ان پر عمل کرنا بہت زیادہ ضروری ہے۔چنانچہ پیش آمدہ عید الضحیٰ اور ماہ محرم الحرام میں ، حکومتی ایس او پیز پر عملد رآمد کو ہمیں یقینی بنانا چاہیے، تاکہ کورونا کے کنڑول کے جوامکانات پیدا ہوئے ہیں ، اس کو مضبوط کیا جاسکے ۔ مجموعی ماحول میں بہتری کے جو آثار ہیں ،اس میں تعلیمی نظام اور تدریسی سرگرمیوں کی بحالی کی خبر بھی شامل ہے ،جوکہ یقینا خوش آئند ہے ۔اگر اجتماعات میں کندھے سے کندھا جڑا رہا، ماسک کے استعمال میں غیر ذمہ داری ہوئی، ’’سماجی فاصلے‘‘ کا اہتمام نہ ہو سکا تو پھر اس وباء کے بھرپور حملے کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں اب بہت زیادہ ذمہ داری، ہماری مذہبی قیادت بالخصوص مجالس کے منتظمین اور تعزیہ کے لائسنس ہولڈرز پر ہے۔ امید ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے اس قومی اور دینی فریضہ سے عہدہ برآ ہو کر، دینی طبقات کو قوم کے سامنے سرخرو کریں گے۔ اسی طرح مذکورہ صورتحال کے پیش نظر --- آنے والے ایام میں ، برصغیر کے دو بڑے روحانی اور دینی اجتماعات، جن میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کا 778واں عرس، جوکہ 25ذی الحجہ سے شروع ہو کر 10محرم الحرام تک روبۂ عمل رہتا ہے ،لیکن اس کی ابتدائی رسم جس کو ’’جھلہ باندھنا‘‘ کہتے ہیں، سجادہ نشین صاحب نے از خود ہی ادا کر دی ہے،اسی طرح 9محرم الحرام کو داتاؒ دربار کے سالانہ غسل کی تقریب اور 18تا20صفر کو حضرت داتا صاحب ؒ کا 977واں سالانہ عرس بھی شامل ہے ۔یقینا یہ سارے ایونٹ اپنی اپنی جگہ اہم ہیں، جن کو ایس او پیز اور ضوابط کی تشکیل کے ساتھ منعقد کیے جانے کے امور پر غور کرنا ہوگا۔