نیلسن منڈیلا نے کہا تھا سیاستدان اگلے الیکشن جبکہ لیڈر اگلی نسل کا سوچتا ہے۔3اپریل کو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دے کر اپوزیشن کو سرپرائز دینے کے ساتھ ملک کو سیاسی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔سونے پہ سہاگہ کے مصداق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جس طرح کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سے غیر ملکی سازش ناکام ہونے کے بجائے کامیاب ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔جہاں تک تحریک عدم اعتماد اور غیر ملکی سازش کا معاملہ ہے تو قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کے بعد اس بات میں تو کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ عمران خان کے امریکی خواہش کے خلاف چین اور روس کے دورے پر امریکہ ناراض تھا اور حکومت تبدیل کرنے کے لئے سفارتی سطح پر دبائو بھی ڈالا گیا۔دنیا میں ناپسندیدہ حکومتیں تبدیل کرنا امریکہ کا بہت پرانا وطیرہ ہے رجیم تبدیل کرنے کے لئے شام کو کھنڈر بنا دیا گیا۔ایران میں حکومت کی تبدیلی کے لئے امریکی ہتھکنڈے بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔صدام حسین اور معمرقدافی کا انجام بھی دنیا دیکھ چکی۔امریکی صدر باراک اوبامہ تو کھلے عام تسلیم کر چکے ہیں کہ 60سال پہلے امریکہ نے ایران کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔پاکستان میں ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا ہے یہ داستانیں بھی زبان زدعام ہیں۔عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لئے غیر ملکی خواہش یا سازش اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ اس غیر ملکی سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاست نے بحیثت مجموعی جو اقدامات کیے جانے چاہیئں تھے وہ کیے؟حکومت کے مطابق اس سازش کا انکشاف 7مارچ کو ہوا ۔ عدم اعتماد کی تحریک 8مارچ کو جمع کروائی گئی۔ اسمبلی کا اجلاس 25مارچ کو بلایا گیا۔وزیر اعظم نے 27مارچ کو عوامی اجتماع میں سازش کا راز فاش کیا۔3اپریل تک پہنچنے میں لگ بھگ ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا۔جو کسی بھی ملک یا حکومت کو پیش بندی کے لئے کافی ہوتا ہے۔اگر سازش تھی تو یہ سازش دنیا میں پہلی بار ہوئی نہ ہی استعمال ہونے والے ہتھکنڈے نئے تھے۔ یہ بھی پتہ تھا کہ دنیا میں حکومتیں تبدیل کرنے کے لئے معاشی اور سیاسی حربے ہی نہیں آزمائے جاتے بلکہ جہاں حکومتیں تبدیل کرنا ہوتی ہیں وہاں کے عوام کی ذہن سازی بھی کی جاتی ہے۔ راقم نے 5مارچ کو یوکرائن روس جنگ اور امریکی پراپیگنڈا مشین کے عنوان سے ایک مضمون میں CBC چینل کے اینکر والٹر کرانکائٹ کا حوالہ دیا تھا جس میں والٹر نے سینکڑوں خبروں میں سے منتخب خبروں کے ذریعے دن کا منظر نامہ بنانے کی بات کی تھی اسی تحریر میں چھ امریکی میڈیا گروپس کا احوال بھی لکھا کہ امریکہ کے چھ بڑے میڈیا گروپ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے میڈیا بھرکو کنٹرول کرتے ہیں۔پاکستانی سفیر کو دھمکی آمیز پیغام بھلے ہی سات مارچ کو دیا گیا ہو مگر ہوم ورک تو بہت پہلے کیا جا رہا تھا۔ 8مارچ کو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوئی مگر عدم اعتماد کا اظہار تو بہت پہلے کیا جا رہا تھا۔ حکومت اتحادیوں کے علاوہ تحریک انصاف میں ایک کے بعد ایک گروپ بننا شروع ہوئے تو حکومت کی حالت بقول جہانگیر عمران : یہ شہرِ طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے پہلو میں کھڑا شخص مسیحا کہ بلا ہے سیاست کے شہر طلسمات کی تو بات ہی چھوڑیے یہاں تو میڈیا پر حکومت مخالف فضا تھ بہت پہلے بنائی جا چکی تھی صرف تحریک عدم اعتماد کے بعد خاص طور پر ایک میڈیا ہائوس کی جانب سے اعلان جنگ ہی ہونا باقی تھا۔11مارچ کو انہی سطور میں یہ تذکرہ بھی ہوا ’’ عدم اعتماد ملکی سیاست کا اندرونی معاملہ ہ نہ ہی اتنا سادہ جتنا دکھائی دیتا ہے۔ خارجہ پالیسی میں حکومت اور عسکری قیادت کو الگ کرنا مشکل ہے اگر خارجہ پالیسی کی حد تک ہی حکومت اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں تو یہ سازش عمران خان اور عسکری قیادت کے خلاف کیوں نہ ہوئی؟اگر سازش حکومت نہیں ملک کے خلاف ہے تو عسکری قیادت کا نیوٹرل رہنا ممکن نہیں۔ مگر اسے حکومت اور عسکری قیادت کے باہمی تال میل کی خرابی کہیں یا عسکری قیادت کے غیر ضروری طور پر نیوٹرل رہنے کا نتیجہ کہ ریاست اس سازش کا مناسب انداز میں مقابلہ نہیں کر سکی اس حوالے سے اگر عمران خان نے معاملہ کو ملکی سازش کا توڑ کرنے کے بجائے سیاسی فائدہ کے لئے استعمال کیا تو عسکری قیادت کا بھی نیوٹرل رہنا معاملہ کو مزید الجھا گیا۔ اگر عمران حکومت اور عسکری قیادت اس معاملہ کو باہمی مشاورت اور یکسوئی سے حل کرتے تو یقینا حالات اس نہج تک نہ پہنچتے۔ 27مارچ کو جب وزیر اعظم نے تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دیا تو اگلے ہی روز اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا تھا کہ اگر یہ عالمی سازش ہے تو وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے یہ وقت تھا کہ ’’بڑے‘‘ نیوٹرل رہنے کے بجائے حکومت اور اپوزیشن کو ایک میز پر بٹھانے میں معاونت کرتے۔ مراسلہ یا دھمکی پر عسکری قیادت کی موجودگی میں حکومت اور اپوزیشن غورو فکر کرتیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔عمران خان نے 27مارچ کو سازش میں کچھ سیاستدانوں کے دانستہ اور بہت سوں کے نادانستہ ملوث ہونے کی بات کر کے اپوزیشن کے تعاون کے امکانات مزید کم کر دیے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں جس طرح حکومت نے اپوزیشن کوعجلت اور نیم دلی سے دعوت دی اگر یہ دعوت عسکری قیادت کی طرف سے آتی تو یقینا اپوزیشن اجلاس میں شرکت کرتی اور معاملات اس نہج تک نہ پہنچتے نا اپوزیشن لیڈر عسکری قیادت سے 197ارکان کے غدار ہونے کی وضاحت طلب کرتے۔بدقسمتی سے دونوں طرف سے معاملات کو جس انداز میں حل کرنے کی کوشش کی گئی اس سے بات بننے کے بجائے مزیدبگڑتی گئی یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ حکومت اور اپوزیشن نے ملکی سیاست کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے یا کہئے بند گلی میں اپوزیشن ہی نہیں جمہوریت بھی پھنس چکی مگر پاکستان کی سیاسی قیادت اقتدار کے نشہ میں مست ملکی سلامتی سے کھیلنے پر تلی دکھائی دیتی ہے۔ وہ حیدر علی آتش نے کیا خوب کہا ہے : مے کدے میں نشہ کی عینک دکھاتی ہے مجھے آسماں مست و زمیں مست و در و دیوار مست