لاہور(جوادآراعوان) ٹاپ سول انٹیلی جنس ادارے کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک سے کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آتا ،لیکن حکومت کو اپوزیشن سے رابطے رکھنے والے اپنے اتحادیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اعلیٰ حکومتی ذرائع نے اپوزیشن کی جانب سے عید کے بعد شروع کی جانے والی تحریک کے حوالے سے روزنامہ 92نیوز سے ٹاپ سول انٹیلی جنس ادارے کی رپورٹ شیئر کرتے ہوئے مزید بتایا کہ رپورٹ میں اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کے حوالے سے حکومتی اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے بارے میں لکھا ہے جن کے صدر اختر مینگل نے اپوزیشن کی پریس کانفرنس میں شرکت کی جو کہ معنی خیز ہے ۔ حکومت کی ایک اور اتحادی متحدہ قومی مومنٹ(پاکستان)بھی حکومت پر بڑھتے دبائو کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے بعض مطالبات کیلئے ازسر نو بات کر سکتی ہے اور مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں حکومت مخالف لائن لے سکتی ہے ، اسکے ساتھ ہی حکومت کو اپنے دیگر اتحایوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔عید کے بعد اپوزیشن کی جماعتیں حکومت مخالف تحریک چلانے کیلئے اکٹھا ہو رہی ہیں، جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی،جمعیت علماء اسلام(ف)،پختوانخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق ن لیگ کی قیادت اور کارکن حکومت مخالف تحریک کے حوالے سے زیادہ متحرک نہیں پائے جاتے ،سابق حکمران جماعت کے اندر نواز شریف اور شہاز شریف گروپ مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف کی جانب سے ایک ہونے کا تاثر دینے کے باوجود ورکرز کو قائل نہیں کر سکے ،جسکی بڑی مثال 28مئی کو پارٹی آفس میں کمزور پاور شو تھا۔ پیپلز پارٹی سندھ میں کچھ نظر آنیوالے مجمے کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے ،وفاقی دارالحکومت میں مجمع اکٹھا کرنا دو لیڈ اپوزیشن جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کیلئے مشکل نظر آتا ہے ،لیکن پیپلز پارٹی سندھ سے اپنے ورکر ٹرانسپورٹ کر سکتی ہے اور خیبر پختوانخوا سے بھی اپنے ورکر لانے میں کامیاب ہو سکتی ہے ۔ن لیگ وسطی پنجاب سے اپنے کچھ ورکر لانے میں کامیاب ہوسکتی ہے لیکن کوئی بڑا شو کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔اپوزیشن کے ممکنہ حکومت مخالف اتحاد میں صرف جمعیت علماء اسلام(ف) تحریک شروع کرنے کی صورت میں حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے جو خیبر پختوانخوا اور سابق قبائلی علاقوں میں قائم اپنے مدرسوں سے طلبہ کی بڑی تعداد کو وفاقی دارلحکومت میں اکٹھا ہونے کی کال دے سکتی ہے ۔جمعیت علماء اسلام(ف) صوبوں کی سطح پر حکومت مخالف تحریک کی صورت میں خیبر پختوانخوا اور بلوچستان میں اپنے ووٹرز،سپورٹرز اور مدرسہ سسٹم کی مدد سے مشکلات پیدا کر سکتی ہے ۔عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا میں متحرک سپورٹ رکھتی ہے اوراپوزیشن کے اسلام آباد کو بیس کیمپ بنانے کی صورت میں اس سپورٹ کا استعمال کر سکتی ہے ۔