معاشی بحران اور کورونا وبا سے نبرد آزما حکومت کے لئے نئی آزمائش بعض اتحادیوں کی ناراضی کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔ حکومت کی یہ پریشانیاں ایسے وقت میں مزید بڑھتی دکھائی دیتی ہیں جب وزراء اپنی ہی حکومت کے حوالے سے منفی انداز میں بیانات شروع کر دیں۔تازہ واقعہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کا ایک انٹرویو ہے جس میں انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کو اپنے ہی رہنمائوں کی باہمی کشمکش کے باعث ناکام قرار دیا۔ فواد چودھری نے شاہ محمود قریشی۔جہانگیر ترین‘ اسد عمر اور دیگر رہنمائوں کے باہمی کشیدہ تعلقات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے کے لئے سازشیں کرتے رہے ہیں۔ منگل کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی اس صورت حال کے اثرات دیکھے گئے۔وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے وزیر اعظم کے سامنے فواد چودھری کی شکایت کی۔ دوسری طرف وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے اسد عمر‘ رزاق دائود اور ندیم بابر پر تنقید کی اور وزیر اعظم سے کہا کہ حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ صرف کابینہ کے اراکین ہی اپنی حکومت پر تنقید نہیں کر رہے قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے اپنے اراکین وفاقی بجٹ میں زرعی اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے ناکافی فنڈ فراہم کرنے پر سیخ پا دکھائی دیئے۔اراکین نے پٹرول کی قلت اور وزراء کی ایوان سے مسلسل غیر حاضری پر تنقید کی۔ پی ٹی آئی اراکین سردار ریاض محمود مزاری اور جنید اکبر نے پنجاب میں امن و امان کی خراب صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔ فیصل آباد سے تحریک انصاف کے رکن راجہ ریاض نے پٹرول کی قلت اور حکومت میں شامل غیر منتخب لوگوں کو حکومت کی بری کارکردگی کی وجہ قرار دیا۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے حکومتی صفوں میں اس نااتفاقی کے سوال پر کہا کہ تحریک انصاف میں پہلے گروہ بندی تھی لیکن اب ایسی کوئی صورت حال نہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کا جو رکن بیٹھا ہے وہ عمران خان کے نام پر بیٹھا ہے‘ کوئی اس حوالے سے غلط فہمی میں نہ رہے۔ تحریک انصاف پہلے دن سے جس نعرے پر مقبول ہوئی وہ بلا امتیاز احتساب کا ہے۔ عمران خاں اپوزیشن کے 22سالہ دور میں سابق حکمرانوں کی ترجیحات‘گورننس اور بدعنوانی کو مسلسل ہدف بناتے رہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں وزراء کی نالائقی پر عمران خان کھل کر بات کرتے رہے۔یہ درست ہے کہ عمران خان کی ذات کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بدعنوان نہیں۔سابق حکمرانوں پر انہیں جو واحد فوقیت حاصل ہے وہ یہی ہے لیکن گورننس‘ترجیحات اور وزراء کی اہلیت کے حوالے سے ان کی حکومت سابق حکومتوں سے الگ دکھائی نہیں دیتی۔ اکثر ایسے لوگ وزیر ہیں جو اپنی وزارت اور عمومی معلومات سے واقف نہیں۔ ایک خاتون وزیر آئے روز ایسے شگوفے چھوڑتی رہتی ہیں جن سے یہ تاثر مستحکم ہو رہا ہے کہ کپتان اپنی مضبوط اور اہل ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوا۔فواد چودھری سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں کرنے والے سینکڑوں کام چھوڑ کر ایسے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں جن سے مذہبی طبقات کے ساتھ حکومت کی لڑائی کا گمان ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جولائی 2018ء کے بعد تحریک انصاف کو جو اقتدار ملا وہ کئی پہلو سے لولا لنگڑا ہے۔ ملک پر قرضوں کے بوجھ نے اس کی معاشی آزادی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ آئی ایم ایف جیسے ادارے پاکستان کا بجٹ بناتے ہیں اور ان کی اجازت سے ٹیکس کم کرنے اور تنخواہیں بڑھانے جیسے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ افسر شاہی سابق حکمران جماعتوں کے ہاتھ میں کھیل رہی ہے۔ ہر سرکاری ادارہ انحطاط اور زوال کا شکار ہے۔ اس صورت حال میں پولیس کلچر میں اصلاح‘ عدالتی نظام کو غریب اور امیر کے لئے مساوی بنانا‘ ملک سے اقربا پروری اور بدعنوانی کا خاتمہ بے روزگاری کو روزگار کی فراہمی اور بے گھروں کے لئے گھروں کا انتظام کر کے حکومت عام آدمی کے دکھوں میں کمی کا چارہ کر سکتی تھی لیکن حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف دو سال کے دوران اپنا کوئی ایک وعدہ پورا نہیں کر سکی۔اس کا ایک سبب منصوبہ بندی کا فقدان اور حکومتی وزراء کا اپنے فرائض کی بجائے دیگر معاملات میں دلچسپی لینا ہے۔پی ٹی آئی نے جن وعدوں پر الیکشن جیتا تھا آئے والے انتخابات میں انھیں ان کا جواب دینا ہو گا ،ماضی میں تووہ یہ کہ کر بری الذمہ ہو جاتے تھے کہ یہ کام مسلم لیگ ن اور پی پی نے کیے ہیں لیکن اقتدار ملنے کے بعد اب وہ یہ بات نہیں کر سکتے اس لیے حکمران جماعت کو منصوبہ بندی کے عوامی مسائل حل کرنے چاہیں ،اسی بنا پر وہ سر خرو ہو سکتی ہے ۔ تحریک انصاف کی پذیرائی کی ایک وجہ عمران خان خود ہیں جبکہ دوسری وجہ عام آدمی کا دیگر سیاسی جماعتوں کی برسہا برس کی مایوس کن کارکردگی ہے۔انتخابات میں ووٹ ہمیشہ کارکردگی کی بنیاد پر ملتا ہے۔ اس بات کا خدشہ ابھر رہا ہے کہ حکومتی صفوں میں نظم و ضبط کا فقدان رہا اور وزراء نے سنجیدگی کے ساتھ اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ نہ دی تو عمران خان کی شخصیت بھی اس میں بہہ جائے گی۔ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی حکومتی صفوں میں موجود نااتفاقی اور غیر سنجیدگی کے باعث حکومتی اتحادیوں کے ساتھ رابطے بڑھانے کا عمل تیز کر چکی ہیں۔ یہ صورت حال کسی لحاظ سے اطمینان بخش نہیں۔ وزیر اعظم کو خود ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے متحرک ہونا چاہیے تاکہ عام آدمی کی امید زندہ رہے۔