بٹ صاحب زندگی میں امید اور نوید کے ساتھ محو سفر رہے۔ چار دہائیاں گزریں جب پہلی بار ان سے ملاقات ہوئی۔ ابلاغ کی دنیا بھی عجیب ہے‘ پی آئی اے کے تعلقات عامہ کے جنرل مینجر کی حیثیت سے ان کا والہانہ پن آج بھی یاد ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ ملاقاتوں میں بے تکلفی کا رنگ غالب آتا گیا۔ مجھے یہ معلوم ہی تھا کہ وہ تعلقات عامہ کے ساتھ ساتھ صحافتی میدان کے بھی شہسوار ہیں۔ نہ جانے وہ زندگی کے اس سفر میں کہاں سے کہاں تک پہنچنے کے آرزو مند تھے۔ کن کن اہداف کی تمنا کرتے ہوں گے‘ لیکن ہم جس خالد بٹ صاحب کو جانتے تھے وہ ایک کھلی کتاب کی طرح تھے جسے ہر کوئی پڑھ سکتا تھا۔ نہ شخصیت میں مزاح کا رنگ غالب تھا‘ نہ لب و لہجے میں کبھی تلخی دیکھی۔ ایک خوش اخلاق گپ شپ لگانے والے انسان تھے۔ پی آئی اے میں تعلقات عامہ کی سربراہی کے دوران ان کا حلقہ احباب اتنا وسیع ہوگیا تھا کہ اسے نمٹاتے اور سمیٹتے ہوئے ان کے پاس اپنے لئے بہت کم وقت بچتا۔ بحیثیت صحافی وہ مشکل سے مشکل بات کہنے کا سلیقہ جانتے تھے۔ سوچ و فکر اور قلم کا کمال تھا کہ جو ذمہ داری بھی نبھائی اور جہاں بھی نبھائی اپنے ادارے کو وقار کے ساتھ بلندی کی طرف گامزن کیا۔ پی آئی اے کے دور تو ہم نے بہت سے دیکھے۔ عروج بھی اور زوال بھی۔ ایئر مارشل نور خان کی سربراہی کے دور میں پی آئی اے کا شمار دنیا کی تین بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا۔ اس دور سے پی آئی اے کے تعلقات عامہ کو بڑی اہمیت تھی۔ درحقیقت یہ شعبہ قومی ایئر لائن کی امیج میکنگ کا کام کرتا تھا۔ خالد بٹ صاحب 80 کی دہائی میں اس شعبے کے ایسے ایکٹو کردار تھے جو ہم میڈیا والوں کے ساتھ اپنی شاندار روایات کو برقرار رکھتے رہے۔ اس دور میں پی آئی اے نے کئی اہم مواقع پر میڈیا پرسنز کو ملکی اور غیر ملکی سیر کرائی۔ متعدد ایسے دورے آرگنائز کئے گئے‘ یوں سمجھ لیں سیر سپاٹا بھی تھا‘ امیج میکنگ بھی۔ مقصدیت سے بھرپور کوریج بھی ایک بار جب پی آئی اے نے راولپنڈی سے اسکردو تک بوئنگ سروس کا آغاز کیا تو اس کی افتتاحی فلائٹ پر صحافیوں کو کراچی سے لے جانے اور میزبانی کی ذمہ داری جناب خالد بٹ کے ذمہ تھی۔ وہ ایسی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے کہ جرنلسٹ کوئی بھی ہوتا‘ اس کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہوتا‘ بٹ صاحب اپنے دلچسپ جملوں سے ہر کسی پر محبت کے پھول بکھیرتے رہتے۔ یہ دورہ مجھے ہمیشہ اس لئے یاد رہے گا کہ اس میں مجھے کئی نئے دوست ملے‘ جن میں سب سے زیادہ خوشگوار لمحہ برادرم یوسف خان سے شناسائی تھی۔ میں روزنامہ جنگ کی طرف سے تھا اور یوسف خان اس وقت نوائے وقت میں تھے۔ اخبار خواتین کی محترمہ شمیم اختر اور محترمہ ش م فرخ سے بھی اسی دورے میں پہلی بار ملاقات ہوئی۔ یوسف خان سے پہلی ملاقات میں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ تو سراپا مزاح ہیں۔ چمکتی دمکتی باتیں‘ گدگدی کرتے چٹکلے اور سب سے بڑھ کر دگنی رفتار سے زندگی بسر کرنے کا فن‘ اس لئے جلدی چلے گئے۔ 45 سال میں 90 سال کا سفر طے کرگئے‘ کیا کیاں خوبیاں گنواؤں۔ خالد بٹ صاحب کے ساتھ دوروں نے بہت سے نئے دوست متعارف کرادیئے۔ بٹ صاحب جب بیمار ہوئے تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ اب زندگی ادویات کے سہارے گزارنی پڑے گی۔ انسان وقت سے پہلے موت کو عموماً اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ لیتا ہے۔ پھر کفن کی سفید چادر اوڑھے تنہا اس طویل سفر پر چلا جاتا ہے۔ ایک ایسی منزل جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ خالد بٹ ذاتی دوستی کے معاملے میںبے حد محتاط تھے۔ اس کے باوجود ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ نظریاتی لحاظ سے سچے اور بھرپور پاکستانی تھے۔ شستہ اردو بولتے‘ کبھی کبھی پنجابی زبان سے ذائقہ تبدیل کرلیتے۔ ابلاغ کے ماہر تھے۔ جب بھی تشہیر اور ابلاغ کا مرحلہ آتا تو ہر پہلو اور ہر زاویہ سے نوک پلک سنوارنے کے ماہر تھے۔ جانتے تھے کہ غیر متعلقہ حضرات کی غیر پیشہ وارانہ مداخلت سے میڈیا میں بات متنازعہ ہوجاتی ہے۔ قدم قدم پر مشاورت کرنے کے عادی تھے۔ برادرم سجاد میر کے ساتھ ان کا تعلق برادرانہ اور ارادت والا تھا۔جب ان کا بنیادی جوہر صحافت جاگتا تو پھر وہ انسائیکلو پیڈیا بن جاتے۔ ان کی ابلاغی جہت بہت توانا تھی۔ اس لئے کبھی اجنبی یا غیر مانوس شخص سے ملتے تو محسوس ہوتا تھا کہ ایک زندہ دل مسکراتے شخص نے گرمجوشی کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ تعلقات عامہ کی نشست سے ہٹ کروہ ایک بے قرار ایڈیٹر تھے۔ اپنی قابلیت‘ تجربے‘ صحافتی اثر و رسوخ کے باعث ایک سایہ دار شخصیت کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کی پوٹلی میں مشرقی پاکستان کے سانحہ کے حوالے سے کئی معتبر شہادتیں اور واقعات تھے۔کئی زندہ کردار ان کے رابطے میں تھے۔ میں نے ایک دن کہا کچھ بتائیں تو ہمارا ایک معلوماتی مضمون بن جائے یا ان باتوں کو آپ خود سمیٹ لیں۔ تو کتاب مرتب ہوجائے گی۔ ضبط تحریر لانے میں ہچکچاہٹ دکھائی۔ کہنے لگے جو کہہ رہا ہوں میرا حوالہ دیئے بغیر لکھ سکتے ہو۔ پھر کہنے لگے کچھ لکھیں بھی تو ہم سبق حاصل کرنے والی قوم نہیں ہیں۔ ہمارے ہیرو اور ولن سرکاری محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کراچی کے صحافیوں کے سوالات لاہور کے صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ نوکیلے ہوتے ہیں۔ایڈیٹر کی کرسی پر بیٹھ کر ان کی گفتگو میں ’’عالمانہ ٹچ‘‘ آجاتا تھا۔ مجلسی انسان تھے۔ جب سیاست پر بات ہوتی تو دلچسپ جملوں سے اس موضوع کی تواضع کرتے۔ ایک دن کہنے لگے‘ جس کے منہ میں جو آرہا ہے اگل رہا ہے‘ گم سم رعایا حیرت‘ مایوسی اور بے بسی سے سارے مناظر دیکھ رہی ہے۔ یہ ایسی فلم ہے جس کا شاید ابھی انٹرول بھی نہیں ہوا۔ وہ سمجھتے تھے کہ سیاست سے ماورا فیصلے انتہا پسندی کو جنم دیتے ہیں اور اس طرح جغرافیائی سرحدیں آہستہ آہستہ کمزور اور بے معنی ہوجاتی ہیں۔ اسپورٹس کے مداح تھے اور بے شمار کھلاڑیوں سے ان کے حلاوت اور محبت والے رشتے تھے۔ خالد بٹ نے ایک بھرپور انداز سے زندگی گزاری۔ زندگی بھر امید بھری نگاہوں کے ساتھ کچھ نیا کرنے کی جستجو کرنے والے خالد بٹ اپنے حلقہ احباب کو حد درجہ افسردہ اور ویران کرگئے۔ وہ سب جو برسوں انہیں تلاش کرتے رہیں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسے زندہ دل اور بے شمار خوبیوں کے حامل ایسے پیارے انسان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔ آمین۔ ٭٭٭٭٭