ْپہلے یہ دو منظر دیکھ لیجیے۔ صدیقی صاحب محلے کے سب سے نیک نام آدمی ہیں۔ ان کی شرافت اور امانت کی، قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ یہاں کے باسیوں کو دسیوں مسائل کا سامنا ہے۔ گلیوں کی صفائی ٹھکانے سے نہیں ہوتی۔ ذرا بارش ہوئی اور بقول ِشخصے، کیچڑ نے یہ حالت کر دی کہ ع جوتا ہے گلی میں، تو آپ گھر میں یہاں بچوں کا ایک اسکول بھی ہے۔ لیکن اسے صرف نام کا اسکول کہیے۔ اساتذہ اگر بھْولے سے بروقت آ بھی جائیں تو قابلیت کے اعتبار سے صفر ہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر، یہاں بے امنی بھی ہے۔ جس تھانے کی حدود میں یہ محلہ آتا ہے، وہاں کسی کی شنوائی نہیں ہوتی۔ الا کہ سفارش اور تگڑی سفارش کرائی جائے، سارا عملہ، بے عملی اور سستی کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ اہل ِمحلہ، ان تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ صدیقی صاحب، نہ صرف بہت قابل اور پڑھے لکھے آدمی ہیں، بڑے محنتی اور سخت کوش بھی ہیں۔ اگر ان سے استدعا کی جائے تو ضرور دست گیری کریں گے۔ اس محلے کا مقدمہ، سب سے بہتر، یہی لڑ سکتے ہیں۔ محلہ چونکہ سب کا سانجھ ہے، اسی واسطے، سارے معززین صدیقی صاحب کے دروازے پر پہنچے ہیں۔ صدیقی صاحب کو اتنی بڑی ذمے داری اٹھانے میں تامل ہے۔ اپنا پنڈ چھڑانے کیلئے کہتے ہیں کہ میں فلاں پراجیکٹ میں اس بری طرح پھنسا ہوا ہوں کہ معذرت کرتا ہوں۔ یہ سارے کام، انصاری صاحب یا زیدی صاحب بھی کرا سکتے ہیں۔ محلے بھر پر، اوس پڑ جاتی ہے۔ صدیقی صاحب، یہ دیکھ کر پسیج جاتے ہیں۔ آدمی چونکہ نیک ہیں، آخر ِکار حامی بھر لیتے ہیں۔ لیجیے سوکھے دھانوں پانی پڑ گیا۔ لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دل میں صدیقی صاحب بھی سرشار ہیں کہ اپنے ہمسایوں کی کتنی بڑی خدمت کرنے کا، انہیں موقع مل رہا ہے۔ یہ صاف دل ہیں، سو کہہ دیتے ہیں کہ اس میں وقت بڑا صرف ہو گا۔ کچھ کام ہم سب کے کرنے کے ہیں۔ پھر ہنس کر کہتے ہیں کہ اگر کسی معاملے میں، نوبت پیٹ پر پتھر باندھنے کی آ گئی، تو ہم ساروں کو ایک ساتھ اس سے گزرنا ہو گا۔ اب اس دوسرے محلے کو دیکھیے۔ خرابیوں میں یہ، پہلے محلے سے اْنیس ہی ہو گا، بیس نہیں۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے، یہاں کے رہائشیوں کو بھی تحریک ہوتی ہے۔ ایسے میں، خبر لگتی ہے کہ فلاں چودھری صاحب، گھر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ گزارش کر رہے ہیں کہ خدارا! یہ کام مجھے سونپ دو۔ پھر دیکھو، کیسے چْٹکی بجاتے، یہ سارے مسائل، میں حل کراتا ہوں۔ چودھری صاحب بڑے کھاتے پیتے آدمی ہیں۔ اہل ِمحلہ شش و پنج میں ہیں۔ اور وہ اس لیے کہ اَور تو کبھی انہیں توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے دیوار شریک ہمسایوں کی بھی خوشی غمی میں شریک ہوں، یہ آج کیا جاتی دنیا دیکھ لی کہ اپنی سخت مصروفیت کے باوجود ہمارے پاس آئے ہیں۔ اہل ِمحلہ اسی دبدھا میں تھے اور ممکن تھا کہ ان کے وعدوں پر ایمان لے آئیں۔ اچانک پتا چلتا ہے کہ فلاں گیلانی صاحب بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ گیلانی صاحب نے ایک لقب خود اختیار کر لیا ہے "آپ کا خادم"۔ انہوں نے شام کو ایک دعوت بھی دے رکھی ہے، جس میں قیمے کے نان اور بریانی سے تواضع کی جائے گی! یہ دونوں منظر آپ نے دیکھ لیے؟ انہیں بنیادی طریقہ واردات سمجھ لیجیے۔ جمہوریت کی موجودہ شکل، اس سے کتنی مختلف ہے؟ ووٹ حاصل کرنے کے لیے، کیا آسمان کے برابر اونچے دعوے، نہیںکیے جاتے؟ دعوے کرنے والے، نیک نام کتنے ہیں؟ جمہور کا نمائندہ، کیا جمہور میں سے نہیں ہونا چاہیے؟ عوام کے کتنے "خادم" ہیں، جو اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے، اقتدار سے الگ ہو جاتے ہیں؟ یہ کیسا نظام ہے، بیشتر ممالک میں، جس میں شریک ہونے والوں کی تعداد، پچاس فیصد سے بھی کم ہے۔ مگر اس سے "فیض یاب" سو فیصد کو ہونا پڑتا ہے۔ شریک ہونے والے، تقریباً سارے کے سارے، یا اِس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور یا اْس پارٹی سے! ان دو جماعتوں کے سوا، کوئی تیسری جماعت کیوں پنپ نہیںپاتی؟ کسی بے غرض اور آزاد رو آدمی پر، خدا کی کیا مار ہے کہ وہ عوام کی خدمت کرنے کے دعووں کی، صرف تشہیر پر ہی، کروڑوں روپے خرچ کر دے؟ ع دل بدست ِدگری دادن و حیران بودن؟ اگر تشہیری مہم پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ہیں، تو ضرور اس سے پہلے، اربوں روپے واقعی خدمت پر بھی خرچ کیے ہوں گے۔ ارے مگر یہ کیا؟ ان کے نامہ اعمال میں، عوام کی خدمت کا ورق بالکل سادہ پڑا ہے۔ بلکہ عوام کو لوٹنے کا، ایک پورا دفتر تیار موجود ہے! اکثر، ایسا بھی ہوتا ہے کہ روپیہ ان کی جیب سے کم نکلتا ہے۔ اور یا ان کی پارٹی خرچ کرتی ہے یا سرمایہ دار، ان پر سرمایہ لگاتے ہیں۔ یہ اور زیادہ خطرناک ہے۔ وہ یوں کہ اپنی جیب سے خرچ کرنے والا، کم از کم لوٹ مار اپنی مرضی سے اور محدود پیمانے پر کرے گا۔ لیکن پارٹی یا ثروت مندوں کے اٹھائے ہوئے امیدوار صاحب، اب یرغمالی ہیں۔ نہ ان کی اپنی رائے ہے اور نہ دل میں کوئی نیک عزم ہی رکھ سکتے ہیں۔ عوام اپنے خادموں کو، خود تلاش کرتے تو نوبت یہاں تک آتی ہی کیوں! اپنی اپنی جماعتوں کے، یہ اسیر ہیں۔ وہی بات ع کہ خدمت ِدیر کی بدولت، حرم کے مخدوم بن رہے ہیں یہ کیا کہ دیکھے برتے بغیر، صرف پارٹی بازی میں، امیدوار صاحب کو ووٹ دینے کے لیے، اتاولے ہوئے جا رہے ہیں ؟ عوامی رائے اور انتخاب کو، گلی اور محلے کی سطح سے شروع ہونا چاہیے۔ اس طرح بالواسطہ، ہر ایک اس نظام کا حصہ بن جائے گا۔ مثالی جمہوریت میں، انتخابی مہم پر ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ روپے خرچ کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب یہ ایک بزنس ہے! انتخابی نظام سے، جب تک روپیہ پیسہ نکال نہ دیا جائے، ایمان داروں کا آگے آنا قریب قریب محال ہے۔ ورنہ اسی طرح، مکھی پر مکھی مارتے چلیے اور دنیا ڈونلڈ ٹرمپوں، نریندر مودیوں، نواز شریفوں اور زرداریوں کو، اسی طرح بھگتتی رہے گی! ٭٭٭٭٭ مفتی صاحب کی نظر بندی مفتی منیب الرحمن صاحب اپنی تحریروں اور بیانات سے، ایک معتدل مزاج عالم ِدین کی شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے معتدل مزاج علماء کو، ساتھ لے کر چلنا چاہیے تاکہ انتہا پسندی اور اعتدال میں، تفریق کی جا سکے۔ سارے علماء دین کو مولانا فضل الرحمن کا مثیل سمجھنا، سخت نقصان دِہ ہو گا! مفتی صاحب اپنی تحریروں میں اور غالباً بالمشافہ بھی، وزیر ِاعظم کو بڑے صائب مشورے دیتے رہے ہیں۔