ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی ہمیں ہونا تھا رسوا‘ ہم ہوئے ہیں کسی کی ہم نے بھی مانی نہیں تھی مجھے خالد احمد یاد آئے کہ کھلا مجھ پردر امکان رکھنا‘ مولا مجھے حیران رکھنا۔ افسوس کہ ہمارے پاس یہ جوہر نہیں ہے۔ وہی کہ متاع احساس زیاں ہم سے جاتی رہی۔ وہی کہ ’’پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی‘ اب کسی بات پر نہیں آئی۔‘‘ ہماری بے بسی اور بے حسی نے ہمیں پژمردہ کر دیا ہے اور دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ وہ ملک جو ہم نے کتنے چائو سے بنایا تھا۔ تاریخ کے دھارے پر رکھی ہوئی ہماری خوں چکاں قربانیاں‘ اس کو کسی صورت بھی دہرایا نہیں جا سکتا۔ میرے پیارے وطن کا کیا حشر کر دیا گیا ہے کہ خودبخود نشر بھی ہورہا ہے۔ ایک لمحے کے لیے قائداعظم کا تصور ذہن میں لائیے کہ جو کابینہ کے اجلاس سے پہلے کہتے ہیں کہ ممبران گھر سے چائے پیکر آئیں۔ خدا کی قسم بعض اوقات تو دماغ مائوف ہو جاتا ہے۔ دل بیٹھنے لگتا ہے اور حواس شل ہونے لگتے ہیں۔ آپ دور نہ جائیں ایک سینٹ کے الیکشن اور چیئرمین کا انتخاب ہی دیکھ لیں کہ قدرت نے کس طرح سب کو ایکسپوز کیا ہے۔ کہ جنہوں نے تمام اخلاقیات‘ روایات و اقدار پامال کردیں۔ سچ مچ آنکھ کا پانی مر جاتا ہے۔ ضمیر سو جاتا ہے اور احساس شرف کھو جاتا ہے۔ میں اس پر کالم ہرگز نہیں لکھنے جارہا۔ کومل جوئیہ کے ایک خوبصورت شعر پر اس موضوع کو یہیں چھوڑتے ہیں: میں اپنی بے بسی کو بے حسی کا نام دیتی ہوں میں ان باتوں پہ ہنس پڑتی ہوں جن پر رو نہیں سکتی آج میں مولانا وحید الدین کا ایک کلپ دیکھ رہا تھا تو میں سرشاریوں میں ڈوب گیا۔ سوچا کہ اپنے قارئین سے اس موضوع پر بات کی جائے۔ یہ ہے خاموشی جسے ہم شاعری میں خامشی بھی لکھتے ہیں۔ خامشی نے کیا سفر کیسے۔ اسے میری ہوئی خبر کیسے۔ انہوں نے نہایت دلچسپ قصہ سنایا کہ ایک مرتبہ کوئی بدیسی نوجوان جو علم کی پیاس رکھتا تھا ان سے ملا۔ خان صاحب نے پوچھا کہ وہ آج کل کیا کر رہا ہے۔ اس طالب علم نے کہا کہ وہ سائلنس Silence یعنی خاموشی پر تحقیق کر رہا ہے اور تھیسز لکھتے جارہا ہے۔ وحیدالدین صاحب نے کہا تھا تو اس حوالے سے پیارے پیغمبر محمد الرسولؐ اللہ کی ایک حدیث ہے جس کا مفہوم ہے‘ خاموشی نجات دیتی ہے۔ وہ طالب علم چونک کر کہنے لگا کہ وہ اس حدیث کو نوٹ کرے گا۔ وہ بہت ہی متاثر ہوا۔ اس بات میں معنی کا ایک جہان بند ہے۔ بعض اوقات خاموشی بولنے سے کہیں بہتر ہوتی ہے۔ خاموش رہنا آسان نہیں۔ خاموش وہ رہتا ہے جس کا ذہن سوچ میں یکسو ہوتا ہے۔ یہ بھی تو ایک پراسس ہے کہ ذہن فیصلہ کرلے کہ نہیں بولنا اور خاموشی رہنا ہے تو گویا یہ بھی ایک ابلاغ ہے‘ ایک پیغام ہے اور بولنے کے لیے فیصلے کا وقفہ ہے۔ سمندر کی خاموشی بھی تو اس کی گہرائی کا پتہ دیتی ہے: ظرف ہر ایک کا خواہش میں چھپا ہوتا ہے جو ترستا ہے سمندر کو وہ صحرا ہو گا واقعتاً سوچنے کی بات ہے کہ ہم سوچتے نہیں بول دیتے ہیں بلکہ بے ارادہ منہ کھول دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے تول اور پھر بول۔ انجم رومانی یاد آئے کہ دوستوں کی چھیڑ چھاڑ میں وہ کہہ گئے: پہلے تول وحید قریشی پھر بھی نہ بول وحید قریشی مگر یہ مرحلہ ہے اسے باربھی کرنا ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ بولو کہ پہچانے جائو۔ یعنی اچھی طرح خاموشی کے مرحلے میں سوچ بچار کرنے پر وقار انداز میں مکالمہ کیا جائے ہر کسی کویاد ہو گا کہ صبر کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مجبوری کا نام شکریہ والی بات نہیں بلکہ صبر اپنی حکمت عملی طے کرنے کا موقع یا چانس ہے۔ مزاج کے ٹھہرائو کی تلقین ہے ایک اور بات کی طرف مولانا نے توجہ دلائی کہ ہم خورونوش میں بعض اوقات رسولؐ کی پسند بتاتے ہیں کہ لوکی یعنی کدو بہت پسند تھا‘ گوشت کا سریر یعنی شوربہ ،اسی طرح کچھ اور۔ انہوں نے فرمایا کہ انہوں نے اس پر تحقیق کی۔ بتا رہے تھے کہ ایک انصاری نے جب دیکھا کہ آپ نے کھانا تک نہیں کھایا تو وہ حضورؐ اور کچھ صحابہؓ کو اپنے گھر پر لے آئے۔ صحابی نے بیوی کو بتایا تو پریشان ہوئی کہ پہلے بتانا چاہیے تھا تاکہ شایان شان کھانا تیار ہوتا۔ اس وقت تو گھر میں کچھ کھجوریں‘ کچھ دودھ اور اسی طرح کچھ ایسی ہی چیزیں ہی تھیں۔ صحابی وہی چیزیں لائے اور پیش کردیں۔ حضورؐ نے ان چیزوں کی بہت تعریف کی کہ جیسے انہیں بہت پسند ہیں۔ مولانا وحید الدین نے یہ نکتہ بیان کیا کہ اس میں آپؐ کی اعلیٰ ترین اخلاقیات تھیں کہ صحابی کو محسوس ہی نہیں ہونے دیا اور انہیں پشیمان ہونے سے بچالیا۔ یہ مہمان کی شان ہے۔ اب اس کو حضورؐ کی پسند میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک اور بات انہوں نے کہی کہ ہمیں حضورؐ کی تعلیمات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ کھانا یا لباس وغیرہ ثانوی چیزیں۔ ترجیح میں توحید رسالت اور دوسرے دینی معاملات سرفہرست ہیں۔ حضورؐ کی پسند کو اپنی پسند بنانا اور حضورؐ کی آرزو کو اپنی آرزو بنانا حکمت و دانائی ہی نہیں محبت بھی ہے۔ تو ہے روشنی میری آنکھ کی تراؐ راستہ مرا راستہ مجھے حکمتوں کی تلاش تھی میں ترےؐ دیار میں آ گیا خاموشی کے حوالے سے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم ذرا اپنے اردگرد غور کریں کہ کیا شور شرابا ہے۔ خاص طور پر آپ ٹی وی ٹاکس ہیں کہ سب بول رہے ہیں اور بولتے چلے جا رہے ہیں۔ ویسے حضرت علیؓ کے قول کے مطابق پہچانے بھی جاتے ہیں مگر حضرت علیؓ تو کسی اور پہچان کی بات کر گئے کہ حضرت انسان کو اللہ نے اشرف المخلوق بنایا۔ وہی کہ آپ بات کریں تو بات سے خوشبو آئے۔ آپ کے باطن کی پاکیزگی لفظوں میں ڈھیلی ہو۔ فضول بولنے سے تو خامشی لاکھ درجے بہتر ہے۔ ایسے ہی فضول رتجگے سے نیند قیمتی نہیں ہے۔ اسی طرح زندگی بے مقصد ہو جائے تو کس کام کی۔ وہ شخص خوش قسمت ہے کہ جس کی خوشی اس کا مقصد بن جائے اور یہ مقصد دوسروں کے لیے جینا ہو۔ وگرنہ تو خوشی بھی محض جھاگ کی طرح ہے۔