یہ خبر بہت حیرت اور دلچسپی سے سنی گئی کہ وزیر اعظم پاکستان دو دن کی چھٹی پر جا رہے ہیں۔ ملک کے جو حالات ہیں ان کے پس منظر میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ ہمارے ہاں تو دیکھتے دیکھتے خبر سازش بن جاتی ہے اور اسے مرضی کے معنی پہنا دیے جاتے ہیں۔ سیاست کے دو اہم ارکان آپس میں معمول کی ملاقات بھی کریں تو پوچھا جاتا ہے کہ اس کا پس منظر کیا ہو سکتا ہے۔ باڈی لینگوئج جسے اب بدن بولی کہا جانے لگا ہے‘ اس کا جائزہ شروع ہو جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے دھرنا ختم کیا تو یہ پوچھا جانے لگا انہوں نے ایسا کیوں کیا‘ ان کے مقاصد تو پورے نہیں ہوئے۔ وزیر اعظم کا استعفیٰ تو وہ لے نہیں پائے۔ پھر آخر وہ کیا لے کر اٹھے ہیں۔ اگر انہیں کچھ نہیں ملا تو یہ ان کی شکست ہو گی اوراگر ملا ہے تو کس سے ملا ہے کیا ان سے کچھ وعدے وعید ہوتے ہیں۔ اس سب کا پاکستان کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا۔ ہاں یہ بات معمولی نہیں کہ اس معاملے میں چودھری برادران بھی سرگرم ہوئے ہیں اور خاص کر چودھری شجاعت اپنی علالت کے باوجود فعال نظر آتے ہیں۔ چودھری برادران کو پنجاب کی روایتی سیاست کا اہم کردار گنا جاتا ہے۔ جب چودھری پرویز الٰہی سپیکر بنے تو یہ تاثر عام تھا کہ وہ آئندہ کے وزیر اعلیٰ ہوں گے یا کم ازکم پنجاب میں عمران خاں کی سیاست کے مرکزی کردار رہیں گے۔ اب پوچھا جانے لگا معلوم کرو کیا ہو رہا ہے۔ پھر چودھری برادران کے اسٹیبلشمنٹ سے خوشگوار تعلقات شمار کئے جاتے ہیں۔ ان دنوں بھی طعنے ملنے لگے کہ یہ مولانا کو کیا دلائیں گے۔ ان کی مصالحت کی کوششوں سے تو اکبر بگتی بھی مارے گئے اور لال مسجد پر بھی آپریشن ہوا۔ چلئے ایسا ہی سہی مگر اس سے تو ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اندازہ ہو گیاہو گا کہ سیاست میں ان کا نکتہ نظر درست ہوا کرتا ہے۔ وہ بہت زیرک‘ نکتہ رس اور سوجھ بوجھ والے لوگ ہیں۔ ان کے میدان میں آنے کا مطلب یہ لیا جانے لگا کہ وہ مولانا کو مقتدر حلقوں سے قریب کر سکتے ہیں۔ سوچاجائے کہ اوپر جو بہت کچھ نقل کیا گیا ان کا آپس میں تعلق کیا ہے۔ ابھی تو ایک بات اور بھی رہتی ہے اور وہ نواز شریف کی علالت کے بعد ملک سے باہر جانے کا مسئلہ۔ اس میں خاص طور پر اگر اس ٹویٹ کو بھی شامل کر لیں جو شریف خاندان کے ایک فرد نے جوش جذبات میں کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ دیکھا شہباز شریف کیسے اپنے بھائی کو جیل سے نکال کر لے گئے جس کے بارے میں یہ تک کہا گیا تھا کہ اس کو جیل میں ایئر کنڈیشن ‘ اے سی وغیرہ کی سہولتیں دی گئی ہیں‘ وہ چھین لی جائیں گی۔ یہ بات بڑی رعونت سے کہی گئی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس ٹویٹ ہی نے حکومت کو یوٹرن لینے پر مجبور کیا اور صورت حال یہاں تک پہنچی کہ بالآخر وزیر اعظم نے دو دن کی چھٹی کی درخواست دے ڈالی۔ کیا ہونے والا ہے‘ کوئی کچھ نہیں جانتا۔ کوئی کہہ رہا ہے تبدیلی آ رہی ہے۔ آ نہیں رہی بلکہ آ گئی ہے۔ اسلام آباد کی فضائوں میں افواہیں خوب پھلتی پھولتی ہیں۔ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ بعض اوقات یہ افواہیں درست بھی ثابت ہو جاتی ہیں۔ اس وقت نومبر کا مہینہ‘ نواز شریف کی علالت ‘ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا‘ پھر دھرنے کا خاتمہ اور فیز 2کا آغاز‘ خاموش سیاسی قوتوں کا متحرک ہونا۔ ان قوتوں کی اہمیت ان کا بیان بازی پر اتر آنا‘ ہاں ایک بات اور کہاکہ ان کے متحرک ہونے پر حکمران جماعت کی مصالحتی کمیٹی کا اچانک برا منا جانا۔ آخر یہ کس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اب ایک ہی بیانیہ ہے جو مختلف انداز سے بعض حلقوں نے اختیارکر رکھا ہے۔ چھوڑو اب کرپشن کی کہ کہانی‘ لوگ کارکردگی کا پوچھتے ہیں۔ اصل مسئلہ گورننس ہے اور کوئی بات نہیں۔ یہ غریب ‘ یہ مہنگائی ‘ بے روزگاری یہ سب بری گورننس کا نتیجہ ہے۔ عوام کو اس سے غرض نہیں کہ آئی ایم ایف کے اصولوں کے مطابق آپ نے معیشت کو کیا چار چاند لگا دیے ہیں‘ یہ بتائوکہ عوام کے اشاریوں میں کیا بہتری آئی ہے۔ ٹماٹرتک مل نہیں رہے‘ آلو ‘ پیازکو آگ لگی ہے۔ اس بار فصلیں بھی تباہ ہوئی ہیں۔ گندم ‘ چاول ‘کپاس ہر فصل کا معیار بھی برا ہے اور اس کی مقدار بھی۔ ڈر ہے آنے والے دن زیادہ خراب ہوں گے۔ لاکھ دنیابھر کے اقتصادی ادارے کہتے رہیں کہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ ہماری منڈیاں اجاڑ پڑی ہیں‘ غریب آدمی جیسے اب رو رہا ہے‘ ویسے کبھی نہ تھا۔ اس لئے حکومت کا سارا نشہ اتر گیا ہے۔ وہ سب ادارے جنہیں ملک کے مستقبل کے بارے میں تشویش رہتی ہے۔ وہ بجا طور پر پریشان ہیں۔ یہ تاثر پھیلتا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پیچھے ایمپائر کا ہاتھ تھا۔ اس لئے ان حالات کی خرابی کی ذمہ داری ایمپائر پر بھی آتی ہے۔ ظاہر ہے یہ بوجھ کوئی بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اس سے پہلے کہ سارے معاملات ہاتھ سے نکل جائیں ملک کے معاملات کو کھلنڈرانہ طریقے سے چلانے کے بجائے کوئی عقل مندی کا مظاہرہ کیا جائے۔ جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں‘ مولانا فضل الرحمن کا انٹرویو بھی آ گیا ہے کہ وہ پرویز الٰہی کے اس بیانئے کو مستردکرتے ہیں کہ انہوں نے کی مفاہمت کے نتیجے میں اسلام آباد کا دھرنا ختم کیا ہے۔ لگتا ہے جو تبدیلی آ رہی ہے یا آ چکی ہے اس پر بھی کوئی یک سو کسی کو اندازہ نہیںکہ آنے والے دنوں کا بندوبست کیا ہو گا۔ اتنا مگر طے ہے کہ مزید کھلنڈرا پن اب نہیں چلے گا۔ پاکستان کوئی بنانا ریاست نہیں کہ حالات کے ریلے اسے اپنی رو میں بہا لے جائیں۔ اس کا ایک مضبوط ڈھانچہ ہے۔ اس ڈھانچے کو ہم عموماً اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ وہ قوم یا ملک خوش قسمت ہوتا ہے جس کی اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوتی ہے۔ ایک طرف تو اس کا نقصان یہ ظاہر کیا جاتا کہ یہ ملک کو مفاد پرست ٹولوں کی مدد سے نہیں چلنے دیتی‘ دوسری طرف اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایمرجنسی کی صورت میں یہ مقتدرہ اسے درست پٹڑی پر رواں رکھتی ہے۔ امریکہ سے لے کر برطانیہ تک تمام بڑے ممالک میں یہ قوت ملک کو خطرات سے بچاتی بھی ہے۔ جس طرح آج کل اگر یہ اسٹیبلشمنٹ نہ ہوتی جو جانے ٹرمپ کیا کر گزرتے۔ برطانیہ کا دیکھئے کس طرح عوامی قوتیں اورروایتی اسٹیبلشمنٹ اسے بریگزٹ کے مراحل سے گزارنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ ایک بہت دلچسپ عمل ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر اسٹیبلشمنٹ کو فوج کا متبادل سمجھ لیا جاتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج کے فیصلے بعض اوقات ان قوتوں کے تابع ہوتے ہیں جو ملک کو بچانے کی ضامن ہوتی ہیں۔ بظاہران فیصلوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری فوج کے پاس چلی آتی ہے۔ اس پر تنقید بھی ہوتی ہے اور اس کی طرف نظریں بھی اٹھتی ہیں۔ میں جہاں اس بات کا قائل ہوں کہ جمہوری قوتوں ملک و قوم کے مفاد کی ضامن ہیں۔ وہاں اس بات کو بھی ناگزیر سمجھتاہوں کہ اس قوم کا اجتماعی شعور‘ اس کی مقتدر قوت مضبوط ہو۔ قومیں اسی آزادی اورذمہ داری کے تصور سے مل کرآگے بڑھتی ہیں۔ ابن خلدون جیسے عصبیت کہتا ہے اور جو قوموں کے استحکام کے لئے ضروری ہے۔ اس کا مضبوط ہونا اس قوم کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ یہ عصبیت کا وجود اگر عوامی سطح پر اور مقتدرہ کی حد تک بیک وقت مضبوط اور ہم آہنگ ہو تو وہ قوم قائم و دائم رہتی ہے۔ اس وقت ہم اس سوال سے دوچار ہیں۔ بعض لوگ محسوس کر رہے ہیں ہم اس ہم آہنگی کے عمل سے گزرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہم بہت دنوں سے ایک تتر بتر قوم تھے۔ صرف الزام تراشیوں پر اکتفا کر رہے ہیں۔ اب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ کارکردگی کے بغیر بات آگے نہیں بڑھے گی۔ مگر یہ کیا ہو رہا ہے۔ ٹی وی پر اس وقت شہزاد اکبر اور اٹارنی جنرل احمد منصور خاں کی پریس کانفرنس آ رہی ہے۔ پہلے یہ پریس کانفرنس فروغ نسیم نے شہزاد اکبر کے ساتھ مل کرکی تھی۔ اب صفائیاں دینے کے لئے اٹارنی جنرل آگئے ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کبھی اٹارنی جنرل نے یہ رول ادا کیا ہو۔ کیا فروغ نسیم بھی چھٹی پر چلے گئے ہیں اور اٹارنی جنرل کی طرف سے مقدمے پر اس تفصیل سے وضاحت کرنا کبھی ماضی میں ہوا ہے۔ وہ ریاست کے منصب دار ہیں‘ ان کی طرف سے اس طرح کا کردار ادا کرنا عجیب سا لگتا ہے۔ کیا مطلب ‘ ابھی عقل نہیں آئی اوراگر عقل نہیں آئی تو پھر ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ عرض کیا تھا پاکستان ایک بنانا ریاست نہیں ہے۔ اس کی حفاظت اس کے اندر موجود ایک قوت کی ذمہ داری ہے جو مضبوط ریاست کا حصہ ہوتی ہے۔ یہ قوت خود بخود روبہ عمل آیا کرتی ہے۔ قوموں کی یہ قوت اس کی حفاظت کرتی ہے۔ خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔